مسلم ممالک صرف اعلانات اور بیانات تک محدود
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250928-03-3
جاوید الرحمن ترابی
او آئی سی رابطہ گروپ نے پہل گام حملے کے بعد بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر میں کیے گئے جابرانہ اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر خطے میں امن ناممکن قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس کے موقع پر اسلامی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ برائے جموں و کشمیر کے وزرائے خارجہ اور اعلیٰ حکام کا اجلاس نیویارک میں منعقد ہوا جس کی صدارت او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے کی جبکہ آذربائیجان، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب اور نائجر کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں کشمیری عوام کے نمائندوں نے بھارتی زیر ِ قبضہ جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پر بریفنگ دی۔ ادھر، فلسطین کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بڑھتے ہوئے عالمی فیصلوں کے پس منظر میں سعودی عرب نے فرانس، بلجیم، لکسمبرگ، مالٹا، موناکو، اینڈورا اور سان مارینو کی جانب سے فلسطینی ریاست کے باضابطہ اعتراف کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ اعلان ریاض اور پیرس کی مشترکہ صدارت میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس کے دوران کیا گیا جس کا مقصد مسئلہ فلسطین کے پرامن حل اور دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد کو آگے بڑھانا تھا۔ علاوہ ازیں، انڈونیشیا نے غزہ میں قیام امن کے لیے 20 ہزار سے زائد امن فوج بھیجنے کا اعلان کر دیا جبکہ غزہ کے لیے امداد لے جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کے قریب دھماکے اور ڈرون پروازوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، اب تک 11 دھماکے جہازوں کے قریب ہوئے جبکہ 9 کشتیوں کو فلیش بینگز سے نشانہ بنایا گیا۔ فلوٹیلا کے قریب دھماکوں اور فلیش بینگ حملوں میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کی صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مسلم ممالک صرف اعلانات اور بیانات پر ہی اکتفا نہ کریں اور آگے بڑھ کر ان مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں۔ مسلم ممالک کی نوجوان نسل اپنے حکمرانوں سے اسی لیے بیزار دکھائی دیتی ہے کہ وہ عالمی منظر نامے پر کٹھ پتلیوں سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اگر یہ حکمران اپنے ملکوں کے اندر استحکام چاہتے ہیں تو انہیں عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کشمیر اور فلسطین میں مظالم کا شکار اپنے بہن بھائیوں کی فوری مدد کے لیے مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے، بصورتِ دیگر نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی ان کے لیے ناقابل ِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین طے پانے والے دفاعی معاہدے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی کا اجلاس ستمبر کے آخری دنوں میں طلب کیا گیا ہے، جس میں حکومت پاک‘ سعودی دفاعی معاہدے کے بارے میں ایوان کو اعتماد میں لے گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف اس حوالے سے پالیسی بیان دیں گے۔ اب یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جائیں۔
پاک سعودی دفاعی معاہدے کی اہمیت اپنی جگہ فلسطین کی آزادی اور کشمیر کی آزادی کی اپنی اہمیت ہے۔ اس معاہدے کے تحت کسی ایک ملک کے خلاف جارحیت کو دونوں ممالک کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا‘ بھارت پاکستان پر حملہ کرے گا۔ تو معاہدے کس قدر متحرک ہوگا؟ کہا جارہا ہے کہ اس معاہدے میں دیگر عرب ممالک کی شمولیت کے لیے بھی دروازے کھلے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اس معاہدے کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی کوئی آئینی یا قانونی پابندی نہیں ہے۔ تاہم، حکومت اسے زیادہ پائیدار بنانے اور اس کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر پارلیمنٹ میں لا رہی ہے۔ یہ ان معاہدوں میں شامل ہے جن پر وسیع تر قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ اس معاہدے پر پورے ملک میں کوئی مخالفت سامنے نہیں آئی۔ حتیٰ کہ پاکستان تحریک انصاف، جو عام طور پر حکومتی اقدامات کی مخالفت کرتی ہے، اس کے بانی عمران خان نے بھی جیل سے اپنے پیغام میں اس معاہدے کی ستائش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک‘ سعودی معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور پاکستان کو عالمی سطح پر رابطے مضبوط اور بحال رکھنے چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حرمین شریفین کی حفاظت ہمارے لیے سعادت کی بات ہے۔ اس قومی اتفاق رائے سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ یہ معاہدہ نہ صرف دوطرفہ تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ قومی اتفاق رائے اس معاہدے کی کامیابی اور اس کے دور رس اثرات کی ضمانت ہے۔ یہ اتحاد پاکستانی قوم کی مشترکہ سوچ اور عظیم مقاصد کے حصول کے لیے یکسوئی کی عکاسی کرتا ہے، جو دونوں ممالک کے مابین گہرے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتوں کو مزید مستحکم کرے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دفاعی معاہدے اس معاہدے کے لیے
پڑھیں:
مزاحمت کو غیر مسلح کرنیکا ہر منصوبہ ناکام رہے گا، الجہاد الاسلامی فی فلسطین
جہاد اسلامی فلسطین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے اعلان کیا ہے کہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنیکی طاقت اور اختیار کسی بھی بین الاقوامی فریق کے پاس نہیں لہذا اس مقصد کیلئے بنایا گیا کوئی بھی منصوبہ ناکامی سے دوچار ہو گا! اسلام ٹائمز۔ فسلطینی مزاحمتی تحریک الجہاد الاسلامی فی فلسطین کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد الہندی نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس تعینات کرنے سے متعلق امریکی منصوبے کے مسودے میں جان بوجھ کر ابہامات رکھے گئے ہیں جبکہ صرف ایک ایسی فورس کہ جس کے پاس نگرانی کی ذمہ داری ہو جیسا کہ یونیفل (UNIFIL)، اور جس کے اختیارات اور اس کے مشن کی مدت متعین کر دی گئی ہو، کی غزہ میں تعیناتی قابل قبول ہے۔ محمد الہندی نے واضح کیا کہ کسی بھی بین الاقوامی قوت کے پاس مزاحمت کو غیر مسلح کرنے یا غزہ میں عام شہریوں کی حفاظت یا پولیس کو تربیت دینے کی ذمہ داری اور اختیار حاصل نہیں ہو گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ فلسطین کی قومی آزادی کے دوران مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا کوئی بھی منصوبہ ناکامی سے دوچار ہو گا کیونکہ یہ قابض دشمن کے تزویراتی مفادات کو پورا کرتا ہے۔