لداخ میں مودی سرکار کی ریاستی دہشت گردی؛ مزید 4 ہلاکتیں، احتجاجی رہنما بھی گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں علیحدہ ریاستی حیثیت اور خصوصی حقوق کے حق میں جاری احتجاجی تحریک پر مودی سرکار کے طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مودی سرکار کی ایما پر کٹھ پتلی کشمیری انتظامیہ نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
تازہ واقعے میں پولیس کی فائرنگ سے مزید 4 افراد مارے گئے جب کہ احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنے والے ماحولیاتی رہنما سونم وانگچک کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔
رواں ماہ کی ابتدا سے جاری ان احتجاجی مظاہروں میں پولیس کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 سے زائد ہوگئی جب کہ 50 سے زائد زخمی ہیں۔
ایک سینئیر پولیس افسر نے تصدیق کی کہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہنما سونم وانگچک کو پریس کانفرنس کرنے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔
بھارتی وزارت داخلہ نے الزام عائد کیا ہے کہ سونم وانگچک اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے عوام کو تشدد پر اکسا رہے تھے۔
مودی سرکار نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ سونم وانگچک کیتنظیم اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل اینڈ کلچرل موومنٹ آف لداخ کا لائسنس بھی منسوخ کر دیا۔
یاد رہے کہ 2019 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے براہِ راست وفاق کے زیر انتظام کر دیا تھا۔
متعصب مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کردیا تھا۔
جس کے بعد سے لداخ کے عوام ریاستی درجہ بحال کرنے، ملازمتوں میں کوٹہ اور قبائلی علاقوں کے تحفظ کے لیے مسلسل سراپا احتجاج ہیں لیکن کہیں سنوائی نہیں ہو رہی ہے۔
جس کے بعد مقامی رہنما اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ کیمپ میں عوام بھی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے اور احتجاج کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
ادھر مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ لداخ کے نمائندوں سے مذاکرات کا سسلہ 2023 سے جاری ہے جس کا اگلا دور 6 اکتوبر کو متوقع ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مودی سرکار
پڑھیں:
لداخ میں سیاسی بےچینی شدت اختیار کر گئی، سماجی کارکن سونم وانگ چک گرفتار
بھارت کے زیر انتظام لداخ میں جاری عوامی بےچینی نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے، جہاں ریاستی درجہ بحال کرنے کے مطالبے پر سرگرم معروف سماجی کارکن سونم وانگ چک کو مظاہرین کو اکسانے اور اشتعال انگیز بیانات دینے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
یہ گرفتاری ایک دن بعد عمل میں آئی جب وانگ چک نے ایک انٹرویو میں ممکنہ گرفتاری کے امکان کو خوش دلی سے قبول کیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ اپنے مشن کے لیے جیل جانے کو بھی تیار ہیں۔
حکومت کی تنقید، فنڈنگ پر پابندی
بھارتی وزارت داخلہ نے گرفتاری سے ایک روز قبل سونم وانگ چک کی غیر منافع بخش تنظیم اسٹوڈنٹ ایجوکیشنل اینڈ کلچرل موومنٹ آف لداخ کی FCRA رجسٹریشن منسوخ کر دی، جو انہیں بیرونِ ملک سے فنڈز حاصل کرنے کی اجازت دیتی تھی۔ تاہم وانگ چک نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تنظیم نے کبھی بھی غیر ملکی عطیات وصول نہیں کیے، بلکہ اقوام متحدہ، سوئٹزرلینڈ اور اٹلی کی تنظیموں سے صرف معاہداتی بنیادوں پر کاروباری لین دین ہوا، جس پر باقاعدہ ٹیکس بھی ادا کیا گیا۔
لداخ میں عوامی بےچینی اور آئینی مطالبات
2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی اور لداخ کو ریاستی درجہ چھین کر مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے بعد سے مقامی سطح پر سیاسی محرومی اور آئینی تحفظ کی کمی پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ عوامی مطالبہ ہے کہ لداخ کو دوبارہ ریاست کا درجہ دیا جائے اور چھٹے شیڈول کے تحت اسے خصوصی خودمختار حیثیت حاصل ہو تاکہ مقامی ثقافت، زمین اور وسائل کو تحفظ دیا جا سکے۔
وانگ چک کی قیادت میں ایک مضبوط آواز ابھری ہے جو اس موقف کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اجاگر کر رہی ہے۔
پُرتشدد مظاہرے اور حکومتی ردعمل
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وانگ چک کی تقاریر اور بھوک ہڑتال نے نوجوانوں کو پُرتشدد احتجاج پر اکسایا، جس کے نتیجے میں حالیہ مظاہروں میں چار افراد ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ مظاہروں کے بعد لیہہ اور کارگل میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، جب کہ مزید فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔
مظاہرین نے کئی سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی دفتر کو نذر آتش کر دیا۔ مقامی تنظیموں کی اپیل پر کارگل میں مکمل ہڑتال کی گئی، جہاں تاجروں نے دکانیں اور کاروبار رضا کارانہ طور پر بند رکھے۔
سرکاری مؤقف اور سیاسی الزامات
وزارت داخلہ کا مؤقف ہے کہ حکومت پہلے ہی ایپکس باڈی لیہہ اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، اور ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ تاہم، حکومت کا الزام ہے کہ سونم وانگ چک جیسے “سیاسی ایجنڈے” رکھنے والے افراد ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جیل کے اندر بھی اتنا ہی مؤثر ہوں گا
اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں سونم وانگ چک نے واضح انداز میں کہا کہ اگر مجھے گرفتار کیا جاتا ہے تو میں تیار ہوں۔ جیل میں بیٹھا سونم وانگ چک بھی باہر والے جتنا ہی مؤثر ہو گا۔ یہ بیان ان کی پُرامن مزاحمت اور اصولی موقف کی عکاسی کرتا ہے، جو لداخ کے عوامی جذبات سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔