لداخ میں سیاسی بےچینی شدت اختیار کر گئی، سماجی کارکن سونم وانگ چک گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
بھارت کے زیر انتظام لداخ میں جاری عوامی بےچینی نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے، جہاں ریاستی درجہ بحال کرنے کے مطالبے پر سرگرم معروف سماجی کارکن سونم وانگ چک کو مظاہرین کو اکسانے اور اشتعال انگیز بیانات دینے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
یہ گرفتاری ایک دن بعد عمل میں آئی جب وانگ چک نے ایک انٹرویو میں ممکنہ گرفتاری کے امکان کو خوش دلی سے قبول کیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ اپنے مشن کے لیے جیل جانے کو بھی تیار ہیں۔
حکومت کی تنقید، فنڈنگ پر پابندی
بھارتی وزارت داخلہ نے گرفتاری سے ایک روز قبل سونم وانگ چک کی غیر منافع بخش تنظیم اسٹوڈنٹ ایجوکیشنل اینڈ کلچرل موومنٹ آف لداخ کی FCRA رجسٹریشن منسوخ کر دی، جو انہیں بیرونِ ملک سے فنڈز حاصل کرنے کی اجازت دیتی تھی۔ تاہم وانگ چک نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تنظیم نے کبھی بھی غیر ملکی عطیات وصول نہیں کیے، بلکہ اقوام متحدہ، سوئٹزرلینڈ اور اٹلی کی تنظیموں سے صرف معاہداتی بنیادوں پر کاروباری لین دین ہوا، جس پر باقاعدہ ٹیکس بھی ادا کیا گیا۔
لداخ میں عوامی بےچینی اور آئینی مطالبات
2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی اور لداخ کو ریاستی درجہ چھین کر مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے بعد سے مقامی سطح پر سیاسی محرومی اور آئینی تحفظ کی کمی پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ عوامی مطالبہ ہے کہ لداخ کو دوبارہ ریاست کا درجہ دیا جائے اور چھٹے شیڈول کے تحت اسے خصوصی خودمختار حیثیت حاصل ہو تاکہ مقامی ثقافت، زمین اور وسائل کو تحفظ دیا جا سکے۔
وانگ چک کی قیادت میں ایک مضبوط آواز ابھری ہے جو اس موقف کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اجاگر کر رہی ہے۔
پُرتشدد مظاہرے اور حکومتی ردعمل
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وانگ چک کی تقاریر اور بھوک ہڑتال نے نوجوانوں کو پُرتشدد احتجاج پر اکسایا، جس کے نتیجے میں حالیہ مظاہروں میں چار افراد ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ مظاہروں کے بعد لیہہ اور کارگل میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، جب کہ مزید فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔
مظاہرین نے کئی سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی دفتر کو نذر آتش کر دیا۔ مقامی تنظیموں کی اپیل پر کارگل میں مکمل ہڑتال کی گئی، جہاں تاجروں نے دکانیں اور کاروبار رضا کارانہ طور پر بند رکھے۔
سرکاری مؤقف اور سیاسی الزامات
وزارت داخلہ کا مؤقف ہے کہ حکومت پہلے ہی ایپکس باڈی لیہہ اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے، اور ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذریعے پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔ تاہم، حکومت کا الزام ہے کہ سونم وانگ چک جیسے “سیاسی ایجنڈے” رکھنے والے افراد ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جیل کے اندر بھی اتنا ہی مؤثر ہوں گا
اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں سونم وانگ چک نے واضح انداز میں کہا کہ اگر مجھے گرفتار کیا جاتا ہے تو میں تیار ہوں۔ جیل میں بیٹھا سونم وانگ چک بھی باہر والے جتنا ہی مؤثر ہو گا۔ یہ بیان ان کی پُرامن مزاحمت اور اصولی موقف کی عکاسی کرتا ہے، جو لداخ کے عوامی جذبات سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سونم وانگ چک
پڑھیں:
خیبر پختونخوا حکومت کا امن جرگہ، کون کون سی جماعتیں شرکت کریں گی؟
خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں بڑھتی ہوئی بدامنی، دہشتگردی اور دہشتگردوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے 12 نومبر کو ’امن جرگہ‘ کے نام سے ایک آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بند کمروں میں کیے گئے فیصلے عوام پر مسلط نہیں کرنے دیں گے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا جرگہ بلانے کا اعلان
ترجمان خیبرپختونخوا حکومت شفیع اللہ جان کے مطابق وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے حلف اٹھانے کے فوراً بعد صوبے کی تمام سیاسی قیادت سے رابطے کیے اور صوبے کی امن و امان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
شفیع اللہ جان نے بتایا کہ امن جرگے میں شرکت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں، قبائلی عمائدین، وکلا برادری، میڈیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو دعوت دی گئی ہے جس کا مقصد صوبے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے متفقہ قومی حکمتِ عملی تیار کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے سب کی رائے لی جائے گی۔
مزید پڑھیے: وفاقی حکومت پشتون امن جرگے کی قرار داد پر عمل درآمد یقینی بنانے، خیبرپختونخوا کابینہ کا مطالبہ
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی شروع دن سے ہی امن کے قیام کے لیے کوشاں ہیں اور امن جرگہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کسی ایک پارٹی کا نہیں بلکہ پوری قوم کا فورم ہوگا جہاں تمام سیاسی قائدین سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر قیام امن پر بات کریں گے۔
شفیع اللہ جان نے کہا کہ ہم اختلافات اور سیاست سے بالاتر ہو کر صوبے کی بدامنی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کو دعوتپاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) امن جرگے کی کامیابی کے لیے سرگرم ہے اور اس سلسلے میں مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔
مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں قیام امن کے لیے تمام پارٹیوں سے بالاتر ہو کر جرگہ بلایاجائے، مولانا فضل الرحمان
پی ٹی آئی کا وفد اسلام آباد اور پشاور میں مختلف جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔ گزشتہ روز پی ٹی آئی وفد نے عوامی نیشنل پارٹی کے ہیڈکوارٹر ’باچا خان مرکز‘ کا دورہ کیا اور مرکزی رہنما میاں افتخار حسین کو امن جرگے میں شرکت کی دعوت دی۔
اسی طرح وفد نے سکندر شیرپاؤ سے ملاقات کرکے انہیں بھی شرکت کی دعوت دی جب کہ جماعت اسلامی کے مرکز کا دورہ کرکے بھی پارٹی قیادت کو مدعو کیا گیا۔
پی ٹی آئی نے محسن داوڑ کو بھی امن جرگے میں شرکت کی دعوت دی ہے۔
کون کون سی جماعتیں شرکت کر رہی ہیں؟گزشتہ چند ماہ کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے قیام امن کے لیے یہ دوسرا جرگہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے: بہت ہوگیا، اب افغان طالبان کی تجاویز نہیں حل چاہیے، اور حل ہم نکالیں گے: ڈی جی آئی ایس پی آر
اس سے پہلے علی امین گنڈاپور کی وزارت عالیہ کے دور میں منعقدہ جرگے میں بڑی پارلیمانی جماعتوں نے شرکت نہیں کی تھی تاہم پی ٹی آئی کے ہم خیال چند مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔
اب پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس بار تمام سیاسی جماعتیں شرکت کریں گی اور امن کے قیام کے لیے متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔
ترجمان کے مطابق 12 نومبر کا جرگہ گزشتہ جرگے سے بالکل مختلف ہوگا کیونکہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی خود اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مطابق صوبے کی تمام بڑی اور چھوٹی جماعتوں کو دعوت دی گئی ہے اور زیادہ تر جماعتوں نے شرکت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
مزید پڑھیں: عسکری کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے: خیبرپختونخوا حکومت نے امن جرگہ بلانے کا اعلان کردیا
پاکستان تحرک انصاف کے وفد نے گزشتہ روز اسلام آباد میں وفاقی وزیر برائے سرحدی و قبائلی امور انجینیئر امیر مقام سے ملاقات کی اور انہیں امن جرگے میں شرکت کی دعوت دی جو انہوں نے قبول بھی کر لی۔
ن لیگ کے مطابق وفاقی حکومت نے اپنی جماعت کو امن جرگے میں شرکت کی اجازت دے دی ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں امیر مقام نے کہا کہ وفاقی حکومت اس کوشش کو قومی اتفاق رائے کی سمت ایک مثبت قدم سمجھتی ہے۔
مزید پڑھیے: پاک افغان کشیدگی سے امن کا عمل شدید متاثر، ٹی ٹی پی کا قلع قمع کیے بغیر حالات میں بہتری کیسے آئے گی؟
ان کا کہنا تھا کہ اگر وفاق اور صوبہ ایک پیج پر ہوں تو دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہے اور ہماری پارٹی قیام امن کے لیے کسی بھی اقدام کی حمایت کرے گی۔
پی ٹی آئی کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں نے امن جرگے کے انعقاد کو سراہا ہے اور شرکت کی یقین دہانی کرائی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا سیاسی رہنماؤں سے رابطہ، قیام امن کے لیے جرگہ بلانے کا فیصلہ
اے این پی اور جماعت اسلامی نے مرکزی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے جب کہ دیگر جماعتوں نے شرکت کی حامی بھر لی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی ٹی آئی پی ٹی آئی امن جرگہ خیبرپختونخوا آل پارٹیز کانفرنس خیبرپختونخوا حکومت کے پی حکومت کے پی حکومت کا امن جرگہ