عالمی تنازعات پر پاکستان کا مؤقف
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے جنرل مباحثہ میں خطاب کے دوران پاک بھارت تعلقات، تنازع فلسطین، اسرائیل، دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سے بہت سی اہم باتیں کی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اہم امور پر انتباہی انداز میں گفتگو کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج کی دنیا پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، تنازعات بڑھ رہے ہیں، بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے، انسانی بحران بڑھتے جا رہے ہیں، دہشت گردی اب بھی ایک طاقتور خطرہ ہے۔
غلط معلومات اور فیک نیوز اعتماد کو مجروح کر رہی ہیں، اسلحے کی بے لگام دوڑ اور نئی ٹیکنالوجیز تباہ کن غلطیوں کے خطرے کو بڑھا رہی ہیں، ماحولیاتی تبدیلی ہماری بقا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کثیر جہتی نظام آج کوئی آپشن نہیں بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
عالمی معاملات پر نظر ڈالی جائے تو وزیراعظم میاں شہباز شریف کی باتیں انتہائی پرمغز اور بامعنی ہیں۔ دنیا کے پسماندہ اور غریب ممالک ہی خطرے سے دوچار نہیں ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی مختلف قسم کے خدشات کی زد میں ہیں۔ اسلحے کی بے لگام دوڑ جہاں غریب ملکوں کی معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے، وہاں ترقی یافتہ ممالک کے معاشروں میں بھی اسلحے کی فراوانی کا باعث بن رہی ہے۔
امریکا میں چارلی کرک کی ہلاکت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ فیک نیوز بھی اسی طرح ایک بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس کی زد میں ترقی یافتہ ممالک بھی ہیں اور ترقی پذیر ممالک بھی ہیں۔ اس حوالے سے بھی کوئی عالمی پالیسی ضرور ہونی چاہیے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے وزیراعظم نے واضح انداز میں کہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ویژن پر مبنی ہے جس کی بنیاد امن، باہمی احترام اور تعاون ہے۔ ہم مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل پر یقین رکھتے ہیں ۔ جنوبی ایشیا کو اشتعال انگیز نہیں بلکہ فعال قیادت کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی بات میں بھارت کے لیے بہت اہم پیغام ہے یعنی پاکستان مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کا حل چاہتا ہے۔ بھارت کو اس حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
وزیراعظم نے ایک بار پھر دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا یکطرفہ اور غیرقانونی اقدام نہ صرف اس معاہدے کی شقوں بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم پانیوں پر اپنی 24 کروڑ آبادی کے ناقابل تنسیخ حق کا بھرپور دفاع کریں گے۔
اس معاہدے کی خلاف ورزی ہمارے لیے اعلان جنگ کے مترادف ہے۔ ان شا اللہ جلد مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا ظلم و جبر ختم ہو جائے گا۔ کشمیری عوام ایک غیرجانبدارانہ ریفرنڈم کے ذریعے اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنا حق خودارادیت حاصل کریں گے۔ مسئلہ کشمیر دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے۔
امریکا اور یورپی یونین بھی جانتے ہیں کہ تنازع کشمیر انتہائی خطرناک رخ اختیار کر سکتا ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار اس حوالے سے اظہار خیال بھی کیا ہے لیکن بھارت کی قیادت شاید ابھی دیوار پر لکھا ہوا پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے فلسطین کے حوالے سے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت زار ہمارے دور کے سب سے زیادہ دل دہلا دینے والے المیوں میں سے ایک ہے۔ یہ طویل ناانصافی عالمی ضمیر پر دھبہ اور ہماری اجتماعی اخلاقی ناکامی ہے۔
آٹھ دہائیوں سے فلسطینی عوام اپنے وطن پر اسرائیل کے وحشیانہ قبضے کو حوصلے سے برداشت کر رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں ہر گزرتا دن نئی بربریت لا رہا ہے۔ غیر قانونی آباد کار دہشت پھیلاتے ہیں اور بغیر کسی جرم کے قتل کرتے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کے نسل کشی حملوں نے خواتین اور بچوں میں ناقابل بیان دہشت پھیلا دی ہے جس کا دنیا کی تاریخ میں ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ پاکستان فلسطینی عوام کے اس کے مطالبے کی بھرپور حمایت کرتا ہے کہ 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
فلسطین اب مزید اسرائیلی زنجیروں میں نہیں رہ سکتا، اسے آزاد ہونا ہوگا۔ ہم ان ممالک کا خیرمقدم کرتے ہیں جنھوں نے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کیا ہے، ہم دیگر ممالک پر بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر زور دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل کا دوحہ پر حالیہ حملہ اور دیگر ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزیاں اس کے باغیانہ رویے کی عکاسی کرتی ہیں۔ پاکستان برادر ملک قطر کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے، ہم یوکرین تنازع کے پرامن حل کی بھی حمایت کرتے ہیں تاکہ انسانی تکالیف اور عالمی بحران ختم ہو سکے۔
اسرائیل غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے، یہ سب کچھ دنیا کے سامنے ہے۔ حالت یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھی شدید احتجاج کیا گیا۔ عرب اور مسلم رکن ملکوں نے نتین یاہو کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم جیسے ہی تقریر کرنے ڈائس پر آئے تو درجنوں مسلم ممالک کے وفود سمیت بیشتر ممالک کے نمایندے واک آؤٹ کر گئے جس کے باعث ہال کا بڑا حصہ خالی ہوگیا۔ اسرائیل کے حمایتی کچھ وفود باقی رہ گئے۔ اسرائیلی وزیراعظم کو خالی کرسیوں سے ہی خطاب کرنا پڑا۔
وزیراعظم شہباز شریف اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر ختم ہونے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف ہال میں وفد کے ساتھ داخل ہوئے۔ نیتن یاہو کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک آمد پر جنرل اسمبلی کے باہر بھی مظاہرین نے فلسطین سے اظہاریکجہتی کے لیے اور اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل دنیا میں بالکل تنہا ہو چکا ہے۔ سوائے امریکا کے اسے کسی کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے دہشت گردی کے حوالے سے واضح کیا کہ پاکستان انسداد دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ملک کے طور پر کردار ادا کر رہا اور 90 ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔
ہماری ان قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے کہا دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے۔ آج ہمیں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے۔
ہم ٹی ٹی پی، فتنہ خوارج، فتنہ ہندوستان، بی ایل اے اور اس کے مجید بریگیڈ کی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ گروہ افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں۔ ہمارے سیکیورٹی ادارے ان دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں اور ہم اس جنگ کو آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رکھیں گے۔
عبوری افغان حکومت کو خواتین کے حقوق سمیت انسانی حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کرے گی ۔
افغانستان کی حکومت اس وقت سخت دباؤ کا شکار ہے کیونکہ وہ دوحہ میں کیے گئے معاہدے کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہے۔ پاکستان، چین، ایران، روس نے افغان حکومت سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزرائے خارجہ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر چوتھے کواڈری پلیٹریٹ اجلاس میں افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی غور کیا اور مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔
مشترکہ بیان میں افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشت گردی کے خطرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور داعش، القاعدہ، ای ٹی آئی ایم ،ٹی ٹی پی، جیش العدل اوربی ایل اے جیسی تنظیموں کو خطے اور دنیا کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔
وزرائے خارجہ نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے، بھرتی اور مالی معاونت روکنے، اور تربیتی مراکز و ڈھانچے بند کرنے کے لیے اقدامات کریں، افغان سرزمین کو کسی بھی ہمسایہ ملک یا خطے کے خلاف استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
افغانستان کی عبوری حکومت کو وقت کی آواز پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ اب زیادہ دیر تک دوعملی کی پالیسی نہیں چل سکتی۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک بھی مسائل کا شکار ہیں۔
دہشت گردی اب کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں رہی ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت کو اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ وہ اگر افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کے قابل نہیں ہے تو تب بھی اسے اقوام عالم اور ہمسایہ ممالک کی حکومتوں کے ساتھ اس حوالے سے قابل عمل بات کرنی چاہیے تاکہ دہشت گردی کے خلاف ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے کیونکہ افغانستان کی تعمیر وترقی کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہاں ہتھیار بند گروہوں کا خاتمہ ہو جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جنرل اسمبلی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے افغانستان کی دہشت گردی کے اس حوالے سے کے حوالے سے اسرائیل کے ممالک بھی کرتے ہیں کے خلاف رہے ہیں ہیں اور اور ہم کے لیے رہی ہے نے کہا کہا کہ چکا ہے
پڑھیں:
دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن کی ضرورت ہے ریاست کی رٹ چیلنج نہیں ہونے دیں گے، وزیراعلیٰ بلوچستان
اسلام آباد:وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن کی ضرورت ہے ریاست کی رٹ چیلنج نہیں ہونے دیں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ کل ایک انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا تھا کل ہماری فورسز اس گھر تک پہنچیں جہاں دہشت گرد چھپے ہوئے تھے، فورسز پر اس گھر سے فائرنگ کی گئی، فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ ایک دہشت گرد جہانزیب نے سرنڈر کیا جو ان کا ساتھی زندہ گرفتار ہوا یہ دہشت گرد دالبندین کے علاقے میں دہشت گردوں کی بھرتی کرتا تھا یہ ایک ہارڈ کور دہشت گرد گرفتار ہوا ہے یہ دالبندین میں اسلحہ سپلائی کرتا تھا۔
انہوں ںے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف سخت آپریشن کی ضرورت ہے ریاست کی رٹ چیلنج نہیں ہونے دیں گے، بلوچستان میں قیام امن کے لیے کام کررہے ہیں، دہشت گردوں کو کسی صورت رعایت نہیں دیں گے وہ نہتے شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گرد، بلوچوں کے نام پر اسٹیٹ کو ڈی اسٹیبلائزڈ کررہے ہیں کس نے کہا ہے کہ ہم نے مذاکرات نہیں کیے؟ ہم پر کوئی دباؤ نہیں تھا پھر بھی ہم نے مذاکرات کی کوشش کی مینگل صاحب اور مالک صاحب کی جماعتوں کے لوگ بھی ہمارے ساتھ تھے، ایک لوگ وہ ہیں جنہوں ںے بندوق نہیں اٹھائی اور ایک وہ ہیں جنہوں نے بندوق اٹھائی ہوئی ہے، اگر کوئی محروم ہے تو کیا وہ لوگوں کو قتل کرنا شروع کردے؟ یہ وائلنس کا کوئی جواز نہیں ہے، اسے ہم کبھی ناراض بلوچ اور کبھی محرومی کا نام دیتے ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ لاپتا افراد سے متعلق ماہ رنگ بلوچ پروپیگنڈا کررہی ہیں، ہم ریاست کے اندر ریاست بنانے نہیں دیں گے۔