data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250928-01-6

کراچی(رپورٹ: منیر عقیل انصاری) عرب ممالک اسرائیلی پیش قدمی روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ہمت نہیں ہے‘ عافیت کو عذر بنالینے کی پالیسی عرب ممالک کو نہیں بچاسکے گی۔اسرائیل سے زیادہ سیاسی، عسکری اور معاشی طاقت کے باوجود عرب دنیا خوف کاشکار ہے‘ اصل مسئلہ عرب اتحاد کے فقدان اور سیاسی عزم کی کمی ہے‘ تقسیم کا شکار گھر اپنی حفاظت نہیں کرسکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار خان یونس شہر، غزہ، فلسطین سے تعلق رکھنے والے فرینڈز آف فلسطین پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل، پی ایچ ڈی و معروف اسکالر ڈاکٹر بلال الاسطل، معروف مذہبی اسکالر اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے رکن مفتی محمد زبیر اور پاکستان کے معروف و سینئر تجزیہ کار زاہد حسین نے جسارت کے سوال:کیا عرب ممالک اسرائیلی پیش قدمی روک سکیں گے؟کے جواب میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر بلال الاسطل نے کہا کہ فلسطین پر جاری اسرائیلی جارحیت ایک اہم سوال کو جنم دیتی ہے، کیا عرب ممالک اسرائیلی پیش قدمی روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ بلاشبہ سیاسی، عسکری اور معاشی طاقت کے اعتبار سے عرب دنیا اسرائیل سے کہیں زیادہ وسائل رکھتی ہے، لیکن اصل مسئلہ عرب اتحاد کے فقدان اور سیاسی عزم کی کمی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی بالادستی اور اثر ورسوخ نے عرب ممالک کے فیصلوں اور ان کی خودمختاری کو کمزور کر
دیا ہے، جس کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو پہنچتا ہے۔ تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1948 کی جنگ (نکبہ) میںعرب ممالک نے مشترکہ طور پر اسرائیل کا مقابلہ کیا مگر قیادت اور حکمتِ عملی کے فقدان نے فلسطین کا بیشتر حصہ اسرائیل کے قبضے میں جانے دیا۔ 1967 کی جنگ (نکسہ) میںتیاری کی کمی اور عرب دنیا کی تقسیم کے باعث اسرائیل نے صرف چھ دنوں میں مشرقی یروشلم، غزہ، مغربی کنارے اور گولان کی پہاڑیاں قبضے میں لے لیں۔ 1973 کی جنگ (اکتوبر/یومِ کپور)میںمصر اور شام کے مشترکہ حملے نے اسرائیل کو دفاعی پوزیشن پر دھکیل دیا۔ اگرچہ بعد میں عالمی دباؤ پر جنگ بندی ہوئی، لیکن اس جنگ نے ثابت کیا کہ جب عرب ممالک متحد ہوں تو اسرائیل کو پسپا ہونا پڑتا ہے۔ تیل کا ہتھیار (1973) عرب ممالک نے امریکہ اور مغرب پر دباؤ ڈالنے کے لیے تیل کی سپلائی محدود کی، جس نے عالمی سطح پر معاشی بحران پیدا کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عرب دنیا کے پاس اسرائیل اور اس کے حامیوں پر دباؤ ڈالنے کی مؤثر طاقت موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب اتحاد کی کمی، مشترکہ حکمت عملی اور مؤقف کے فقدان نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ امریکا کی بالادستی نے عرب ممالک کے فیصلوں کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، جس سے ان کی خودمختاری متاثر ہوئی اور فلسطین کے معاملے میں وہ آزادانہ کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر عرب ممالک متحدہ مؤقف کے ساتھ عالمی اداروں پر دباؤ ڈالیں تو اسرائیلی جارحیت کا تسلسل روکا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی اور تجارت کے ذریعے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو مشکل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی وسائل اور انسانی طاقت عرب دنیا کے پاس موجود ہے، لیکن عملی اتحاد اور دفاعی حکمتِ عملی کے بغیر یہ صلاحیت بے اثر رہتی ہے۔ عرب اسرائیل تنازع کی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اسرائیل ہمیشہ عرب دنیا کی کمزوریوں، تقسیم اور بیرونی دباؤ سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اگر عرب ممالک اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور امریکی بالادستی سے نکل کر آزادانہ فیصلے کریں تو وہ اسرائیلی پیش قدمی کو روکنے اور خطے میں نئی سیاسی حقیقت مسلط کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔ مفتی محمدزبیر نے کہا ہے کہ عرب ممالک اسرائیلی پیش قدمی روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر ہمت نہیں ہے۔عافیت کو عذر بنالینے کی پالیسی عرب ممالک کو نہیں بچاسکے گی۔اس وقت فلسطین کے حوالہ سے تمام مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مکافات عمل ایک حقیقت ہے اگرچہ اسکی دعا نہیں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عرب ممالک غزہ کا ظالمانہ محاصرہ ختم کروائیں ، اور موثر عملی اقدامات کے ذریعہ اہل فلسطین کے بچاو کیلئے کردار ادا کریں ورنہ گریٹر اسرائیل کا مذموم ترین منصوبہ انکے دروازے پر دستک دے رہا ہے اسے روکنے کیلئے یہی ایک راستہ ہے کہ فلسطین کو مضبوط بند کے طور پر اختیار کرتے ہوئے بڑھتے ہوئے صیہونی قدم روک دئیے جائیں۔ زاہد حسین کا کہنا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے خلاف متحد نہیں، تقسیم کا شکار گھر اپنی حفاظت نہیں کرسکتا،اسلامی بلاک حالیہ تاریخ کی بدترین نسل کشی کا خاموش تماشائی بنا ہے۔ بعض عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ سچ ہے کہ احتجاج کی کچھ آوازیں اٹھیں لیکن یہ زیادہ نہیں۔ پھر اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا، شام کے اندر مزید علاقوں پر قبضہ کیا جبکہ یمن اور ایران پر بھی بمباری کی۔جون کے مہینے میں ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکا اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی کارروائی، ایک خودمختار ریاست کے خلاف سب سے شرمناک اقدام تھا۔ اس کے باوجود معمولی مذمتی بیانات کے علاوہ مسلم دنیا نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔صہیونی ریاست نے اپنی فوجی کارروائیوں کا دائرہ مغربی کنارے تک بڑھا دیا ہے اور فلسطینی اراضی پر زبردستی قبضہ کرکے ا?بادکاری کو وسعت دینے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اب اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ پر مستقل طور پر قبضہ کرنے اور اس کی پوری آبادی کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی اور عرب ممالک پر حملے کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہے۔اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملہ ایک خودمختار عرب ملک کے خلاف ڈھٹائی کا مظاہرہ تھا۔ صہیونی ریاست کو ایک بار پھر اس حد کو عبور کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ جب اس نے خلیج میں امریکا کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک کو نشانہ بنایا جو خطے میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ بھی رکھتا ہے۔ پوری عرب دنیا میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور اس حملے کی بین الاقوامی سطح پر مذمتوں سے یہ توقعات بڑھ گئیں کہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔رواں سال قطر، اسرائیل کی طرف سے حملے کا نشانہ بننے والا خطے کا چھٹا ملک تھا۔ جبکہ اسرائیل غزہ میں اپنی نسل کشی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل اب تک غزہ میں 65 ہزار سے زائد افراد کو شہید کر چکا ہے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ 10 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ خوراک کی محدود فراہمی اور اسرائیلی دشمنی کے نہ رکنے والے سلسلے کے باعث مقبوضہ انکلیو کی پوری آبادی اس وقت خطرے میں ہے۔ روزانہ سیکڑوں بچے بھوک سے شہید ہورہے ہیں۔گزشتہ ہفتے قطر پر صہیونی حملے کے بعد اسرائیل کو فیصلہ کن جواب دینے کے لیے دوحہ میں تقریباً60 ممالک کے سربراہان جمع ہوئے۔ لیکن یہاں صرف لفظی بیان بازی ہوئی، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت سے نمٹنے یا علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوئی حقیقی حکمت عملی طے نہیں کی گئی۔
جسارت سے گفتگو

راصب خان منیر عقیل انصاری.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عرب ممالک اسرائیلی پیش قدمی عرب ممالک اسرائیل صلاحیت رکھتے ہیں عرب ممالک نے اسرائیل کی اسرائیل کو کرتے ہوئے ہے کہ عرب نے کہا کہ کے فقدان عرب دنیا روکنے کی کی جنگ اور اس کے لیے کی کمی

پڑھیں:

اسرائیلی پارلیمنٹ :فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے قانون کا پہلا مرحلہ منظور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-08-29
تل ابیب /غزہ/ دوحا /لندن (مانیٹرنگ ڈیسک /آن لائن /صباح نیوز) اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) نے پہلے مرحلے میں ایک بل کی منظوری دی ہے جو فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کی اجازت دیتا ہے۔ ترکیے کے خبر رساں ادارے انادولو کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی نشریاتی ادارے ’کان‘ نے رپورٹ کیا کہ یہ بل پیر کی رات 120 ارکان میں سے 39 کی حمایت سے منظور ہوا، بل کے خلاف 16ووٹ ڈالے گئے۔ اجلاس کے دوران عرب رکنِ پارلیمنٹ ایمن عودہ اور انتہا پسند وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر کے درمیان سخت تکرار ہوئی، جو تقریباً ہاتھا پائی کی صورت اختیار کر گئی۔ یہ قانون سازی بن گویر کی انتہاپسند یہودی پاور پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی تھی، ووٹنگ سے پہلے مسودہ قانون کو کنیسٹ کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا تاکہ اسے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے لیے تیار کیا جا سکے، جو حتمی منظوری کے لیے ضروری مراحل ہیں۔قانون کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ’جو کوئی جان بوجھ کر یا لاپرواہی کے باعث کسی اسرائیلی شہری کی موت کا سبب بنے اور اس کا مقصد نسل پرستی، نفرت یا اسرائیل کو نقصان پہنچانا ہو، اسے سزائے موت دی جائے گی‘۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایک بار سزا سنائے جانے کے بعد اسے کم نہیں کیا جا سکے گا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے بن گویر کے اس قانون کے اقدام کی مذمت کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون خاص طور پر فلسطینیوں کو نشانہ بناتا ہے اور نظامی امتیاز کو مزید گہرا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں اسرائیلی ڈرون حملے میں ایک بچے سمیت 2 فلسطینی شہید ہو گئے۔ غزہ جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کے حملے تھم نہ سکے، اسرائیلی فوج نے جنگ بندی کے دوران 31 میں سے 25 دن حملے جاری رکھے۔ عرب میڈیا کے مطابق جنگ بندی کے بعد صہیونی حملوں میں 242 فلسطینی شہید، 622 زخمی ہوئے، 19 اور 29 اکتوبر کو اسرائیلی حملوں میں 154 افراد شہید ہوئے۔ اسرائیل نے 10 اکتوبر سے 10 نومبر تک 282 خلاف ورزیاں کیں، اسرائیل نے ایک ماہ میں غزہ پر 124 بار بمباری اور 52 بار مکانات تباہ کیے۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل نے امدادی سامان کی ترسیل روک کر انسانی بحران کو مزید بڑھایا، صہیونی فورسز کی جانب سے غزہ میں بنیادی ڈھانچے اور رہائشی عمارتوں کی تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل سمجھوتے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ حماس کے  ترجمان حازم قاسم نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل نے سمجھوتوں کے نقشوں پر عمل نہیں کیا اور شمالی غزہ میں خصوصی طور پر یلو لائن کو بڑھانے کی جان بوجھ کر کوشش کی ہے۔ لندن کے علاقے ویسٹ منسٹر کی سڑکیں گزشتہ روز سرخ رنگ سے رنگ گئیں جب ’’فلسطینی اسیران کی رہائی‘‘ کے عنوان سے ایک علامتی مہم کا آغاز کیا گیا۔ اس مہم کا مقصد برطانوی اور عالمی رائے عامہ کی توجہ ان ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی جانب مبذول کرانا ہے جو قابض اسرائیل کی جیلوں میں برسوں سے انسانیت سوز مظالم جھیل رہے ہیں۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی پارلیمنٹ :فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے قانون کا پہلا مرحلہ منظور
  • غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں پڑے گا‘ اسرائیل کا ترکی کو دوٹوک پیغام
  • مغربی ایشیا میں مذموم اسرائیلی منصوبوں کے بارے حزب اللہ کا انتباہ
  • خطے پر تسلط کیلئے صیہونیوں کا صدی پرانا خاکہ
  • سابق امریکی سفیر اسرائیلی جاسوسی کمپنی کے سربراہ مقرر
  • “غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں پڑے گا”، اسرائیل کا ترکی کو دوٹوک پیغام
  • غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں لگے گا، ترجمان اسرائیلی وزیراعظم
  • غزہ، انسانیت کا امتحان
  • غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں لگےگا، ترجمان اسرائیلی وزیراعظم
  • رفح کی سرنگوں میں حماس فورسز کی موجودگی سے اسرائیل کو لاحق خوف