عالمی تنازعات پر پاکستان کا مؤقف
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے جنرل مباحثہ میں خطاب کے دوران پاک بھارت تعلقات، تنازع فلسطین، اسرائیل، دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سے بہت سی اہم باتیں کی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اہم امور پر انتباہی انداز میں گفتگو کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج کی دنیا پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، تنازعات بڑھ رہے ہیں، بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے، انسانی بحران بڑھتے جا رہے ہیں، دہشت گردی اب بھی ایک طاقتور خطرہ ہے۔
غلط معلومات اور فیک نیوز اعتماد کو مجروح کر رہی ہیں، اسلحے کی بے لگام دوڑ اور نئی ٹیکنالوجیز تباہ کن غلطیوں کے خطرے کو بڑھا رہی ہیں، ماحولیاتی تبدیلی ہماری بقا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کثیر جہتی نظام آج کوئی آپشن نہیں بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
عالمی معاملات پر نظر ڈالی جائے تو وزیراعظم میاں شہباز شریف کی باتیں انتہائی پرمغز اور بامعنی ہیں۔ دنیا کے پسماندہ اور غریب ممالک ہی خطرے سے دوچار نہیں ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی مختلف قسم کے خدشات کی زد میں ہیں۔ اسلحے کی بے لگام دوڑ جہاں غریب ملکوں کی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے، وہاں ترقی یافتہ ممالک کے معاشروں میں بھی اسلحے کی فراوانی کا باعث بن رہی ہے۔
امریکا میں چارلی کرک کی ہلاکت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ فیک نیوز بھی اسی طرح ایک بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس کی زد میں ترقی یافتہ ممالک بھی ہیں اور ترقی پذیر ممالک بھی ہیں۔ اس حوالے سے بھی کوئی عالمی پالیسی ضرور ہونی چاہیے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے وزیراعظم نے واضح انداز میں کہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ویژن پر مبنی ہے جس کی بنیاد امن، باہمی احترام اور تعاون ہے۔ ہم مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل پر یقین رکھتے ہیں ۔ جنوبی ایشیا کو اشتعال انگیز نہیں بلکہ فعال قیادت کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی بات میں بھارت کے لیے بہت اہم پیغام ہے یعنی پاکستان مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کا حل چاہتا ہے۔ بھارت کو اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
وزیراعظم نے ایک بار پھر دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا یکطرفہ اور غیرقانونی اقدام نہ صرف اس معاہدے کی شقوں بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم پانیوں پر اپنی 24 کروڑ آبادی کے ناقابل تنسیخ حق کا بھرپور دفاع کریں گے۔
اس معاہدے کی خلاف ورزی ہمارے لیے اعلان جنگ کے مترادف ہے۔ ان شا اللہ جلد مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا ظلم و جبر ختم ہو جائے گا۔ کشمیری عوام ایک غیرجانبدارانہ ریفرنڈم کے ذریعے اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنا حق خودارادیت حاصل کریں گے۔ مسئلہ کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے۔
امریکا اور یورپی یونین بھی جانتے ہیں کہ تنازع کشمیر انتہائی خطرناک رخ اختیار کر سکتا ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار اس حوالے سے اظہار خیال بھی کیا ہے لیکن بھارت کی قیادت شاید ابھی دیوار پر لکھا ہوا پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے فلسطین کے حوالے سے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت زار ہمارے دور کے سب سے زیادہ دل دہلا دینے والے المیوں میں سے ایک ہے۔ یہ طویل ناانصافی عالمی ضمیر پر دھبہ اور ہماری اجتماعی اخلاقی ناکامی ہے۔
آٹھ دہائیوں سے فلسطینی عوام اپنے وطن پر اسرائیل کے وحشیانہ قبضے کو حوصلے سے برداشت کر رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں ہر گزرتا دن نئی بربریت لا رہا ہے۔ غیر قانونی آباد کار دہشت پھیلاتے ہیں اور بغیر کسی جرم کے قتل کرتے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کے نسل کشی حملوں نے خواتین اور بچوں میں ناقابل بیان دہشت پھیلا دی ہے جس کا دنیا کی تاریخ میں ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ پاکستان فلسطینی عوام کے اس کے مطالبے کی بھرپور حمایت کرتا ہے کہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
فلسطین اب مزید اسرائیلی زنجیروں میں نہیں رہ سکتا، اسے آزاد ہونا ہوگا۔ ہم ان ممالک کا خیرمقدم کرتے ہیں جنھوں نے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کیا ہے، ہم دیگر ممالک پر بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر زور دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل کا دوحہ پر حالیہ حملہ اور دیگر ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزیاں اس کے باغیانہ رویے کی عکاسی کرتی ہیں۔ پاکستان برادر ملک قطر کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے، ہم یوکرین تنازع کے پرامن حل کی بھی حمایت کرتے ہیں تاکہ انسانی تکالیف اور عالمی بحران ختم ہو سکے۔
اسرائیل غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے، یہ سب کچھ دنیا کے سامنے ہے۔ حالت یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی شدید احتجاج کیا گیا۔ عرب اور مسلم رکن ملکوں نے نتین یاہو کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم جیسے ہی تقریر کرنے ڈائس پر آئے تو درجنوں مسلم ممالک کے وفود سمیت بیشتر ممالک کے نمایندے واک آؤٹ کر گئے جس کے باعث ہال کا بڑا حصہ خالی ہوگیا۔ اسرائیل کے حمایتی کچھ وفود باقی رہ گئے۔ اسرائیلی وزیراعظم کو خالی کرسیوں سے ہی خطاب کرنا پڑا۔
وزیراعظم شہباز شریف اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر ختم ہونے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف ہال میں وفد کے ساتھ داخل ہوئے۔ نیتن یاہو کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک آمد پر جنرل اسمبلی کے باہر بھی مظاہرین نے فلسطین سے اظہاریکجہتی کے لیے اور اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل دنیا میں بالکل تنہا ہو چکا ہے۔ سوائے امریکا کے اسے کسی کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے دہشت گردی کے حوالے سے واضح کیا کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ملک کے طور پر کردار ادا کر رہا اور 90 ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔
ہماری ان قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے۔ آج ہمیں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے۔
ہم ٹی ٹی پی، فتنہ خوارج، فتنہ ہندوستان، بی ایل اے اور اس کے مجید بریگیڈ کی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ گروہ افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں۔ ہمارے سیکیورٹی ادارے ان دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں اور ہم اس جنگ کو آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رکھیں گے۔
عبوری افغان حکومت کو خواتین کے حقوق سمیت انسانی حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کرے گی ۔
افغانستان کی حکومت اس وقت سخت دباؤ کا شکار ہے کیونکہ وہ دوحہ میں کیے گئے معاہدے کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے۔ پاکستان، چین، ایران، روس نے افغان حکومت سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزرائے خارجہ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر چوتھے کواڈری پلیٹریٹ اجلاس میں افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی غور کیا اور مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔
مشترکہ بیان میں افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشت گردی کے خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور داعش، القاعدہ، ای ٹی آئی ایم ،ٹی ٹی پی، جیش العدل اوربی ایل اے جیسی تنظیموں کو خطے اور دنیا کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔
وزرائے خارجہ نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے، بھرتی اور مالی معاونت روکنے، اور تربیتی مراکز و ڈھانچے بند کرنے کے لیے اقدامات کریں، افغان سرزمین کو کسی بھی ہمسایہ ملک یا خطے کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
افغانستان کی عبوری حکومت کو وقت کی آواز پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ اب زیادہ دیر تک دوعملی کی پالیسی نہیں چل سکتی۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک بھی مسائل کا شکار ہیں۔
دہشت گردی اب کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں رہی ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ وہ اگر افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کے قابل نہیں ہے تو تب بھی اسے اقوام عالم اور ہمسایہ ممالک کی حکومتوں کے ساتھ اس حوالے سے قابل عمل بات کرنی چاہیے تاکہ دہشت گردی کے خلاف ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے کیونکہ افغانستان کی تعمیر وترقی کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہاں ہتھیار بند گروہوں کا خاتمہ ہو جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جنرل اسمبلی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے افغانستان کی دہشت گردی کے اس حوالے سے کے حوالے سے اسرائیل کے ممالک بھی کرتے ہیں کے خلاف رہے ہیں ہیں اور اور ہم کے لیے رہی ہے نے کہا کہا کہ چکا ہے
پڑھیں:
افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے، دفتر خارجہ
اسلام آباد(نیوزڈیسک) وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے، مسلح دہشت گردوں کو زبردستی سرحد پار دھکیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور، برادر ممالک ترکی اور قطر کی ثالثی میں، 7 نومبر 2025 کو استنبول میں مکمل ہوا۔
پاکستان برادر ممالک ترکی اور قطر کی ان مخلصانہ کوششوں کی دل سے قدر کرتا ہے، جو انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردی کے اُس بنیادی مسئلے پر ثالثی کے لیے کیں، جو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف جاری ہے۔
گزشتہ چار برسوں سے، جب سے افغانستان میں طالبان حکومت برسر اقتدار آئی، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان برسوں کے دوران پاکستان نے، فوجی اور شہری جانی نقصان اٹھانے کے باوجود، انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔
پاکستان کی توقع تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ طالبان حکومت ان حملوں پر قابو پا لے گی اور افغان سرزمین پر موجود ٹی ٹی پی / فتنۃ الخوارج کے عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کرے گی۔
ان برسوں میں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مثبت تعلقات قائم رکھنے کی کوشش بھی کی، جس کے تحت دوطرفہ تجارت میں سہولتیں فراہم کی گئیں اور انسانی بنیادوں پر امداد دی گئی۔ پاکستان کی نیت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ افغانستان ایک مستحکم، پُرامن اور خوشحال ملک بنے جو اپنے اندر اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہے۔
تاہم، پاکستان کی جانب سے تجارت، انسانی امداد، تعلیمی و طبی ویزوں میں سہولت، اور بین الاقوامی فورمز پر طالبان حکومت کے ساتھ مثبت رابطے کی ترغیب دینے کے باوجود، طالبان حکومت کی جانب سے محض کھوکھلے وعدے اور عدمِ عمل کے سوا کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی بنیادی توقع — کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دیا جائے — پر عمل کرنے کے بجائے طالبان حکومت ہمیشہ ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات سے گریز کرتی رہی ہے۔
اس کے برعکس، وہ اصل مسئلے یعنی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لیے غیر متعلقہ اور فرضی معاملات کو سامنے لاتی رہی ہے۔ اس طرح طالبان حکومت ایک ایسا بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرتی رہی ہے جو اسے بین الاقوامی برادری اور اپنے عوام کے سامنے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ظاہر کرے۔
افغانستان سے مسلسل ہونے والے حملوں کے جواب میں اکتوبر 2025 میں پاکستان کی کارروائی اس عزم اور ارادے کی عکاس تھی کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔
ٹی ٹی پی/ فتنۃ الخوارج اور بی ایل اے/فتنۃ الہندوستان ریاست پاکستان اور اس کے عوام کے دشمن قرار دیے جا چکے ہیں۔ جو کوئی بھی ان کی پناہ، مدد یا مالی اعانت کرے، وہ پاکستان اور اس کے عوام کا خیر خواہ نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان اپنے مفادات اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
اسی کے ساتھ پاکستان امن اور سفارت کاری کا بھی مضبوط حامی ہے۔ پاکستان ہمیشہ یہ مؤقف رکھتا آیا ہے کہ طاقت کا استعمال آخری چارہ کار ہونا چاہیے۔ اسی جذبے کے تحت، اور برادر ممالک ترکی اور قطر کے مخلصانہ مشورے پر عمل کرتے ہوئے، پاکستان نے مخلص دوستوں کی ثالثی میں پاک-افغان امن مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔
ان مذاکرات کے پہلے دور میں دوحہ میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور ذمہ داری کے چند اصولوں پر اتفاق ہوا، جس کے نتیجے میں پاکستان نے عارضی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی۔
دوسرا دور استنبول میں ہوا، جس کا مقصد دوحہ میں طے پانے والے اقدامات کے نفاذ کا طریقہ کار وضع کرنا تھا۔ تاہم طالبان حکومت کے نمائندوں نے عملی اقدامات سے گریز کیا اور اپنے کیے ہوئے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اشتعال انگیز اور الزام تراش میڈیا بیانات کے ذریعے ماحول کو بھی خراب کیا۔ پاکستان نے اپنے بنیادی مطالبے — یعنی افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر کے خلاف قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی — پر سختی سے مؤقف برقرار رکھا۔
تیسرے دور میں بھی پاکستان نے تعمیری رویہ اپنایا اور ایک مؤثر مانیٹرنگ میکانزم کے قیام پر توجہ مرکوز رکھی۔ لیکن افغان فریق نے دہشت گردی کے بنیادی مسئلے سے توجہ ہٹانے اور غیر متعلقہ و بے بنیاد الزامات کے ذریعے مذاکرات کے دائرہ کار کو پھیلانے کی کوشش کی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ جو کوئی بھی ترکی اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کا جائزہ لے، وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ طالبان حکومت کا اصل مقصد صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا تھا، بغیر اس کے کہ وہ ٹی ٹی پی/ فتنۃ الخوارج اور بی ایل اے/فتنۃ الہندوستان عناصر کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات کرتی۔ اس کے برعکس، افغان حکومت نے پاکستان کے خلاف جھوٹے الزامات اور اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے مذاکرات کو طول دیا اور کسی ٹھوس نتیجے تک پہنچنے کی کوششوں کو ناکام بنایا۔
ساتھ ہی طالبان حکومت افغانستان میں موجود پاکستانی دہشت گردوں کے مسئلے کو انسانی ہمدردی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ آپریشن ضربِ عضب (2015) کے بعد، ٹی ٹی پی/ فتنۃ الخوارج کے دہشت گرد افغانستان فرار ہو گئے تھے۔ انہوں نے افغان طالبان ISAF اور اس وقت کی افغان حکومت کے خلاف جنگ میں مدد کی تھی۔ اب طالبان حکومت ان دہشت گردوں اور ان کے خاندانوں کو اپنے پاس پناہ دے رہی ہے۔ یہی دہشت گرد اب افغانستان میں تربیتی کیمپ چلا کر پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کر رہے ہیں۔
پاکستان نے طالبان حکومت سے ان دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے، لیکن طالبان حکومت نے بارہا انکار کیا ہے، یہ کہہ کر کہ ان کے قابو میں نہیں۔ اب یہ معاملہ صلاحیت سے زیادہ نیت کا بن چکا ہے۔ طالبان حکومت کے کھوکھلے وعدے اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ پاکستان کے عوام اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے اب ٹھوس اور حتمی اقدامات ضروری ہیں۔
طالبان حکومت ٹی ٹی پی/ فتنۃ الخوارج اور بی ایل اے/فتنۃ الہندوستان کے دہشت گردوں کو پناہ گزین ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن یہ انسانی یا پناہ گزینوں کا معاملہ نہیں، بلکہ دہشت گردوں کو پناہ گزین بنا کر پیش کرنے کا ایک فریب ہے۔
پاکستان ہر اس پاکستانی کو واپس لینے کے لیے تیار ہے جو افغانستان میں مقیم ہے، بشرطے کہ انہیں طورخم یا چمن کی سرحدی گزرگاہوں پر باضابطہ طور پر حوالے کیا جائے، نہ کہ انہیں جدید ہتھیاروں سے لیس کر سرحد کے اُس پار دھکیلا جائے۔
پاکستان نے کبھی کابل میں کسی حکومت کے ساتھ بات چیت سے انکار نہیں کیا، تاہم پاکستان کسی دہشت گرد تنظیم، خواہ وہ ٹی ٹی پی/ فتنۃ الخوارج اور بی ایل اے/فتنۃ الہندوستان ، کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ افغان طالبان میں ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستان کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے، مگر ایک مضبوط گروہ — جو بیرونی عناصر کی مالی مدد سے سرگرم ہے — کشیدگی بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
اپنی حکومت کے اندرونی اختلافات کو ختم کرنے اور جائز حیثیت حاصل کرنے کی کوشش میں، طالبان حکومت کے بعض عناصر اور پاکستان مخالف دہشت گرد گروہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کو مفید سمجھتے ہیں۔ ان کے بیانات اور الزامات پاکستان کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کو ہوا دے رہے ہیں، جس سے وہ پاکستان میں موجود اپنی باقی ماندہ نیک نیتی بھی کھو رہے ہیں۔
طالبان حکومت کے کچھ عناصر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں افغان پالیسی پر اختلافات ہیں، لیکن یہ ایک گمراہ کن پروپیگنڈا ہے۔ پاکستانی عوام میں اس معاملے پر مکمل اتفاق ہے کہ افغانستان میں چھپے دہشت گرد عناصر اور ان کے سہولت کاروں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے سب سے بڑے متاثرین خود پاکستانی عوام ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے قربانیاں دے رہی ہیں، اور پوری قوم اپنی مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے تاکہ پاکستان کے مفادات اور عوام کی زندگیوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان اپنے تمام اندرونی چیلنجز سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے بارہا طالبان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان پر حملے کرنے والے دہشت گردوں کی حمایت بند کرے۔
اگست 2021 کے بعد افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافے کے ٹھوس اور مستند شواہد کے پیشِ نظر طالبان حکومت نہ تو اس حقیقت سے انکار کر سکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو سکتی ہے۔
اسی طرح طالبان حکومت کے بعض عناصر پاکستان میں پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے پشتون ایک متحرک، قومی دھارے کا حصہ ہیں اور سیاست و انتظامیہ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ پاکستان میں افغانستان سے زیادہ پشتون آباد ہیں۔ لہٰذا طالبان حکومت کو پاکستان میں پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کے بجائے اپنے ملک میں تمام نسلی گروہوں کی شمولیت پر غور کرنا چاہیے۔
جبکہ افغان طالبان دہشت گردی کو پاکستان کا ”اندرونی مسئلہ“ قرار دیتے ہیں، وہ یہ نہیں بتاتے کہ افغانستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملوں کے جواز میں فتوے جاری کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں میں اب بڑی تعداد افغان شہریوں کی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمان اور آئین کے مینڈیٹ کے تحت، پاکستان کی مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں اور وہ عوام کی مکمل حمایت کے ساتھ یہ قربانیاں جاری رکھیں گی۔
پاکستان دوطرفہ اختلافات کے حل کے لیے مکالمے کا پابند ہے۔ تاہم، پاکستان کا بنیادی تحفظاتی مسئلہ — یعنی افغانستان سے آنے والی دہشت گردی — سب سے پہلے حل کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اور عوام اپنے عزم میں متحد ہیں کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے اور اس کے سہولت کاروں، معاونین اور مالی مددگاروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔