Jasarat News:
2025-09-27@23:28:11 GMT

وزیراعظم کا اقوام متحدہ سے خطاب

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250928-03-2

 

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کئی اہم نکات اجاگر کیے۔ ان کے خطاب میں جہاں پاکستان کی دفاعی کامیابیوں اور خطے میں امن کے قیام کی خواہش کا اظہار تھا، وہیں فلسطین، کشمیر، موسمیاتی تبدیلی، اسلاموفوبیا اور معاشی اصلاحات جیسے موضوعات بھی شامل تھے۔ بظاہر یہ ایک اس طرح کے فورم میں ہونے والی تقریروں کی طرح تھی، لیکن دراصل یہ پاکستان کے موقف اور امت مسلمہ کے اجتماعی درد کی عکاس تھی۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا صرف بیانات اور قراردادیں کافی ہیں؟ یا وقت اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ پاکستان اور امت مسلمہ عملی اقدامات کی طرف بڑھیں؟ پاکستان اس وقت عالم میں اہمیت کا حامل ملک ہے اس کی اسٹرٹیجک حقیقت مسلّم ہے۔ برصغیر، مشرق وسطیٰ، وسط ایشیا اور چین کے درمیان واقع پاکستان عالمی سیاست کا محور ہے۔ اس کی ایٹمی صلاحیت اور دنیا کی بہترین افواج میں شامل عسکری ڈھانچہ اسے خطے اہم بناتا ہے۔ وزیراعظم کا یہ دعویٰ کہ پاکستان جنگ جیت چکا ہے اور اب امن چاہتا ہے، اپنی جگہ درست ہے، لیکن امن صرف اسی وقت ممکن ہے جب بھارت بھی حقیقت کو تسلیم کرے۔ کشمیر کی جدوجہد ِ آزادی کو کچلنا اور سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ معطل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ نئی دہلی امن نہیں بلکہ بالادستی چاہتا ہے۔ پاکستان کو دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ جنوبی ایشیا میں امن کی کنجی صرف مذاکرات نہیں بلکہ انصاف ہے۔ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی یاد دہانی کرائی۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر محض ایک سرحدی تنازع نہیں بلکہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت کی ہندوتوا پالیسی کشمیری عوام کو جبر و استبداد کے ذریعے غلام بنانا چاہتی ہے۔ پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ کشمیری عوام کی آواز کو عالمی پلیٹ فارم پر مزید بلند کرے۔ جب تک بھارت ظلم سے باز نہیں آتا، جامع مذاکرات کی بات ادھوری رہے گی۔ امن کی شرط انصاف ہے اور انصاف کے بغیر کوئی پائیدار امن ممکن نہیں۔ وزیراعظم نے فلسطین کے مسئلے پر موثر انداز میں بات کی اور اسرائیل کی نسل کشی کو تاریخ کا بدترین باب قرار دیا۔ غزہ کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت ِ زار ہمارے دور کے سب سے دل دہلا دینے والے المیوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ طویل ناانصافی عالمی ضمیر پر ایک گہرا داغ اور ہماری اجتماعی اخلاقی ناکامی ہے، تقریباً اسّی برسوں سے فلسطینی اپنی سرزمین پر اسرائیل کے ظالمانہ اور جابرانہ قبضے کا بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں غیرقانونی آباد کار بلاخوف و خطر روزانہ فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں اور کوئی ان سے بازپْرس کرنے والا نہیں ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ غزہ میں جو تباہی جاری ہے، وہ نسل کشی کے زمرے میں آتی ہے؛ عورتیں اور بچے جان بوجھ کر نشانہ بنائے جا رہے ہیں، اور یہ ظلم ایسے پیمانے پر ہے جس کی نظیر تاریخ کے تاریک اور ناقابل ِ فراموش ابواب میں ملے گی۔ انہوں نے 6 سالہ فلسطینی بچی ہند رجب کی مثال دے کر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی، جو اپنے خاندان کے ساتھ غزہ سے جاتے وقت شہید ہوئی، ہند رجب کی کہانی اس جنگ کے سب سے دلخراش مناظر میں سے ایک بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم سب نے اْس فون کال میں اس کی کانپتی ہوئی آواز سنی تھی، جب ننھی ہند نے اسرائیلی حملے کے دوران زندہ رہنے کی جدوجہد میں مدد مانگی تھی‘‘۔ اپنے خطاب کو جذباتی انداز میں جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مخاطب سے سوال کیا ’’کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وہ ننھی ہند ہماری بیٹی ہوتی؟ ہم اسے بچانے میں ناکام رہے، اور یہ ناکامی ہمیں اس دنیا میں اور آخرت میں معاف نہیں ملے گی‘‘۔ لیکن یہاں پاکستان اور عالم اسلام کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا۔ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہے، اور اصل حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب یہ ناجائز قبضہ ختم ہو۔ دو ریاستی حل کی گردان دراصل مسئلے کو طول دینے کی سازش ہے۔ اسلامی ممالک کو اب یہ طے کر لینا ہوگا کہ ’’ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ کے تحت اسرائیل کے غاصبانہ وجود کو مزید قبول نہیں کیا جائے گا۔ فلسطین کی آزادی امت مسلمہ کی اجتماعی ذمے داری ہے، اور اگر آج بھی مسلمان ممالک عملی اقدامات نہ کریں تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ وزیراعظم نے ترکیہ، سعودی عرب، ایران، چین اور دیگر دوست ممالک کا شکریہ ادا کیا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ملنے ملانے کے باوجود امت مسلمہ آج اپنے اپنے مفادات کے باعث بکھری ہوئی ہے۔ باہمی اختلافات اور داخلی کمزوریوں نے اسے کمزور کر دیا ہے۔ فلسطین، کشمیر اور دیگر مسائل پر مسلمانوں کے پاس قراردادیں تو ہیں مگر عملی لائحہ عمل نہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلامی ممالک ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں، اسرائیل کے ساتھ تعلقات ختم کریں، کشمیر پر بھارت پر دباؤ بڑھائیں اور عالمی سطح پر ایک متفقہ حکمت عملی اپنائیں۔ امت مسلمہ اگر اب بھی بیدار نہ ہوئی تو آنے والی نسلیں اس کی کمزوری کو ناقابل ِ معافی جرم سمجھیں گی۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے درست نشاندہی کی کہ پاکستان گلوبل وارمنگ میں ایک فی صد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے۔ 2022 کے سیلاب نے اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی برادری کے سامنے ماحولیاتی انصاف کا مقدمہ مزید شدت سے لڑے۔ لیکن ساتھ ہی داخلی سطح پر شفافیت اور وسائل کے درست استعمال کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ دنیا کو یہ دکھانا ہوگا کہ پاکستان صرف امداد کا خواہاں نہیں بلکہ اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے اپنی ذمے داری بھی نبھا رہا ہے۔ وزیراعظم نے بجا طور پر کہا کہ افغانستان کا امن پورے خطے کے امن سے جڑا ہوا ہے۔ دہشت گرد گروہوں کے خاتمے اور انسانی حقوق کے احترام کے بغیر افغانستان مستحکم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کے لیے کردار ادا کیا ہے لیکن عالمی طاقتوں کو بھی اپنی ذمے داری ادا کرنا ہوگی۔ خطے کی پائیدار ترقی اسی وقت ممکن ہے جب افغانستان سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ وزیرعظم نے اسلاموفوبیا اور بھارت کی ہندوتوا پالیسی پر بھی بات کی۔ یہ حقیقت ہے کہ مغربی دنیا میں اسلام کے خلاف نفرت انگیز رجحانات اور بھارت میں مسلمانوں پر مظالم عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ پاکستان کو او آئی سی کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں ایسی قانون سازی کی مہم چلانی چاہیے جو اسلاموفوبیا کو عالمی جرم کے طور پر تسلیم کرے۔ مسلمانوں کو اپنے عقیدے کے تحفظ کے لیے متحد ہونا ہوگا، ورنہ یہ نفرت آگے چل کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ وزیراعظم نے معاشی اصلاحات، ڈیجیٹلائزیشن، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور کرپٹو کرنسی کی بات کی۔ یہ سب جدید تقاضے ہیں اور خوش آئند بھی، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب تک کرپشن، نااہلی اور بدانتظامی ختم نہیں ہوگی، کوئی بھی اصلاح دیرپا نہیں ہوسکے گی۔ قوم کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ اصل تبدیلی طاقتور کو قانون کے تابع کرنے اور شفاف حکمرانی کے قیام میں ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا خطاب کئی حوالوں سے اہم اور جامع تھا۔ اس نے پاکستان کے مؤقف کو دنیا کے سامنے رکھا اور امت مسلمہ کے دکھوں کی عکاسی کی۔ مگر اب اصل امتحان تقریر کے بعد شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو قائداعظم کے وژن کے مطابق جرأت مند اور فعال بنانا ہوگا۔ فلسطین اور کشمیر پر غیر متزلزل موقف کے ساتھ کچھ آگے بڑھنا ہوگا۔

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ پاکستان کو کہ پاکستان نہیں بلکہ انہوں نے یہ ہے کہ ہوگا کہ کے ساتھ

پڑھیں:

ٹرمپ کی کھلی اور تباہ کن یکہ تازیاں

اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گذشتہ موقف دہراتے ہوئے دعوی کیا کہ "اقوام متحدہ نے عمل سے زیادہ باتیں کی ہیں" اور نیو ورلڈ آرڈر میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو "بڑا دھوکہ" قرار دیا اور پناہ گزینوں کو دنیا کے ممالک کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ ٹرمپ نے یہ باتیں ایسے وقت کی ہیں جب فلسطین پر اسرائیل کی بہیمانہ جارحیت سے لے کر یوکرین جنگ اور مشرق وسطی میں جاری دیگر تنازعات تک بہت سے عالمی بحران بین الاقوامی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور ان کی ثالثی کے محتاج ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی پوزیشن کمزور کرنے کی کوشش دنیا کو عدم استحکام اور انتشار کے نہ ختم ہونے والے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی تقریر پر مختلف قسم کے ردعمل بھی سامنے آئے ہیں۔ تحریر: احسان شیخون
 
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر نے بہت کھل کر اور واضح ترین ممکنہ شکل میں یکہ تازیوں پر مبنی انداز کو عیاں کیا ہے جبکہ ٹرمپ کی "فرسٹ امریکہ" کی پالیسی بھی انتہاپسندانہ ترین شکل میں منظرعام پر آئی ہے۔ یہ انداز نہ صرف عالمی سطح پر دنیا کو درپیش مختلف بحرانوں کے حل میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتا بلکہ بین الاقوامی تعاون اور اعتماد پر ایک کاری ضرب بھی ہے۔ ٹرمپ نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایسا انداز اپنایا جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس نے اقوام متحدہ کو "بے ارزش اور ناکارہ" قرار دیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا: "جو ملک بھی سلامتی کا خواہاں ہے اسے امریکہ کی چھتری کے نیچے آ جانا چاہیے۔" اس نے حتی تمسخر آمیز انداز میں عمارت میں چند ٹیکنیکل مسائل کی طرف اشارہ کیا اور اسے اقوام متحدہ کی نالائقی کا ثبوت قرار دیا۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گذشتہ موقف دہراتے ہوئے دعوی کیا کہ "اقوام متحدہ نے عمل سے زیادہ باتیں کی ہیں" اور نیو ورلڈ آرڈر میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے ماحولیاتی تبدیلیوں کو "بڑا دھوکہ" قرار دیا اور پناہ گزینوں کو دنیا کے ممالک کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ ٹرمپ نے یہ باتیں ایسے وقت کی ہیں جب فلسطین پر اسرائیل کی بہیمانہ جارحیت سے لے کر یوکرین جنگ اور مشرق وسطی میں جاری دیگر تنازعات تک بہت سے عالمی بحران بین الاقوامی اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور ان کی ثالثی کے محتاج ہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی پوزیشن کمزور کرنے کی کوشش دنیا کو عدم استحکام اور انتشار کے نہ ختم ہونے والے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ میں ٹرمپ کی تقریر پر مختلف قسم کے ردعمل بھی سامنے آئے ہیں۔
 
امریکہ کے کچھ اتحادی ممالک نے خاموشی اختیار کی لیکن یورپی ممالک جیسے بعض ممالک کے نمائندوں نے ٹرمپ سے اپنی مخالفت کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے کہا: "اقوام متحدہ تمام تر نقائص کے باوجود اب بھی عالمی گفت و شنود کا اصلی پلیٹ فارم ہے۔ اس ادارے کا متبادل فراہم کرنے کا نتیجہ انارکی اور شدید قسم کے انتشار کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔" ٹرمپ نے بین الاقوامی اداروں کو کم اہمیت ظاہر کر کے بین الاقوامی تعلقات عامہ جیسی پیچیدہ حقیقت کا انکار کیا ہے۔ امریکہ اگرچہ طاقتور معیشت کا مالک ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر موجود بحرانوں کا حل صرف ایک ملک پر بھروسہ کرنے سے ممکن نہیں ہے۔ "امریکہ کی چھتری تلے جمع ہو جاو" کی پالیسی اگر عملی جامہ بھی پہن لے تب بھی پائیدار امن برقرار نہیں ہو سکتا۔
 
کیونکہ ایسی صورت میں بھی دنیا کے ممالک کے سامنے دو مشکل انتخاب قرار پائیں گے: واشنگٹن کی بے چون و چرا اطاعت یا حریف بلاک جیسے چین اور روس پر مشتمل بلاک کو مضبوط بنانا۔ دونوں صورت میں مشکلات مزید بڑھیں گی اور کم نہیں ہوں گی۔ ٹرمپ ایک طرف اقوام متحدہ کی عدم افادیت کی بات کرتا ہے جبکہ یہی ادارہ اس کی موجودگی اور تقریر کے لیے عالمی پلیٹ فارم مہیا کر رہا ہے۔ وہ اسی تنظیم کی عمارت میں آ کر اسے "بے اہمیت" کہہ رہا ہے جو اب تک دنیا بھر میں امریکی پالیسیوں کو رائج کرتی آئی ہے۔ یہ واضح تضاد ظاہر کرتا ہے کہ اصل مقصد تعمیری تنقید نہیں بلکہ ایسے ادارے کا اعتبار اور حیثیت ختم کرنا ہے جو اکثر اوقات امریکہ کی یکہ تازیوں کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے۔ اگر ٹرمپ کی تقریر واقعی امریکی حکومت کی مین پالیسی بن جائے تو اس کے نتیجے میں بین الاقوامی ادارے کمزور ہو جائیں گے۔
 
ایسی صورت میں اقوام متحدہ کا بجٹ اور اثرورسوخ کم ہو جائے گا اور یوں دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی: ایک حصہ امریکہ کی قیادت میں اتحاد اور دوسرا حصہ مخالف اتحاد تشکیل دے گا۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے ممالک پر ان دو بلاکس میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لیے دباو بڑھے گا اور عالمی بحرانوں کے حل کے لیے گفتگو اور مذاکرات مشکل ہوتے جائیں گے۔ ایسی صورتحال حتی خود امریکہ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو گی کیونکہ کوئی بھی ملک اکیلے میں عالمی سطح پر موجود پیچیدہ مسائل جیسے ماحولیاتی تبدیلیاں، مہاجرت یا علاقائی جنگیں وغیرہ حل کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ ٹرمپ نے "فرسٹ امریکہ" کا پرانا نعرہ دوبارہ لگا کر درحقیقت دنیا اور اپنے اتحادیوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ: امریکہ کے قومی مفادات ہر قسم کی بین الاقوامی ذمہ داری پر فوقیت رکھتے ہیں۔
 
لیکن آج کی باہمی مربوط دنیا میں ایسا انداز نہ صرف محض اوہام پرستی ہے بلکہ عملی طور پر خود امریکہ کی گوشہ نشینی کا باعث بنے گا۔ امریکہ اگر اپنی طاقت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو وہ تعاون کے دروازے بند کر کے دوسروں سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اس کے پرچم تلے جمع ہو جائیں گے۔ امریکہ میں کچھ حلقوں کے تصور کے برعکس اگر اقوام متحدہ کی پوزیشن کمزور ہوتی ہے یا وہ ختم ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ امریکہ کے حق میں ہونے کی بجائے اس کے نقصان میں ظاہر ہو گا کیونکہ اس عالمی ادارے نے گذشتہ دہائیوں کے دوران ہمیشہ امریکی اقدامات کو قانونی جواز فراہم کرنے کا کردار ادا کیا ہے۔ ایسے حالات میں امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی اخراجات بھی بڑھ جائیں گے اور چین اور روس جیسے حریف ممالک کو بین الاقوامی سطح پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے بہترین مواقع میسر آ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم شہباز شریف کا حالیہ دورہ امریکا اور اقوام متحدہ میں تاریخی خطاب پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے،شیخ آفتاب احمد
  • پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں بھارت کی حقیقت دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی
  • بھارت دنیا بھر میں دہشتگردوں کی سرپرستی کو چھپا نہیں سکتا، اقوام متحدہ میں پاکستان کا کرارا جواب
  • اسپیکر قومی اسمبلی کا وزیراعظم شہباز شریف کے اقوام متحدہ سے خطاب پر اظہارِ خیال
  • پاکستان جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے،اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے وزیراعظم شہباز شریف کا خطاب 
  • عرب اور مسلم ممالک کا اسرائیلی وزیراعظم کے اقوام متحدہ میں خطاب کے بائیکاٹ کا فیصلہ
  • وزیراعظم شہباز شریف آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے
  • وزیراعظم شہباز شریف آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرینگے
  • ٹرمپ کی کھلی اور تباہ کن یکہ تازیاں