1965 جنگ کا 22واں روز؛ معرکہ ڈوگرائی کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
ستمبر 1965 کی 17 روزہ جنگ پاکستان کی عسکری تاریخ میں نہایت اہمیت کی حامل ہے، 22 ستمبر کا دن بھارت کی 17 دن کی ہزیمت کا سورج لے کر طلوع ہوا۔
پاکستان اور لاہور کے دفاع کے لیے لڑی جانے والی اس جنگ میں معرکہ ڈوگرائی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
پاکستان آرمی کی پنجاب رجمنٹ سے تعلق رکھنے والی ایک مایہ ناز یونٹ نے 106 شہیدوں کے خون سے دشمن کا لاہور پہ قبضے کا خواب چکنا چور کیا۔
اس رجمنٹ نے ان 17 دنوں میں دشمن کے 18 حملوں کو صرف دو کمپنیوں کی مدد سے پسپا کیا، 106 شہیدوں کی قربانی پاکستان کے عزم اور حوصلے کی عظیم مثال ہے۔
لاہور چھاؤنی میں واقع ان شہداء کی یادگار ’’گنج شہیداں‘‘ کے نام سے موجود ہے، ہر سال 22 ستمبر کو وطن کی خاطر جان قربان کرنے والے ان بہادر سپوتوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
یادگار شہداء ڈوگرائی پر سابق فوجی افسروں کا 22 ستمبر کی مناسبت سے کہنا تھا کہ ’’36 دشمن کی کمپنیوں کے خلاف صرف 2 کمپنیاں 12 دن تک لڑتی رہی اور ہمارے 106 فوجی جوان شہید ہو گئے۔‘‘
سابق فوجی افسر کا کہنا تھا کہ ’’ملک پر قربان ہونے کا جذبہ اس وقت ہر نوجوان میں بھرپور تھا، قیام پاکستان سے اب تک ہماری فوج اپنی جانوں کی قربانیاں دیتی آئی ہے۔‘‘
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
1965ء، پاک فضائیہ نے ٹرانسپورٹ طیارے کو بطور بمبار طیارہ استعمال کر کے دشمن کو ہکا بکا کردیا
—تصویر بشکریہ پاک فضائیہ1965 میں پاک فضائیہ نے بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے سی-130 طیاروں کو بطور بمبار طیارہ استعمال کر کے دشمن کو حیران کردیا۔
ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ جاری تھی، پاک فضائیہ کو میدان جنگ میں مکمل فضائی برتری حاصل تھی، لیکن لاہور پر حملہ آور بھارتی فوج بدستور بی آربی کنال کی دوسری جانب مورچہ بند تھی اور لاہور شہر پر مزید حملوں کا خطرہ موجود تھا، دشمن بھاری توپ خانے سے مسلسل لاہور کے دفاع میں موجود ہماری بری فوج پر گولہ باری کر رہا تھا، اس صورتحال میں دشمن کو سبق سکھانے کے لیے پاک فضائیہ نے جارحانہ روش اختیار کی۔
21 ستمبر 1965ء کی شب پاک فضائیہ نے ایک منفرد قدم اٹھاتے ہوئے اپنے سی-130 ٹرانسپورٹ طیاروں کو بطور بمبار استعمال کرنے کا انوکھا فیصلہ کیا، اس سلسلے میں ان جہازوں میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں جس میں ان جہازوں کے پچھلے حصے میں موجود دروازوں کو عارضی طور پر ہٹا دیا گیا تاکہ بھاری گولہ بارود با آسانی دشمن پر گرایا جاسکے۔
یکم ستمبر 1965 کے تاریخی دن جب پاک فضائیہ کے شہبازوں نے دشمن کے عددی برتری کے غرور کو خاک ملاتے ہوئے اپنی فضائی برتری قائم کی تھی۔
یہ یقیناً ایک پُر خطر مشن تھا، مشن میں شامل پہلا طیارہ فلائٹ لیفٹیننٹ نذیر احمد اور فلائٹ لیفٹیننٹ جاوید حیات ملک جبکہ دوسرا طیارہ ونگ کمانڈر زاہد بٹ اڑا رہے تھے، اس حملے میں شامل سی- 130 ہرکولیس طیاروں نے رات 11 بجے دریائے راوی کو پار کیا اور 8 ہزار فٹ کی بلندی سے 18 ہزار پاؤنڈ وزنی بم دشمن کی پوزیشنز پر گرا دیے، حملہ کامیاب رہا اور دشمن کی 40 عدد بڑی توپیں فوری طور پر خاموش ہوگئیں اور گولہ باری کا سلسلہ فوری طور پر تھم گیا، یہ ایک کامیاب ضرب تھی، جس کو مزید تقویت دینے کے لیے کچھ وقفے کے بعد ایک اور ضرب ونگ کمانڈر زاہد بٹ(جو اس وقت پاک فضائیہ کے 35 ویں ونگ کے کمانڈنگ آفیسر تھے) نے لگائی، گو کہ پچھلے حملے کے بعد اب دشمن زیادہ چوکس ہوچکا تھا اور اب وہاں دشمن کی طیارہ شکن توپیں بھر پور فائرنگ کر رہی تھیں، لیکن ونگ کمانڈر زاہد بٹ نے انکی کوئی پرواہ نہیں کی اور اپنے مشن کو کامیابی سے مکمل کیا۔