روس اور چین کی ایران پر پابندیاں موخر کروانے کے لئے چارہ جوئی
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
سفارت کاروں نے جمعرات کو روئٹرز کو بتایا کہ ایران اور یورپی ممالک کے درمیان معاہدے کے بغیر پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کو روکنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ روس اور چین نے جمعرات کو ایک قراردادکا مسودہ پیش کر کے ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کے ممکنہ نفاذ میں تاخیر کے لیے ایک نئی کوشش کا آغاز کیا ہے۔ مغربی سفارت کاروں کے مطابق دونوں ممالک نے جمعرات کو سلامتی کونسل سے ایک مسودہ قرارداد پر ووٹنگ کے لیے کہا ہے، جس میں ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کو چھ ماہ کے لیے ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔یہ درخواست ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیاں جمعہ کو رات 8 بجے دوبارہ لگائی جائیں گی۔
اس قرارداد کی منظوری کے لیے، کم از کم نو ووٹوں کی ضرورت ہے، اور امریکہ، برطانیہ یا فرانس کا ویٹو نہ کرنا بھی ضروری ہے۔ سفارت کاروں نے جمعرات کو روئٹرز کو بتایا کہ ایران اور یورپی ممالک کے درمیان معاہدے کے بغیر پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کو روکنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ گزشتہ جمعے کو ویانا میں قائم بین الاقوامی تنظیموں کے لیے روس کے نمائندے نے سلامتی کونسل کی جانب سے ایران کے خلاف پابندیاں بحال کرنے کی قرارداد کی منظوری کے بعد ایرانی جوہری مسئلے کے حل کے لیے چین اور روس کی جانب سے "نئے نقطہ نظر" کی بات کی تھی۔انہوں نے اس منصوبے کی تفصیلات کا ذکر نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایران کے خلاف پابندیاں ہٹانے کا سلسلہ جاری رکھنے کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی تھی۔ چین اور روس نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف لگائی گئی ثانوی پابندیوں کے پیش نظر ان پابندیوں کی واپسی سے ایرانی معیشت پر کوئی حقیقی اثرات مرتب نہیں ہوں گے لیکن مغربی ممالک ایران پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔چند ہفتے قبل تین یورپی ممالک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط بھیج کر نام نہاد "ٹریگر میکانزم" کو فعال کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔
یہ طریقہ کار، جو جوہری معاہدے کی شقوں میں سے ایک ہے اور سلامتی کونسل میں اس کی منظوری دینے والی قرارداد (قرارداد 2231)، ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی پابندیوں کی واپسی کا باعث بن سکتی ہے۔مغربی ممالک کے دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ جے سی پی او اے سے امریکی انخلا کے بعد ایران کے اقدامات اس معاہدے کی خلاف ورزی تصور کیے جاتے ہیں۔ امریکی انخلاء کے بعد، اسلامی جمہوریہ ایران نے یورپی ممالک کو جوہری معاہدے میں اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں کے مطابق اس انخلاء کے اثرات کو بے اثر کرنے اور معاہدے میں وعدہ کردہ ٹھوس اقتصادی اثرات کو حاصل کرنے کے لئے ایک سال کا وقت دیا تھا۔
تاہم، "INSTEX" کے نام سے موسوم طریقہ کار، جس کے بارے میں یورپیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران کے ساتھ ڈالر کے بغیرتجارت کو آسان بنانے کے لیے بنایا گیا تھا، اس کے ذریعے کوئی تبادلہ کیے بغیر، ناکام ہو گیا اور بند ہو گیا۔ اس کے مطابق، ایران نے جوہری معاہدے میں بیان کردہ قانونی عمل کی پیروی کرتے ہوئے، امریکی انخلا کے ایک سال بعد اعلان کیا کہ معاہدےکے آرٹیکل 26 اور 36 کی روشنی میں اپنی ذمہ داریوں کو مرحلہ وار کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایران کے اصلاحاتی اقدامات کے بعد یورپی ممالک نے بھی ایسے اقدامات کیے جنہیں تہران نے جوہری معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کی خلاف ورزی سمجھا۔مثال کے طور پر، تین یورپی ممالک نے اکتوبر 2023 کو ایران کے خلاف میزائل پابندیاں ختم کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے سے انکار کر دیا، جسے جوہری معاہدےمیں "منتقلی دن" کے طور پررکھا کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی اور امریکی حملوں کی نہ صرف مذمت نہیں کی تھی بلکہ ان کی حمایت بھی کی تھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی ایران کے خلاف سلامتی کونسل جوہری معاہدے نے جمعرات کو پابندیوں کے یورپی ممالک ممالک نے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
پاکستان سعودیہ معاہدہ
ٹائن بی نے قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو قومیں چیلنجز اور خطرات سے لڑتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں وہ ترقی کے زینے پر اوپر ہی اوپر سفر جاری رکھتی ہیں۔ 17ستمبر 2025 کو ریاض سعودی عرب میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹریٹیجک میوچل ڈیفنس ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے۔
پاکستان کے اندر اور دنیا بھر میں اس اہم معاہدے پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا میں شور مچا ہے کہ سعودی عرب ویسے تو ہندوستان کے بہت قریب ہے اور ہندوستان بھی پاکستان کی طرح ایک ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے تو سعودیہ نے ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان سے آخر کیوں دفاعی معاہدہ کیا۔پاکستان کے اندر تقریباً ساری ہی سیاسی قیادت نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستان سے باہر چند مشہور تجزیہ کاروں نے رائے دی ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان کی افواج ، خطے کی برتر قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں،کہ یہ وہ فوج ہے جس پرخلیجی ممالک اپنے دفاع کے لیے بھروسہ کر سکتے ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ بھلاہو نریندر مودی کا اگر وہ امسال اپریل میں پہلگام فالس فلیگ آپریشن اور پھر اس کو بہانہ بنا کر مئی میں پاکستان پر حملہ نہ کرتا تو ہم پاکستانی اور دنیا بھر کے لوگ پاکستانی افواج خاص کر پاکستان ایئر فورس کی حربی صلاحیت سے نا آشنا رہتے۔اس اہم معرکے نے دنیا کو باور کرا دیا کہ پاکستان ایک اہم ابھرتی فوجی قوت ہے۔
ہندوستان کی بیوقوفی کے بعد 9ستمبر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم کے ایک غیر دانشمندانہ فیصلے کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں کے میزبان قطر پر حملہ کر کے حماس کی پوری مذاکراتی ٹیم کو تہہ تیغ کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔اس حملے سے پہلے مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک امریکی سیکیورٹی چھتری کو نجات کا واحد ذریعہ سمجھتے تھے لیکن قطر پر اسرائیلی حملے نے عربوں کو باور کرادیا کہ امریکی سیکیورٹی گارنٹی صرف کاغذی پیرہن ہے،یہ کہ امریکا صرف اور صرف اسرائیل کے ساتھ ہے۔
دوحہ پر اسرائیلی حملے کے فوراً بعد عرب اور اسلامی ممالک کی ایک ایمرجنسی میٹنگ بلائی گئی جس میں وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف بھی شریک ہوئے۔اجلاس کے موقع پر وزیرِ اعظم پاکستان اور سعودی ولی عہد کی ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں سعودی ولی عہد نے شہباز شریف کو سرکاری دورے کی دعوت دی۔
وزیرِ اعظم جناب شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ17ستمبر کو ریاض سعودی عرب روانہ ہوئے۔ وزیرِ اعظم پاکستان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔اسی روز دونوں رہنمائوں نے ایک لینڈ مارک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جس کی ایک اوپریٹو کلاز کے مطابق دونوں میں سے کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور ہوگا اور دونوں ممالک مل کر حملے کا جواب دیں گے۔ اس باہمی معاہدے کو کئی حوالوں سے پرکھنا ہوگا مثلاً یہ دیکھنا ہوگا کہ اس سے دونوں ممالک کو کیا فائدہ ہو گا، خطے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
قطر پر اسرائیلی حملے نے خلیجی ممالک خاص کر سعودی عرب کو ایک غیر متوقع مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا۔امریکا نے اس اسرائیلی حملے کو نہ تو روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس کی مذمت کی۔امریکی وزیرِ خارجہ حملے کے بعد اسرائیل پہنچے اور اسرائیل کی حمایت میں کھڑے رہنے کا اعلان کیا۔اس صورتحال میں سعودی عرب چونکا اور اپنے دفاعی آپشنز کو Diversify کرنے کا فیصلہ کیا۔سعودی عرب میں افواج کو دفاعِ وطن میں وہ مرکزی حیثیت حاصل نہیں جو عام طور پر اکثر ممالک میں ہوتی ہے۔سعودی عرب میں بہترین دفاعی قوت حارث الوطنیNational Guards ہے۔
حارث الوطنی سعودی شاہی خاندان اور اس کی حکومت کو سیکیورٹی چھتری فراہم کرتی ہے۔ سب سے اچھے ہتھیار اسی کے پاس ہوتے ہیں۔ سعودی افواج دوسرے درجے کی فورس ہیں۔ پاک سعودی دفاعی معاہدے سے سعودیہ کے دفاع کے لیے جان دینے کی ذمے داری بنیادی طور پر پاکستانی افواج کے سرآ گئی ہے۔اس معاہدے سے سعودیہ کا مغرب اور خاص کر امریکا پر انحصار کم ہوگا جس سے سعودیہ کے دفاعی آپشنز بڑھ گئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ دوسرے خلیجی ممالک بھی دفاع کے لیے پاکستان کی طرف دیکھیں۔
افواجِ پاکستان کو اس دفاعی معاہدے سے بہت فائدہ ہوگا۔سعودی افواج کے جدید ترین ہتھیاروں کواستعمال میں لاتے ہوئے افواجِ پاکستان بہت کچھ سیکھیں گی۔سعودی عرب میں تعینات ہمارے فوجیوں کے ماہانہ مشاہرے میں خاصا اضافہ ہوگا۔حکومتِ پاکستان کی یہ ایک بہت اہم سفارتی کامیابی ہے جس سے حکومت پر اندرونی سیاسی دبائو کم ہوگا۔پاکستان کی فوج کے افسروں اور جوانوں کا اپنی اعلیٰ ترین قیادت پر اعتبار بڑھے گا۔
اعلی ترین فوجی قیادے کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔ریاستِ پاکستان کے چیلنجز میں بہت اضافہ ہوگا۔پاکستان کی ریاست کو پہلے ہی ہندوستان اور افغانستان کی طرف سے خطرات درپیش ہیں۔اب مشرقِ وسطیٰ کے سب سے اہم ملک کو اسرائیل،یمن و ایران کی طرف سے درپیش خطرات سے بھی ریاستِ پاکستان کو نمٹنا ہوگا۔ٹائن بی کے مطابق اگر ہم ان چیلنجز سے عہدہ برآ ہو سکے تو ایک شاندار مستقبل سامنے ہوگا۔اسرائیل مغرب اور بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں کرے گا۔سعودیہ دفاع کے سلسلے میں پاکستان پر بھروسہ کر سکتا ہے لیکن اس میدان میں پاکستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ہاں معیشت کے شعبے میں سعودیہ ضرور پاکستان کی مدد کر سکے گا۔
ہندوستان اور پاکستان کی لیبرفورس ایک بڑی تعداد میں سعودیہ میں مقیم ہے۔ پچھلے چند سالوں سے پاکستانی لیبر فورس پر بہت پابندیاں تھیں۔امید کی جا سکتی ہے کہ اب پاکستانی لیبر فورس کو سعودی عرب میں کام کرنے کے بہت مواقع ملیں گے۔خطے کے ممالک کے لیے یہ ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن ہندوستان اس سے سخت نالاں ہے کیونکہ اس کی مرضی کے خلاف پاکستان پر بھروسہ کیا گیا ہے۔
چین خطے کا ایک بہت اہم ملک ہے۔چین پہلے ہی سعودی عرب اور ایران کو مخاصمت سے ہٹا کر قریب لا چکا ہے۔یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ چین اس معاہدے سے مطمئن ہوگا کیونکہ چین اور پاکستان کی مثالی باہمی دوستی ہے، پاکستان کے بڑھتے اثر و رسوخ سے چین مطمئن ہوگا۔ روسی سفیر نے پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کو سراہا ہے۔ امریکا نے تا حال کوئی منفی بیان نہیں دیا۔معاہدے سے پاکستان کی پاور پروجیکشن ہوگی۔اس معاہدے سے پاکستان نے اپنے اسٹریٹیجک آپشنز کو Expandکیا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کے ہاتھ میں ایک اہم ڈپلومیٹک ٹُول ہے جس سے پاکستان بہت سے فائدے سمیٹ سکتا ہے۔