Juraat:
2025-09-28@03:36:02 GMT

پروفیسر عبدالغنی بٹ ۔۔۔ استاد و سیاستدان

اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT

پروفیسر عبدالغنی بٹ ۔۔۔ استاد و سیاستدان

افتخار گیلانی

ویسے تو اس ہفتہ کا کالم بھی میں مصر اور فلسطین کی رفح بارڈر کے سفر اور غزہ پر ہو رہے ظلم و ستم پر مرکوز رکھنا چاہتا تھا، مگر پچھلے ہفتہ یعنی 17ستمبر کو خبر آئی کہ سینئر کشمیری لیڈر پروفیسر عبدالغنی بٹ نوے سال کی عمر اپنے آبائی گاؤں شمالی کشمیر کے شہر سوپور سے متصل بوٹیونگو می گاؤں میں انتقال کر گئے ۔یہ واحد ایسے سیاسی لیڈر ہیں، جن کو میں ان کی سیاست میں چھلانگ لگانے سے بہت پہلے بطور استاد جانتا تھا اور ان سے فیض حاصل کرنے کا شرف بھی حاصل رہا ہے ۔وہ بھی میری صحافت میں آنے سے بہت پہلے سے ہی مجھ سے واقف تھے ۔گو کہ مجھے باضابطہ ان کی شاگردی نصیب نہیں ہوئی، کیونکہ میرے کالج پہنچے سے قبل ہی 1986میں اس وقت کے جموں و کشمیر کے گورنر جگموہن نے نو سرکاری ملازمین سمیت ان کو بھی نوکری سے برطرف کردیاتھا، مگر اگر دیکھا جائے تو قصبہ سوپور کی میری یا مجھ سے پہلی والی جنریشن کسی نہ کسی صورت میں ان کو اپنا استاد گر دانتی ہے ۔
ہنگامہ خیز قصبہ سوپور میں جب بھی اسٹوڈنٹ اسٹرائک ہوتی تھی، توطالبعلموں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے پروفیسر صاحب کی خدمات لی جاتی تھیں، جو ان دنوں گورنمنٹ کالج سوپور میں فارسی کے استاد تھے۔ا ن کی کلاس بس اپنے سبجیکٹ تک ہی محدود نہیں رہتی تھی، بلکہ جس کلاس کا ٹیچر غیر حاضر ہوتا تھا، وہ طالبعلموں کو مصروف رکھنے کے لیے ان کی کلاس لیتے تھے ، چاہے وہ انگریزی یا سائنس کی ہی کلاس کیوں نہ ہوں۔ان کے فلسفیانہ اور شاعرانہ رنگ سے طالبعلم بھی خوب لطف اندوز ہوتے تھے ۔وہ صرف استاد نہیں تھے بلکہ نسلوں کے ذہنوں کو تراشنے والے معمار تھے ۔ ان کے لیکچر محض درسگاہ کی چار دیواری تک محدود نہ رہتے ، بلکہ طلبا کو سوچنے پر مجبور کرتے کہ معاشرہ کس سمت جا رہا ہے ۔ وہ فارسی کے استاد تھے مگر گفتگو کے دائرے میں فلسفہ، تاریخ، سیاست اور مزاح سب کچھ شامل ہوتاتھا۔ ان کے مزاح سے بھر پور برجستہ جملے اور حاضر جوابی ان کی تقریروں اور محفلوں کا خاصہ تھی۔ دہلی میں ایک بار میری موجودگی میں ایک تقریب میں معروف فلمساز مہیش بھٹ نے ان کے پاس آکر اپنا تعارف کچھ یوں کرایا؛ ‘مجھے مہیش بھٹ کہتے ہیں اور میں فلمیں بناتا ہوں’۔تو پروفیسر صاحب نے جواب دیا؛’مجھے پروفیسر عبدالغنی بٹ کہتے ہیں، اور میں مستقبل تراشتا ہوں۔ ‘آئی میک فیوچر’۔
کشمیری سیاست کی تاریخ میں دو ہی ایسے لیڈر ہیں، جو برجستہ مزاح، بذلہ سنجی اور نکتہ رسی پر دسترس رکھتے تھے ، وہ مرزا محمد افضل بیگ اور پروفیسر بٹ ہی رہے ہیں۔چونکہ ان کو انگریزی اور فارسی ادب پر خاصی دسترس حاصل تھی، اس لیے اس طرح کے باہنر شخص کا کسی سیاسی پارٹی کے ترجمان ہونا ایک انمول تحفہ جیسا تھا۔ جب وہ حریت کانفرنس کے ترجمان اور پھر چیئرمین رہے ،کس صحافی کو کیا چاہیے وہ ان کو بخوبی معلوم ہوتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ صحافی میرے موقف کی حمایت کے لیے نہیں بلکہ اپنی ہیڈ لائن ڈھونڈنے آتا ہے ۔ اس کو دفتر جاکر صفحہ اول کے لیے اپنی خبر بیچنی ہے ۔ وہ میڈیا کی نبض سے بخوبی واقف تھے ۔
صحافتی زندگی میں مجھے دیگر دو ہی ایسے اشخاص سے پالہ پڑا ہے ، جس کو صحافیوں کی ضروریات کا بخوبی ادراک ہوتا تھا، وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی اور نوے کی دہائی میں کانگریس کے ترجمان وٹھل نرائن گاڈگل تھے ۔ان کی پریس بریفنگ نپی تلی، لفاظی سے پرے ٹارگٹ الفاظ پر مشتمل اور بیان بھی بالکل اتنا ہی،جتنا صحافی کی ضرورت ہوتی تھی۔ محاوارت اور لفظوں کو مربوط کرنے اور جملوں کو تراشنے میں ان کے کسی قدر ہم پلہ میں نے بی جے پی کے ایک ترجمان وینکیا نائیڈو کو بھی دیکھا، جو بعد میں پانچ سال تک ہندوستان کے نائب صدر بھی رہے ۔
پروفیسر صاحب کے چند جملے دہلی کے اخبارات کے صفحہ اول کی ہیڈ لائنز بن گئی تھیں، جیسے سیاست میں سانپ چوہوں سے بیاہ کر سکتے ہیں اور سانڈ چھپکلیوں کے پیچھے دوڑ سکتے ہیں۔جب2001 میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پلاننگ کمیشن کے چیئرمین کے سی پنت کو کشمیر کے لیے بطور مصالحت کار مقرر کیا، تو حریت کانفرنس نے ان کا بائیکاٹ کیا۔ وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ کسی ایجنڈہ کی عدم موجودگی اور اتنی نچلی سطح پر وہ کوئی بات چیت نہیں کریں گے ۔جب پنت سرینگر کے دورہ پر آئے تو پروفیسر بٹ نے کہا کہ وہ ریگستان میں مچھلیوں کا شکار کرنے آرہے ہیں۔ یہ جملہ ان کا بہت ہی مشہور ہوگیا اور پنت پر چپک گیا تھا۔ان کے جملے محض سیاسی طنز نہیں بلکہ ان کی اُس نگاہ کا عکس ہوتے تھے جو انسانی رویوں اور طاقت کے کھیل کو گہرائی سے پرکھتی تھی۔ایک بار جب حریت کانفرنس کا ڈیلی گیشن دہلی آیا ہوا تھا۔ جن پتھ ہوٹل میں ان کا قیام تھا کہ سنڈے آبزور کے لیے سینر صحافی ساتھی شاہد مزدور انٹرویو کرنے کے لیے آئے تھے ۔ان دنوں اس ہفتہ وار اخبار کا تیسرا صفحہ انٹرویو کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ جب شاہدنے انٹرویو کی ریکارڈنگ کو ٹیکسٹ میں ڈھالا، تو معلوم ہوا کہ اس کے الفاظ بالکل اتنے ہی ہیں، جتنے انٹرویو کے لیے مخصوص جگہ کی ضرورت تھی۔ ایک لفظ بھی کم یا زیادہ نہیں کرنا پڑا۔گو کہ گیلانی صاحب کی طرح وہ اپنی تقریر سے بدن میں بجلیاں تو نہیں بھرتے تھے مگر بطور سیاسی لیڈر جب و ہ اسٹیج سے تقریر کرتے تھے ، تو سامنے بیٹھے سامعین کو دیکھ کر اپنا رنگ دکھاتے تھے ۔عام آدمی سے بات کرتے ہوئے وہ اسی کی سطح تک پہنچ کر اپنی بات پہنچاتے تھے ۔ نوکری سے برطرفی کے بعد جب انہوں نے سیاست میں قدم رکھا،تو یہ 1986کا پر آشوب زمانہ تھا۔ مسلم یونائیڈ فرنٹ کا قیام عمل میں آگیا تھا۔ وہ اس کے اہم لیڈروں میں تھے ۔جب اگلے سال یعنی 1987میں اس فرنٹ نے نیشنل کانفرنسـ کانگریس کے اتحاد کے خلاف انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کا انتخابی نشان قلم دوات اور پارٹی کے لیے سبز پرچم پر کتاب کا نشان رکھا کیا گیا تھا۔ فاروق عبداللہ نے خوب شور مچایا کہ متحدہ محاذ کے پرچم پر قرآن کی تصویر ہے اور یہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں اور الیکشن کمیشن سے بھی ان کو نااہل کرنے کا مطالبہ کیا۔اس کے اگلے روز پروفیسر صاحب کا جلسہ تھا۔ انہوں نے نیشنل کانفرنس کے انتخابی نشان یعنی ہل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کشمیر کو دقیانوسیت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اب جب علم و سائنس کی بدولت کھیت جوتنے کے لیے ٹریکٹر وغیرہ ایجاد ہو ئے ہیں، وہ ابھی بھی قوم کو ہاتھ سے ہل چلوانا چاہتے ہیں ،ہم تو کتاب پڑھنے اور قلم و دوات سے لکھنے کی ترغیب دے کر علم و دانش کو فروغ دینے کے نام پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ اس لیے ہمار ے پرچم پر کتاب اور انتخابی نشان قلم و دوات ہے ۔ وہ ہمیں کہتے ہیں کہ کتاب کیوں پرچم پر موجود ہے ، کیونکہ وہ جہالت کے علمبردار ہیں اور ہم علم کے داعی ہیں’۔پھر شاید ہی کسی کی ہمت ہوئی ہو کہ اس پر پھر سوال اٹھاتا۔
یہ سچ ہے کہ وہ میر واعظ فاروق، سید علی گیلانی یا شیخ عبداللہ کی طرح عوامی لیڈر کی سطح تک نہیں پہنچ پائے ۔ مگر مذاکرات میں اپنے موقف کی جزئیات اور نکتوں کو ابھارنے میں ان کو ملکہ حاصل تھا۔ جس دن ان کے انتقال کی خبر آئی، تو میں یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں نے ان کو پہلی بار کب دیکھا اور سنا تھا۔یاد آیا کہ 1977کے اسمبلی انتخابات میں سوپور میں جماعت اسلامی کے امیدوار سید علی گیلانی، نیشنل کانفرنس کے حکیم حبیب اللہ کے درمیان معرکہ تھا۔رات کو عشا ء کی نماز کے بعد مختلف علاقوں میں انتخابی جلسے ہوتے تھے ۔ جب جماعت اسلامی کا جلسہ ہمارے محلے میں تھا، تو گیلانی صاحب کی اسٹیج پر آمد سے قبل پروفیسر عبدالغنی بٹ لوگوں کو اپنی بذلہ سنجی سے محظوظ کر رہے تھے ۔غلام قادر وانی، عبدالوحید کرمانی اور پروفیسر بٹ جلسوں میں گیلانی صاحب کی آمد سے قبل جلسہ گاہ اور اسٹیج کو گرم کرتے تھے ۔بعد میں اس قبیل میں غلام محمد صفی بھی شامل ہو گئے ۔ 1983کے انتخاب کے دوران انتخابی مہم کی آخری ریلی کا انتظام و اس کے نعرے و ترانے انہوں نے ہی ایڈوکیٹ حسام الدین کے ساتھ مل کرترتیب دیے تھے ۔
جوں جوں عمر بڑھتی گئی، پروفیسر صاحب کی محفلوں میں حاضری لگتی رہی۔ عصر کی نماز کے بعد سوپور چوک میں جماعت اسلامی کے دفتر کی پہلی منزل میں ان کی ایک بیٹھک لگتی تھی، جہاں و ہ فلسفیایہ انداز میں پیشن گوئیاں کرکے امیدوں کے چراغ روشن کردیتے تھے ۔اسی طرح کا ایک ٹھکانہ ان کا غلام احمد بچہ کا میڈیکل اسٹور بھی ہوتا تھا، جہاں ان کی محفل جمتی تھی۔ مغرب کے بعد وہ اپنے گاؤں بوٹیونگو روانہ ہو جاتے تھے ۔
گریجویشن کے بعدصحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جب مجھے دہلی کی طرف روانہ ہونا تھا، تو پروفیسر صاحب پہلے شخص تھے ، جن کو ان کے گھر جاکر میں نے یہ نوید سنائی۔ انہوں نے خوب ڈھارس بندھوا کر حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ بس اگلے چند سالوں میں میڈیا ایک اشد ضرورت بن جائے گا۔جس وقت وہ یہ پیشن گوئی کر رہے تھے ، اس وقت بس سرینگر سے شائع ہونے والے دو اردو اخبارات سرینگر ٹائمز اور آفتاب موجود ہوتے تھے اور دوپہر جموں سے انگریزی کا کشمیر ٹائمز نصیب ہوتا تھا۔گھر پر کھانا کھلا کر بس میں بٹھا کر مجھے سوپور کی طرف انہوں نے وداع کیا، جہاں سے اگلے روز مجھے سرینگر اور پھر دہلی روانہ ہونا تھا۔اس دوران انہوں نے علی گڑھ میں اپنے دور طالبعلمی کے بارے میں اور گھر سے باہر صبر و برداشت کے گر بتائے ۔
میں دہلی تو چلا گیا تھا مگر کشمیر میں حالات دن بدن مخدوش ہوتے جا رہے تھے ۔ ابھی عسکری جدوجہد کا بھر پور آغاز نہیں ہوا تھا، مگرآئے دن لاکھو ں افراد جلوس کی صورت میں کبھی اقوام متحدہ کی دفتر کی طرف یا کبھی کسی اور جگہ مارچ کرتے تھے ۔ اسی دوران 1989کوشبیر احمد شاہ کی گرفتاری پر احتجاجی ہڑتالیں ہوئی، تو میں ا ن دنوں سوپور آیا تھا۔چوک میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا گیا تھا۔ گیلانی صاحب نے ا س دوران جو تقریر کی، اس پر بڑی تنقید ہوئی۔ انہوں نے کہا،’یہ ایک طویل جدوجہد ہے ، آپ کو غلط اندازے نہیں لگانے چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کے پاس گاڑی نہ ہو، اور آپ کو سرینگر جانا ہو، تو اگر آپ دوڑ لگائیں گے ، تو زیادہ سے زیادہ ایک یا دو کلومیٹر تک دوڑ کر نڈھال ہوکر گر جائیں گے ۔ اس کے برعکس اگر آہستہ آہستہ زاد راہ لے کر سفر جاری رکھیں گے ، تو سلامتی کے ساتھ منزل پالیں گے ‘۔اس کے علاوہ بھی انہوں نے چند ایسی باتیں کیں، جن سے لگتا تھا کہ وہ عسکریت اور تحریک کے اس موڑ سے مطابقت نہیں رکھتے تھے ۔ اس کے اگلے روز میں بوٹیونگو پروفیسر صاحب سے ملنے گیا، تو میری پسندیدہ ڈش راجما ش، چاول اور گھر کا بنا اچار کھلاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گیلانی صاحب قنوطیت پھیلا رہے ہیں۔ اس وقت پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے ، اور وہ اس کو پھر سلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سیاست کے کیا رنگ ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جب ستمبر 2003میں حریت دو حصوں میں بٹ گئی، تو گیلانی صاحب کا پروفیسر صاحب اور ان کے ساتھیوں یعنی میر واعظ عمر فاروق، مولانا عباس انصاری اور عبدالغنی لون کے بارے میں یہی خیال تھا کہ وہ قنوطیت پھیلا رہے ہی اور ہندوستان کی طرف سے کسی یقین دہانی کے بغیر عسکریت کو کنارے کرکے مکالمہ کا راستہ اپنا کر جلدی کر رہے ہیں۔بعد میں عقدہ کھلا کہ اس تحریک کی باگ دوڑ جس کے بھی ہاتھوں میں تھی، وہ لیڈرشپ کا ایک بحران پیدا کر نا چاہتا تھا۔ کیونکہ اس سے قبل شیخ عبداللہ نے جس طرح اپنی لیڈرشپ کا فائدہ اٹھا کر چیف منسٹری کے عوض تحریک کو فروخت کیا تھا، اس کی وجہ سے کوئی بھی لیڈر قابل اعتماد نہیں تھا۔
چونکہ 1975کے بعد رائے شماری کا نعرہ صرف جماعت اسلامی یا سیدعلی گیلانی کے جلسوں میں ہی لگایا جاتا تھا، اس لیے وہ اب تحریک کی احیاء کی سیاسی قیادت کا دعویٰ کرتے تھے ۔ عسکری محاذ کے لیے شبیر احمد شاہ موزوں لیڈر تصور کیے جارہے تھے ۔ ادھر کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کا وجود ختم ہو چکا تھا۔ مگر یہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔اس کے لیڈر سردار عبدالقیوم خان کو قلق تھا کہ لائن آف کنٹرول سے دوسری طرف ان کی پارٹی ختم ہو چکی ہے اور وہ اس کا احیاء کرکے اپنے آپ کو دونوں طرف کے کشمیر کے لیڈر کے بطور ابھارنا چاہتے تھے ۔ اس کے لئے قرعہ فال پروفیسر بٹ کے نام پڑ چکا تھا۔ ان کو کشمیر میں مسلم کانفرنس کا چیئرمین نامز د کر دیا گیا۔یعنی سوپور میں سید علی گیلانی کے مقابل کھڑا کر دیا گیا۔1990 میں دیگر لیڈران کے ساتھ ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔ جودھ پور اور پھر دہلی کے تہاڑ جیل میں چار سال گزار کر پھر ان کو رہا کر دیا گیا۔ مگر تب تک لیڈران کی عدم موجودگی اور ان گنت عسکری تنظیموں کی وجہ سے کشمیر میں ایک انارکی کاماحول بن گیا تھا، جس کا خمیازہ ایک عرصے تک بھگتنا پڑا۔ جب یہ سب رہا بھی ہوگئے ، تب تک ڈیڑھ انچ کی ان کی کھڑی کردہ اینٹوں کی لیڈری اتنی پختہ ہو گئی تھی، کہ اس کی انا کے بوجھ کے تلے قوم پس گئی۔
پروفیسر صاحب کے اپنے بھائی محمد سلطان بٹ کو 1996میں ہلاک کیا گیا۔اس سے چند روز قبل ان کے گاؤں بوٹیونگو سے چند میل کے فاصلے پر ڈورومیں سید علی گیلانی کی رہائش گاہ کو رات کے وقت آئی ای ڈی لگا کر بلاسٹ کر دیا گیا تھا، جس میں ان کے دو بھائی، داماد اور ان کی فیملی کے اراکین بال بال بچ گئے تھے ۔ دوستوں کی ہلاکت اور قریبی رفقا کی اموات نے پروفیسر صاحب کی زندگی کو زخموں سے بھر دیا تھا۔ مگر انہوں نے کبھی تلخی کو اپنے اوپر غالب نہ ہونے دیا۔اس طوائف الملکی سے کچھ حد تک نجات 2008کے بعد ہی بتدریج ملی، مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔خود پروفیسر صاحب کے بقول کبھی آپ کا نشانہ غلط ہوجاتا ہے ، کبھی منصوبے ناپختہ ہاتھو ں میں پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی آپ کا غلط انداز بھی ناکامی کا سبب بنتا ہے ۔ کانٹوں کی جھاڑیوں میں پھنسا ہو ا شخص گلاب کی خوشبو سے کیسے استفادہ کرسکتا ہے’ ۔ایک روز پروفیسر صاحب سے میں نے ان کی صحیح پیدائش کی تاریخ پوچھی، تو انہوں نے کہا کہ کاش ان کو پتہ ہوتا۔ایک آسودہ حال گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود ان کے والد پڑھے لکھے نہیں تھے ۔ اس لیے پیدائش کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا۔
پچھلے سال سوپور سے تعلق رکھنے والے صحافی غلام حسن کو ایک یوٹیوب انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ایک روز ان کے والد نے ان کا ہاتھ پکڑا اور دوکان سے شیرینی خرید کر ان کو مقامی پرائمری اسکول میں درج کروایا، جہاں ان کی تاریخ پیدائش 1935لکھی گئی۔ استاد سروانند نے جب نام پوچھا، تو انہوں نے کہا غنی، کیونکہ والدین اور دیگر بچے ان کو غنی کہہ کر ہی پکارتے تھے ۔مگر پنڈت استاد نے ٹوکا اور کہا کہ تمہارا نام عبدالغنی ہے ۔’تو بس معلوم ہوا کہ غنی کوئی اور ہے ،ا ور میں اس کا بندہ اور تابعدار ہوں۔ یہ استاد کا پہلا سبق تھا۔’
سوپور انٹرمیڈیٹ کالج کے بعد انہوں نے گریجویشن کی تعلیم سرینگر کے ایس پی کالج سے حاصل کی۔ ان کے مطابق کالج میں انگریزی کے استاد ایس ایل سادھو نے ا ن کو بہت متاثر کیا۔ ڈاکٹرشمس الدین نے ان کو فارسی سے متعارف کروایا۔ ان کا پڑھانے کا طریقہ پر اثر تھا۔بعد میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے اور قانون یعنی ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی۔علی گڑھ میں ڈاکٹر ہادی حسن ان کے استاد رہے ۔ بقول پروفیسر صاحب، وہ جب لیکچر دیتے تھے ، تو جیسے ایک خوبصورت جھرنا بہتا تھا۔ ان کی کلاس میں وقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ میں بھی کچھ ان ہی جیسا بننا چاہتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک زمانے کے بعد جب وہ حریت کانفرنس کے ایک سینئر لیڈر کی حیثیت سے دفتر میں براجمان تھے کہ ان کو بتایا گیا کہ ایک معمر پنڈت ان سے ملنے کا خواہاں ہیں۔ وہ جموں سے آئے ہیں۔ معلوم ہو اکہ وہ ان کے انگریزی کے استاد سادھو تھے ۔وہ فریاد کرنے آئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ نوے کے اوائل میں جب وہ بھی دیگر پنڈتوں کی طرح جموں ہجرت کر گئے ،تو انہوں نے اپنا مکان اپنے ایک پڑوسی وکیل کے سپرد کر دیا تھا۔ اس نے اب اس پر قبضہ جمایا ہوا ہے ۔پروفیسر صاحب کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک جج کو یہ روداد سنائی اور درخواست کی کہ اس وکیل کی سرزنش کریں۔ بس چند روز کے بعد سادھو صاحب کو اپنے مکان کا قبضہ واپس مل گیا۔
علی گڑھ سے فراغت کے بعد پروفیسر بٹ نے وکالت میں قسمت آزمائی کی مگر دل نہیں لگا۔ اس کے دو سال بعد ان کو محکمہ تعلیم میں نوکری ملی اور گورنمنٹ کالج بارہمولہ میں لیکچرر اورپھر سوپور کالج میں بطور پروفیسر متعین ہوگئے ۔ان کا کہنا تھا کہ ان کو طالبعلموں سے مکالمہ کرنے میں لطف آتا تھا۔ مگر یہ سفر گورنر جگموہن کی وجہ سے ادھورا چھوڑنا پڑا۔حالات نے کالج کے ماحول سے ان کو نکال کر سیاست کے خار و زار میں دھکیل دیا۔’ یہ قدرت کا فیصلہ تھا، ورنہ درس و تدریس میری پہلی پسند تھی’۔اس برطرفی کے بعد انہوں نے سوپور میں ایک جلسہ میں کہا کہ غنی آزاد ہو گیا ہے ۔مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ زندگی بھر کلاس روم اور طالبعلموں کو مس کرتے تھے ۔اس کے فورا بعدہی سرینگرمیں وہ مسلم متحدہ محاذ کی تشکیل میں مصروف ہوگئے اور غلام قادر وانی اور قاضی نثار کے ساتھ اس کا آئین ترتیب دینے والی کمیٹی کے رکن بنائے گئے ۔ یہ اتحاد دراصل قاضی نثار کی امت اسلامی اور جماعت اسلامی کے بیچ تھا۔ باقی چھوٹی پارٹیاں اس میں شامل تھیں۔سال1989کے برعکس اب 1999کی کرگل جنگ کے بعد ان کو احساس ہو گیا تھا کہ مسئلہ کشمیر بندوق یا خونریزی سے نہیں، صرف مکالمے سے حل ہو سکتا ہے ۔اُن کا جملہ ‘سب کی تھوڑی تھوڑی ناک کٹے گی مگر خوبصورتی میں کمی نہیں آئے گی’۔اُن کے اس نظریے کا نچوڑ تھا کہ امن قربانی مانگتا ہے مگر اس کے ثمرات دائمی ہوتے ہیں۔ وہ کہتے کہ ہندوستان اور پاکستان صرف ‘ہمارے پیٹ’ بھرتے ہیں مگر ‘زخمی دل’ تک ابھی تک نہیں پہنچے ہیں۔ ان کی نگاہ میں تنازعہ کشمیر زمین کا جھگڑا نہیں بلکہ ‘روحوں کا جھگڑا’ تھا۔
ان کا حریت کانفرنس کا چیئرمین بننے کا قصہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے ۔ 1993میں جب حریت کانفرنس وجود میں آئی، تو پانچ سال تک میر واعظ عمر فاروق اس کے چیئرمین کے عہدے پر رہے ، گو کہ آئین میں چیئرمین کے لیے دو سال کا دورانیہ مقرر کر دیا گیا تھا۔ 1998میں طے ہوا کہ نئے چیئرمین کا انتخاب کیا جائے ۔ آئین کے مطابق چیئرمین کا انتخاب ایگزیکٹو میں شامل سات پارٹیوں کے سربراہان یا ان کے نمائندو ں کے حد اختیار میں تھا۔ جب ایگزیکٹو کی میٹنگ ہوئی تو طے ہوا کہ نئے چیئرمین کا انتخاب ووٹنگ کے ذریعے نہیں بلکہ قرعہ اندازی سے ہوگا۔میر واعظ کو ہی اختیار دیا گیا کہ وہ سلپ اٹھالیں۔ جو سلپ انہوں نے اٹھائی، اس پر سید علی گیلانی کا نام تھا۔ اس طرح وہ جولائی 2000تک حریت کے چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے ۔ مگر جب 2000میں چیئرمین کو منتخب کرنے کی نوبت آئی، تو بتایا گیا کہ اس بار قرعہ اندازی نہیں بلکہ ووٹنگ ہوگی۔ دو نام تجویز کیے گئے ، پروفیسر عبدالغنی بٹ اور عبدالغنی لون۔جنگ کرگل کے بعد سے لون صاحب بات چیت کا دروازہ کھولنے کے حامی تھے اور عسکریت کو سیاسی قیادت کے تابع کرنے پر بھی زور دیتے تھے ، جس سے کئی حلقے ان سے ناراض تھے ۔ وہ حریت چیئرمین کے لیے ایک کلیدی امیدوار کے طور پر ابھرے تھے ۔ایگزیکٹو کی اکثریت کو انہوں نے اپنا حامی بنایا تھا۔ مگر عین انتخاب کے دن ایگزیکٹو کی ایک اکائی پیپلز لیگ نے اپنے نمائندے بشیر احمد طوطا کے بجائے کسی اور کو نمائندگی کے لیے بھیجا، جس کا فیصلہ کن ووٹ پروفیسر بٹ کے حق میں پڑا۔
ان کی شخصیت کا سب سے دلکش پہلو ان کا ادبی ذوق تھا۔امید تھی کہ وہ اپنے پیچھے بھی کوئی ادبی اور تاریخی شاہ کار چھوڑیں گے ۔ جیل میں انہوں نے انگریزی میں بیہائنڈ دی بارزکے نام سے کتاب لکھنی شروع کی تھی۔ مگر بقول ان کے جیل ساتھیوں کے بہت سے صفحات کو سیا ہ کرنے کے بعد خوب سے خوب تر کی تلاش میں ان کو ضائع کرکے ، نئی ابتدا کر تے تھے ۔ ان کی اس زور زبردستی سے بہت کم صفحات ہی ان کی رہائی تک محفوظ رہ گئے ۔خیر 2016میں انہوں نے اپنی کتاب بیانڈ می شائع کی۔ مگر یہ ان کی شایان شان کتاب نہیں تھی، اس میں انہوں نے چونکہ کوئی انکشافات نہیں کیے تھے ، اس لیے اس کو وہ پذیرائی بھی نہیں مل سکی۔
پروفیسر صاحب اقبال اور رومی کو محض پڑھتے نہیں تھے بلکہ روزمرہ کی گفتگو میں برتتے تھے ۔اکثر ملاقات کا آغاز اس سوال سے کرتے ؛’کیا کوئی خواب دیکھا ہے ؟’ پھر اس خواب کی تعبیر صوفیانہ رنگ میں بیان کرتے ۔ یہ عادت اُن کی شخصیت کو ایک پراسرار اور روحانی رنگ عطا کرتی تھی۔ان کی غیر موجودگی سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو پُر نہیں ہو سکتا، مگر ان کے الفاظ، ان کے خواب اور ان کا صوفیانہ انداز ہمیں ہمیشہ یہ یاد دلاتا رہے گا کہ امن ممکن ہے ، اگر ہم خواب دیکھنے کی ہمت رکھیں۔وہ محض سیاست دان نہیں تھے ، ایک استاد تھے ، ادیب تھے ، اور ان سب سے بڑھ کر وہ ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو کشمیر کے دکھوں اور خوابوں کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔
مجھے یاد آرہا تھا کہ صحافی غلام حسن کو انٹرویو میں وہ کہہ رہے تھے کہ کہ ان کے والد کا نام حبیب اللہ تھا یعنی پیارا اور محبوب اور ماں کا نام بخت یعنی سہارا تھا’۔اس پیارا اور سہار ا کا ماحاصل میں ایک ادھور١ انسان ہوں۔ میری پروفیسری ادھوری رہ گئی،میری سیاست ادھوری رہ گئی۔ میں ادھورا ہی چلا جاؤں گا، جو مجھ پر گزری، میں چاہتا ہوں کہ اوروں پر نہ گزرے ۔ خوش و خرم رہیں۔’الوداع پروفیسر صاحب…
یاد سے تیری دل درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
میرے لب پر قصہ نیرنگی دوراں نہیں
دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں، گریاں نہیں
پر تری تصویر قاصد گریہ پیہم کی ہے
آہ! یہ تردید میری حکمت محکم کی ہے
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: پروفیسر عبدالغنی بٹ سید علی گیلانی کا کہنا تھا کہ پروفیسر صاحب حریت کانفرنس جماعت اسلامی انہوں نے کہا میں انہوں نے گیلانی صاحب کانفرنس کے چیئرمین کے پروفیسر بٹ کانفرنس کا کر دیا گیا انہوں نے کا انتخاب نہیں بلکہ سوپور میں نے کہا کہ میر واعظ کرتے تھے معلوم ہو نہیں تھے کے استاد کشمیر کے ہوتا تھا ہوتے تھے علی گڑھ گیا تھا کرنے کے صاحب کی ہیں اور کے ساتھ رہے تھے میں ایک رہے ہیں کے لیے کر رہے کے نام کی طرف ہوا کہ کے بعد اور ان رہے ہی اس لیے

پڑھیں:

کیا درد کش دوا ٹائلینول یا ویکسینز صحت کے لیے مضر ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 ستمبر 2025ء) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ نہ تو درد کم کرنے والی دوا ٹائلینول اور نہ ہی ویکسین 'آٹزم' مرض کا سبب بنتی ہیں۔ ادارے نے یہ بیان امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس دعوے کے بعد جاری کیا ہے، جس میں انہوں نے اصرار کیا تھا کہ چونکہ ٹائلینول آٹزم کا سبب ہے اس لیے حاملہ خواتین کو اس سے بچنا چاہیے۔

صدر ٹرمپنے بچوں کو دی جانے والی معیاری ویکسینز پر بھی سوال اٹھایا اور اس میں بھی بڑی تبدیلیوں پر بھی زور دیا۔

طبی گروپ طویل عرصے سے ٹائلینول کے بنیادی اجزا ایسیٹامنفین، یا پیراسیٹامول کا حوالہ دیتے ہوئے حمل کے دوران لینے کے لیے سب سے محفوظ پین کلر ادویات میں ایک قرار دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

ڈبلیو ایچ او کے ترجمان طارق جساریوچ نے البتہ یہ بات تسلیم کی کہ کچھ مشاہداتی مطالعات، جو کہ مکمل طور پر صرف مشاہدات پر مبنی ہیں اور ان میں کنٹرول یا علاج کے طریقہ کار کے گروپ شامل نہیں ہیں، نے " قبل از پیدائش ایسیٹامنفین یا پیراسیٹامول کے استعمال کے درمیان ممکنہ تعلق کی تجویز پیش کی ہے۔

"

لیکن انہوں نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ اس حوالے سے "شواہد متضاد ہیں" اور بعض دیگر تحقیقات میں "ایسا کوئی بھی تعلق نہیں" پایا گیا۔

انہوں نے "آٹزم میں ایسیٹامنفین کے کردار کے بارے میں غیر معمولی نتائج اخذ کرنے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا، "اگر ایسیٹامنفین اور آٹزم کے درمیان تعلق مضبوط ہوتا، تو یہ ممکنہ طور پر متعدد مطالعات میں مستقل طور پر سامنے آتا۔

" کوئی ثبوت نہیں ہے

اس دوران یورپی طبی ریگولیٹرز نے کہا ہے کہ ان کی ایسی سفارشات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ حاملہ خواتین درد سے نجات کے لیے پیراسیٹامول استعمال کر سکتی ہیں۔

برطانیہ کی میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (ایم ایچ آر اے) کے سیفٹی چیف ایلیسن کیو نے ایک بیان میں کہا، "مریضوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حمل کے دوران پیراسیٹامول لینے سے بچوں میں آٹزم ہوتا ہے۔"

یورپی میڈیسن ایجنسی کے چیف میڈیکل آفیسر اسٹیفن تھرسٹرپ نے بھی اس سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا، "ہمارا مشورہ دستیاب سائنسی اعداد و شمار کے سخت جائزے پر مبنی ہے اور ہمیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حمل کے دوران پیراسیٹامول لینے سے بچوں میں آٹزم ہوتا ہے۔

"

پیر کے روز جب ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران ٹائلینول کا ذکر کیا تو انہوں نے بچوں کی ویکسینز کو بھی اس میں شامل کیا اور اینٹی ویکس موومنٹ کے اپنے نکات کو دہرایا۔

ٹرمپ کے ان بیانات سے جن معیاری ویکسین کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے، ان میں ایم ایم آر شاٹ بھی شامل ہے۔ یہ ویکسین خسرہ، ممپس اور روبیلا کے لیے دیا جاتا ہے۔

ٹرمپ نے کہا کہ وہ ویکسین میں ایلومینیم کے عام استعمال کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے، جس کی حفاظت پر وسیع پیمانے پر مطالعہ کیا گیا ہے۔

آٹزم دماغ کی نشوونما سے منسلک ایک پیچیدہ بیماری ہے، جس کے بارے میں بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بنیادی طور پر جینیاتی وجوہات کی بناء پر ہوتی ہے۔

ٹرمپ کے سکریٹری صحت رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر کئی دہائیوں سے یہ دعوے کرتے رہے ہیں کہ بچوں میں ویکسین آٹزم کا باعث بنتی ہیں۔

ویکسین کے نظام الاوقات سائنس کے مطابق

امریکی صدر اور ان کی انتظامیہ کی طرف سے بچپن میں لگائی جانے والی ویکسین کے بارے میں پیدا ہونے والے خدشات کے بارے میں پوچھے جانے پر، جسارووچ نے کہا: "ویکسین آٹزم کا سبب نہیں بنتی ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "بچپن کے حفاظتی ٹیکوں کے شیڈول بڑی احتیاط سے ڈبلیو ایچ او کی رہنمائی میں تیار کیا گیا ہے، تمام ممالک نے انہیں اپنایا ہے اور پچھلے 50 سالوں میں کم از کم 154 ملین جانیں بچائی ہیں۔

"

انہوں نے مزید کہا کہ "یہ نظام الاوقات سائنس کے ساتھ مسلسل تیار ہوئے ہیں اور اب بچوں، نوعمروں اور بالغوں کو 30 متعدی بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔"

تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ "جب حفاظتی ٹیکوں کے نظام الاوقات میں تاخیر یا خلل ڈالا جاتا ہے، یا ثبوت کے جائزے کے بغیر تبدیل کیا جاتا ہے، تو نہ صرف بچے بلکہ وسیع تر کمیونٹی کے لیے بھی انفیکشن کے خطرے میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے"۔

ان کا کہنا تھا، "ترک کی گئی ایسی خوراک جان لیوا متعدی بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔"

ڈبلیو ایچ او کے ترجمان نے کہا کہ دنیا بھر میں 62 ملین افراد آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ اس پر عالمی برادری کو مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ "آٹزم کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے اور کس طرح بہتر طریقے سے آٹسٹک لوگوں اور ان کے خاندانوں کی ضروریات کو پورا کرنا اور ان کی مدد کرنا ہے"۔

لیکن سائنس نے "ثابت کیا" کہ ویکسین کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "ان چیزوں پر واقعی سوال نہیں کیا جانا چاہیے۔"

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں سیاسی جلسے  کے دوران بھگدڑ مچنے سے 29افراد ہلاک
  • بھارتی سیاستدان کے جلسے میں بھگدڑ، 31 افراد ہلاک، 50 زخمی
  • نامور وکیل اور سیاستدان چوہدری اعتزاز احسن آج اپنی 80ویں سالگرہ منا رہے ہیں
  • کیا درد کش دوا ٹائلینول یا ویکسینز صحت کے لیے مضر ہیں؟
  • پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ، پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا خصوصی انٹرویو
  • یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر پیٹر وھیلَن کا لیکچر
  • وزیراعظم سے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی 80 اجلاس کی سائیڈ لائن پر خوشگوار ماحول میں ملاقات
  • وزیراعظم  شہباز شریف سے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر  پروفیسر محمد یونس کی ملاقات،دو طرفہ تعلقات کو مزید بہتر اور مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال 
  • وزیر اعظم شہباز شریف سے بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کی ملاقات