ہر لمحہ بڑھتا ہوا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
انسان اس جہان کی وہ واحد مخلوق ہے جو اپنے تھوڑے سے فائدے پر بڑے نقصان کو بالکل خاطر میں نہیں لاتی ہے بلکہ فخریہ اپنے اس احمقانہ عمل کی ترویج بھی کرتی ہے۔
خالقِ کائنات نے خلقِ انسانی کو ’’ اشرف المخلوقات‘‘ کا درجہ عطا فرمایا ہے یعنی اُس متبرک ہستی کی سب سے افضل ترین مخلوق، لیکن جب ماڈرن ایج کے انسان کی تصویر اس پیرائے میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو دماغ اس بات کو ماننے پر قطعی قائل نہیں ہوتا ہے کیونکہ جو خلقت اپنے نفع اور نقصان میں تفریق ہی نہ کر پائے وہ باقیوں پر فوقیت کیسے رکھ سکتی ہے۔
اس دنیا کو تشکیل دینے والے ربِ الٰہی نے یہاں موجود ہر شے خاص انسان کی طبیعت، مزاج اور ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائی ہے، یہ دنیا ہر وہ موسم اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو انسان کی نشوونما اور اُس کی غذا کے پھلنے پھولنے کے لیے اہم ہے۔
ہمارا یہ جہان خوبصورتی کے حوالے سے بھی مالا مال ہے، انسان سے معبودِ حقیقی کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس نے اس دنیا کو ترتیب دینے میں اپنی جانب سے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جب کہ دوسری طرف انسان نے شکرگزاری کے سارے آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ذاتی مفاد کو پورا کرنے کی خاطر یہاں تباہی و بربادی مچا کر رکھ دی ہے۔
انسان جب اس دنیا میں تشریف فرما ہوا تو وہ یہاں سکون کی زندگی بسر کرنے کے بجائے دوسرے انسان سے اپنے سینگ لڑانے لگا، اپنی اور دوسرے کی طاقت کا موازنہ کرنے کے لیے نت نئے طور طریقے ایجاد کرنے لگا اور آہستہ آہستہ انسان کی یہ مقابلے بازی انفرادی سطح سے نکل کر اجتماعیت تک پھیل گئی، چھوٹے پیمانے پر ہاتھوں سے ہونے والی لڑائیاں بڑی بڑی جنگوں میں تبدیل ہوگئیں۔
جیسے جیسے لڑائیوں کی ہیئت بدلی جان لیوا جنگی ہتھیار بھی میدانِ جنگ میں شامل ہوگئے جنھوں نے نہ صرف جذبہ انسانیت کو پامال کیا بلکہ اس دنیا کی فضا کو بھی مضرِ صحت گیسوں اور بارودی مواد سے آلودہ کرکے رکھ دیا ہے۔
اسلحہ، بارود اور جنگی ہتھیاروں سے لیس ہونے کے بعد انسان معاشی مقابلے بازی پر اُتر آیا کیونکہ اُس کو ایسا لگنے لگا کہ میدانِ جنگ میں جیت حاصل کرنے کے لیے اُس کا معاشی طور پر مستحکم ہونا ناگزیر ہے۔ جب بات لڑائی سے پیسے پر منتقل ہوئی تو اس نے بھی دنیا میں بہت نقصان پیدا کیا۔
معاشی دوڑ میں خود آگے نکلنے اور دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کے چکر میں زمانہ حال میں ترقی یافتہ کہلائے جانے والے ملکوں نے دنیا کا سارا نظام درہم برہم کر دیا۔کسی بھی ملک کی معیشت کو دوام وہاں کی صنعتیں عطا کرتی ہے اور اُن صنعتوں کو چلانے کے لیے مشینیں درکار ہوتی ہیں جو بجلی کے ذریعے اپنا کام سرانجام دیتی ہیں۔
عام طور پر بجلی پیدا کرنے کے تین روایتی طریقے ہیں جن میں پہلا کوئلہ، دوسرا تیل/ پٹرول اور تیسرا قدرتی گیس ہے، یہ تینوں ماحول دشمن گرین ہاؤس گیسوں جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کا فضا میں اخراج کر کے دنیا کے موسموں کو بری طرح متاثرکرتی ہیں۔
دراصل سورج کی شعاعوں کو زمین کی ضرورت کے مطابق یہاں گرمائش پہنچا کر واپس لوٹ جانا ہوتا ہے جب کہ گرین ہاؤس گیسوں کی فضا میں بہتات اس قدرتی نظام میں مسلسل خلل پیدا کر رہی ہے، جس میں اُس نے ان کی واپسی کا راستہ ہی بلاک کر کے رکھ دیا ہے۔
لٰہذا جب سورج کی شعاعیں واپس جا نہیں پاتیں تو وہ زمین کو اُس کی حاجت سے زیادہ گرما دیتی ہیں جو کہ فائدے کے بجائے نقصان کا باعث ثابت ہو رہا ہے، سائنس کی اصطلاح میں اس پورے عمل کو ’’ گلوبل وارمنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔
اس ساری صورتحال سے نمٹنے کا واحد اور آسان حل ہریالی کو فروغ دینا اور زیادہ سے زیادہ درخت لگانا ہے کیونکہ یہی درخت ماحول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ اپنے اندر جذب کر کے آکسیجن کو خارج کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
لیکن یہاں بات گھوم پھرکر وہی آ جاتی ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہے، لہٰذا اتنا آسان حل خود اپنے ہاتھوں سے رد کر کے وہ درخت کاٹ کر اُس کی لکڑی بیچ کر پیسے بنانے اور ہری بھری زمین کا ستیاناس کر کے اُس کی جگہ تعمیرات کرنے میں اتنا مگن ہوگیا ہے کہ اُس کو بالکل احساس ہی نہیں ہے کہ اپنے مفادات کو پورا کرنے کے چکر میں وہ اس دنیا کا کتنا بڑا نقصان کر رہا ہے۔
دنیا کے موسموں سے چھیڑ چھاڑکرنے میں پاکستان کا براہ راست ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے مگر اس کے باوجود گلوبل وارمنگ نے ہمارے ملک کو بے حد متاثرکیا ہوا ہے اور مستقبل میں اس حوالے سے مزید خطرناک پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔
دنیا میں نارتھ پول اور ساؤتھ پول کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرز پاکستان میں موجود ہیں جن کی تعداد سات ہزار سے تیرہ ہزار کے درمیان ہے، چونکہ پاکستان کا درجہ حرارت اپنے معمول سے بڑھ رہا ہے تو یہاں گلیشیئرز بھی تیزی سے پگھل رہے ہیں، اس کے ساتھ ہمارے سمندر، دریاؤں اور ندیوں کا پانی بھی آبی بخارات سے بے حساب بارش کے بادل تیار کر رہا ہے جس کے باعث مون سون کے موسم کا دورانیہ لمبا ہوگیا ہے،کلاؤڈ برسٹ جیسے غیرمعمولی واقعات ہمیں دیکھنے کو مل رہے ہیں اور تقریباً ہر سال ہی ملک میں سیلابی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
ہمارے ملک میں بارش کے پانی کا ذخیرہ کرنے کے ذرایع بھی ضرورت سے کافی کم ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں ہر سال بڑھتی ہوئی بارشیں زرعی فصلوں کو بھی بیحد نقصان پہنچاتی ہیں جس کا سیدھا اثر اندرونِ ملک مہنگائی اور بیرونِ ملک ہماری برآمدات پر پڑتا ہے، اس کے علاؤہ ملک میں ہزاروں انسانی جانیں ضایع اور لاکھوں افراد بے گھر بھی ہوتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی،گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی نظام میں ردوبدل آج دنیا کے اس سب سے بڑے خطرے کو ان میں سے جو بھی نام دیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ جو ماحول کا نقصان ہونا تھا وہ ہوچکا ہے، اب یہ نقصان ہر آنیوالے سال میں اپنی شدت میں جو بے انتہا اضافہ کر رہا ہے اُسے کیسے کم کرنا ہے اُس کی جلد از جلد ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے اور اس دنیا اور یہاں کے باسیوں کو بچانے کے سارے راستے ہی بند ہو جائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈائی ا کسائیڈ انسان کی کرنے کے اس دنیا ہے کہ ا رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل کا وجود عالمی امن کیلئے خطرہ: عبدالخبیر آزاد
لاہور (خصوصی نامہ نگار) بادشاہی مسجد لاہور میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ مخلوق خدا کا تعلق اپنے خالق حقیقی کے ساتھ جوڑیں۔ ہم مخلوق خدا کی خدمت کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سیلاب متاثرین کیلئے جو اقدامات کیے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔ پاکستان سعودی عرب دفاعی تاریخی معاہدہ خطے میں امن و استحکام اور امت مسلمہ کی سلامتی و تحفظ کا ضامن ہے۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اسرائیل کا وجود عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے عالمی اسلامی فوج بنائی جائے۔ تمام اسلامی ممالک کے عوام کی سکیورٹی کے انتظامات فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر کی قیادت میں افواج پاکستان کے سپرد کیے جائیں۔ اس موقع پر حرمین شریفین کے تحفظ اور مقبوضہ کشمیر وغزہ و فلسطین کی آزاد ی کیلئے خصوصی دعا کی گئی۔