سونم وانگچک کوئی دہشتگرد نہیں ہے انہیں جودھ پور جیل کیوں بھیجا گیا، اشوک گہلوت
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
کانگریس لیڈر نے کہا کہ بھارت کے سرحدی علاقوں میں امن قائم ہونا چاہیئے، محبت و پیار اور بھائی چارے کی فضا قائم ہونی چاہیئے، یہ ہمارے ملک کے مفاد میں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ راجستھان کے سابق وزیراعلی اشوک گہلوت نے ادے پور میں مختلف مسائل پر ریاستی اور مودی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ تشدد چاہے منی پور ہو یا لداخ میں، یہ واضح ہے کہ مودی حکومت مسائل کو غلط طریقے سے سنبھال رہی ہے اور چیزوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ انہوں نے جودھ پور میں سماجی کارکن سونم وانگچک کی گرفتاری اور قید پر بھی سوال اٹھایا۔ سنیچر کو سرکٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کئی موجودہ مسائل پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
اشوک گہلوت نے کہا کہ منی پور میں تشدد کا ماحول بن رہا ہے، مرکزی وزارت داخلہ اس کے اسباب پہلے ہی معلوم ہوں گے، اگر پہلے ہی وقت رہتے بات چیت کر لی جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منی پور میں تشدد کو ڈھائی سال ہوچکے ہیں، اتنی خونریزی ہوئی ہے، حالات اب اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ وزیر اعظم مودی کے دورہ کے بعد بھی تشدد بھڑک اٹھا۔
لداخ کے سماجی رہنما سونم وانگچک کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے اشوک گہلوت نے کہا کہ سونم وانگچک کافی عرصے سے وہاں اپنے مطالبات اٹھا رہے تھے، وہ مودی کے بہت بڑے حامی بھی رہے ہیں، اچانک ایسا کیا ہوا کہ ان کے خلاف مقدمات دائر کئے گئے اور انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کونسا دہشتگرد ہیں کہ انہیں سیدھا جودھ پور جیل بھیجنا پڑا، یہ فیصلہ کیوں لیا گیا سمجھ سے بالاتر ہے، حکومت ان تمام معاملات کو غلط طریقے سے سنبھال رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے سرحدی علاقوں میں امن قائم ہونا چاہیئے، چاہے وہ لداخ ہو، منی پور، جموں و کشمیر یا کوئی اور خطہ، محبت و پیار اور بھائی چارے کی فضا قائم ہونی چاہیئے، یہ ہمارے ملک کے مفاد میں ہے۔ اشوک گہلوت نے کنہیا لال قتل کیس کے معاملے پر ایک بار پھر مرکزی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ خاندان کو اب تک انصاف مل جانا چاہیئے تھا، ہماری حکومت نے چار گھنٹے میں ملزمان کو گرفتار کر لیا تھا، ہماری حکومت ہوتی تو اب تک انصاف مل چکا ہوتا اور ملزمان کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ سونم وانگچک پور میں منی پور
پڑھیں:
پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور
پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور ترکی اور قطر کی ثالثی میں استنبول میں 7 نومبر 2025 کو مکمل ہوا، مذاکرات میں افغانستان سے پاکستان پر ہونے والے دہشتگرد حملوں، عارضی جنگ بندی اور سکیورٹی تعاون کے امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان مذاکرات میں پیشرفت، دفترِ خارجہ نے ڈیڈ لاک کی تردید کر دی
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان برادر ممالک ترکی اور قطر کی مخلصانہ ثالثی کی کوششوں کی قدر کرتا ہے، جنہوں نے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مذاکرات کا بنیادی مقصد افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے دہشتگرد حملوں کے مسئلے کو حل کرنا تھا، جو گزشتہ چار برسوں میں نمایاں طور پر بڑھ گئے ہیں۔
افغان سرزمین سے دہشتگردی میں تیزی، پاکستان کا تحملبیان میں کہا گیا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغان سرزمین سے پاکستان پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔ ان برسوں کے دوران پاکستان نے عسکری اور شہری نقصانات کے باوجود زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا، پاکستان کو توقع تھی کہ طالبان حکومت وقت کے ساتھ ان حملوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوگی، مگر عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔
دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مثبت سمت میں لے جانے کے لیے متعدد اقدامات کیے، جن میں تجارتی رعایتیں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد، تعلیمی و طبی ویزوں کی فراہمی اور عالمی فورمز پر طالبان حکومت سے تعمیری رابطے کی ترغیب شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام
ترجمان کے مطابق افغان حکومت کی طرف سے ان کوششوں کے جواب میں صرف زبانی وعدے اور بے عملی دیکھنے میں آئی۔
پاکستان کا مطالبہ، دہشتگردوں کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائیبیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے مذاکرات کے ہر مرحلے پر اپنے بنیادی مطالبے افغان سرزمین پر موجود دہشتگرد گروہوں کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائی پر زور دیا۔
یہ بھی پڑھیں: چمن بارڈر پر فائرنگ: پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور تعطل کے بعد دوبارہ جاری
ترجمان کے مطابق طالبان وفد نے ہر بار اصل مسئلے کو پسِ پشت ڈال کر غیر متعلقہ یا فرضی معاملات اٹھانے کی کوشش کی تاکہ بنیادی نکتے یعنی دہشتگردی سے توجہ ہٹائی جاسکے۔
طالبان حکومت کے بہانے، مذاکرات میں پیشرفت نہ ہوسکیترجمان کے مطابق، طالبان نمائندوں نے استنبول میں ہونے والے تیسرے دور میں بھی دہشتگردی کے مسئلے پر سنجیدگی نہیں دکھائی اور مذاکرات کو طول دینے کی حکمتِ عملی اپنائی۔ افغان فریق نے مذاکرات کا دائرہ وسیع کر کے غیر حقیقی الزامات اور بے بنیاد دعووں کو شامل کیا۔
دفترِ خارجہ کے مطابق طالبان حکومت صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی ہے، مگر دہشتگرد گروہوں کے خلاف عملی اقدامات سے گریزاں ہے۔
دہشتگردی انسان دوست نہیں، سکیورٹی کا مسئلہ ہےترجمان نے واضح کیا کہ طالبان حکومت پاکستانی دہشتگردوں کی موجودگی کو انسانی یا پناہ گزینوں کا مسئلہ بنا کر پیش کررہی ہے، حالانکہ یہ سراسر سکیورٹی کا معاملہ ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ان افراد کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے جو افغانستان میں موجود ہیں، بشرطیکہ انہیں طورخم یا چمن کے سرحدی راستوں سے باضابطہ طور پر حوالے کیا جائے، نہ کہ مسلح حالت میں سرحد پار بھیجا جائے۔
پاکستان کسی دہشتگرد گروہ سے مذاکرات نہیں کرے گادفترِ خارجہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان نے کبھی کابل میں کسی حکومت سے بات چیت سے انکار نہیں کیا، مگر کسی دہشتگرد گروہ، جیسے ٹی ٹی پی، ایف اے کے، یا بی ایل اے سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: استنبول میں کل پھر پاک افغان مذاکرات: بات چیت ناکام ہوئی تو صورت حال خراب ہو سکتی ہے، خواجہ آصف
ترجمان نے کہا کہ یہ گروہ ریاستِ پاکستان اور عوام کے دشمن ہیں، اور ان کے حامی یا معاون پاکستان کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔
طالبان حکومت کے اندر اختلافات اور بیرونی اثراتترجمان نے انکشاف کیا کہ طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستان سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، لیکن کچھ گروہ غیر ملکی مالی امداد سے پاکستان کے خلاف بیانیہ مضبوط کر رہے ہیں۔
یہ عناصر پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دے کر داخلی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں، مگر اس طرزِ عمل سے وہ پاکستان میں موجود اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔
پاکستانی قوم اور افواج دہشتگردی کے خلاف متحددفترِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ طالبان حکومت کی پروپیگنڈا مہم کے باوجود پاکستان کی افغان پالیسی پر مکمل اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ عوام اور افواجِ پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ میں یکجان ہیں اور ملک کے اندر یا باہر سے آنے والے کسی خطرے کے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔
پشتون قوم پرستی کے بیانیے کی نفیبیان میں طالبان حکومت کی جانب سے پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششوں کو بھی بے بنیاد قرار دیا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستان میں پشتون قوم ریاست اور معاشرے کا متحرک حصہ ہے، جو اعلیٰ سیاسی و انتظامی عہدوں پر فائز ہے۔ طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے ملک میں شمولیتی نظام پر توجہ دے۔
پاکستان امن کا حامی مگر دہشتگردی پر زیرو ٹالرنسترجمان نے کہا کہ پاکستان امن اور مذاکرات کا خواہاں ہے، تاہم دہشتگردی کے مسئلے کو اولین ترجیح کے طور پر حل کیے بغیر کوئی پیش رفت ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا، جبکہ دہشتگردوں اور ان کے مددگاروں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغان طالبان افغانستان پاکستان دفتر خارجہ دہشتگردی مذاکرات