رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت صدر مملکت آصف علی زرداری اور پاک فوج کے حق میں کھل کر بول پڑے ہیں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران رکنِ اسمبلی شیر افضل مروت نے ایک تفصیلی اور جذباتی خطاب کیا، انہوں نے تقریر کے آغاز میں اسپیکر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں صرف 3 منٹ دیے گئے ہیں مگر وہ چند اہم باتیں کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ڈیل، شیر افضل مروت کے تہلکہ خیز انکشافات

شیر افضل مروت نے کہا کہ میں سب سے پہلے معذرت چاہتا ہوں اگر میری باتوں سے کسی کو دکھ پہنچے۔ میں پاکستان تحریکِ انصاف کا رکن رہا ہوں، مجھے تین بار نکالا جا چکا ہے۔ مجھے 34 بار نکالنے کا حق تو کسی کو نہیں، لیکن آج جو کچھ ہوا ہے، اس پر میں چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں 48 نکات پر مشتمل نئی ترامیم پیش کی گئی ہیں، مگر ان نکات پر علمی اور سنجیدہ گفتگو کے بجائے محض سیاسی نعرے بازی کی جا رہی ہے۔ ہمیں چاہیے تھا کہ ان نکات پر تفصیلی بات کرتے، عوام کو بتاتے کہ یہ تبدیلیاں کس مقصد کے لیے لائی جا رہی ہیں۔

شیر افضل مروت نے کہا کہ موجودہ حالات، الزامات، اور سیاسی کشیدگی نے معاشرتی فضا کو مکدر کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک خاتون کی شہادت کو بھی سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جس پر وہ افسردہ ہیں۔ ایک ماں شہید ہوئیں، اس کی قربانی کو بھی سیاست کا ایندھن بنایا جا رہا ہے۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ایک ڈکٹیٹر نے پھانسی دی، مگر اس وقت بھی قانون کی بالادستی کی بات کرنے والے ہم سب موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا معاملہ، پارلیمنٹیرینز کیا کہتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ اس وقت اسمبلی کو متفقہ طور پر قرارداد منظور کرنی چاہیے تھی مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔

پی ٹی آئی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا کہ ہمارا لیڈر عمران خان آج جیل میں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ زیادتی ہے، یہ غیر اخلاقی اور غیر منصفانہ ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب راجہ پرویز اشرف تقریر کر رہے تھے اور ان پر آوازیں کسیں جا رہی تھیں، تب ہم کہاں تھے؟ ایک محترم شخص، ایک سابق وزیراعظم کے ساتھ اس طرح کا سلوک مناسب نہیں۔

انہوں نے ایوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری گزارش ہے، ایمان داری سے سوچیں، تمام سیاست دانوں میں اگر کسی نے سب سے زیادہ وقت جیل میں گزارا ہے تو وہ آصف علی زرداری ہیں۔ پھر ہم بار بار انہیں چور کہہ کر کیا حاصل کرتے ہیں؟ ہم ایوان کا ماحول خود برباد کرتے ہیں۔

مروت نے کہا کہ اگر راجہ پرویز اشرف اور شہباز شریف شریف ایک دوسرے سے مصافحہ کر سکتے ہیں تو ہم سب کو بھی ایک دوسرے کو انسان سمجھنا چاہیے۔ سیاست میں اختلافات رہتے ہیں، مگر باہمی احترام ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فیلڈ مارشل کے خلاف بات کرنے والے لوگ گمراہ ہیں: پرویز اشرف کی قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اپوزیشن کا احتجاج

انہوں نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے دو نکات پر رائے دیتے ہوئے کہا کہآرٹیکل 243 میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ یہ وہ شق ہے جو فوجی نظم و نسق سے متعلق ہے اور شہری بالادستی کے اصول کو واضح کرتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ فوج براہ راست یا بالواسطہ طور پر بارہا اقتدار میں آئی۔

شیر افضل مروت نے کہا کہ اب اس آرٹیکل میں چیف آف ڈیفنس کا نیا عہدہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے تحت آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے سربراہان مل کر ایک چیف آف اسٹاف مقرر کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے آرمی چیفس کے پاس پہلے سے اختیارات کی کمی ہے؟ ہم انہیں مزید طاقت کیوں دینا چاہتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ کل جب ہم ترمیم پر ووٹ دیں گے تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم اس ملک کی کس سمت کا تعین کر رہے ہیں۔ عوام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ، جمہوریت کے استحکام، اور قانون کی بالادستی کے لیے متحد ہو کر کام کریں گے۔

انہوں نے فوج کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری فوج ہمیں عزیز ہے۔ یہ جنگیں لڑتی ہے، قربانیاں دیتی ہے، یہ اس کا فرض، اس کا پیشہ اور اس کی تنخواہ ہے۔ ہم اس کے کردار کے معترف ہیں مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ریاستِ پاکستان ہے، بادشاہت نہیں۔

انہوں نے اختتام پر کہا کہ ہم سب کو مل کر سوچنا ہوگا، جب ہم کل ووٹ ڈالیں گے، تو آنے والی نسلیں ہمیں کس نام سے یاد کریں گی، محافظِ آئین یا تابعِ قوت؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news آصف علی زرداری پاک فوج راجہ پرویز اشرف شیرافضل مروت صدر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ا صف علی زرداری پاک فوج راجہ پرویز اشرف شیرافضل مروت شیر افضل مروت نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی ہوئے کہا کہ پرویز اشرف نکات پر کو بھی یہ بھی جا رہی

پڑھیں:

وزیر اعظم کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کا بھی استثنیٰ لینے سے انکار

ویب ڈیسک : سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ لینے سے دوٹوک انکار کر دیا۔

 ایک بیان میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ عوامی نمائندے قانون اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں،میں کسی قسم کا استثنیٰ نہیں چاہتا اور نہ ہی قبول کروں گا۔ عوامی نمائندے قانون اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں، یہی جمہوری اصول اور پارلیمانی اقدار کا تقاضا ہے۔

بجلی کے بلوں کی ادائیگی؛ صارفین کو بڑا ریلیف مل گیا

 قبل ازیں سینیٹ اور قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف کا مشترکہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا، اجلاس میں آئینی عہدیداران کو استثنیٰ دینے کی تجویز زیر غور آئی۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین محمود بشیر ورک  نے  تجویز پیش کی کہ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کو بھی گورنرز جیسا آئینی استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے۔

 سپیکر نے واضح موقف اختیار کیا کہ وہ نہ خود کسی استثنیٰ کے خواہاں ہیں اور نہ ہی اپنے عہدے کے لیے اسے قبول کریں گے۔

ماس ٹرانزٹ سسٹم کا ٹی کیش کارڈ مہنگا ہوگیا

متعلقہ مضامین

  • زرداری سے مقابلہ کرنا ہے تو بانی پی ٹی آئی کو 12 سال جیل میں رکھیں، راجہ پرویز اشرف
  • ذوالفقارعلی بھٹو کو قومی شہید قرار دینے کی قرارداد قومی اسمبلی میں پیش
  • اس پورے ایوان نے صدر زرداری جتنی جیل نہیں کاٹی، شیر افضل مروت
  • فیلڈ مارشل کے خلاف بات کرنے والے لوگ گمراہ ہیں: پرویز اشرف کی قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران اپوزیشن کا احتجاج
  • عروب کو گھسیٹنا بند کردیں: ڈکی بھائی کے بھائی ضیا ذوالفقار کا جذباتی ویڈیو پیغام
  • وزیرِاعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کا سابق ایم این اے افتخار احمد چیمہ کے انتقال پر دکھ کا اظہار
  • وزیر اعظم کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کا بھی استثنیٰ لینے سے انکار
  • قومی اسمبلی کا اجلاس کل دوبارہ شروع ہوگا
  • سپیکر سے پی ٹی آئی وفد کی ملاقات‘ اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر مقرر کرنے کا مطالبہ