حکومت کا پاک سعودیہ دفاعی معاہدے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
حکومت نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پارلیمانی ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس 29 ستمبر کو طلب کیا جائے گا، اجلاس بلانے کی سمری وزیراعظم کو بھجوا دی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت پارلیمانی امور نے اجلاس بلانے کی سمری وزیراعظم کو بھجوا دی، وزیر دفاع خواجہ آصف پاک سعودیہ معاہدے پر پالیسی بیان دیں گے۔
خیال رہے کہ 17 ستمبر کو وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی ولی عہد اور وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے (SMDA) پر دستخط کیے تھے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کے مملکت سعودی عرب کے دورے کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا، معاہدے میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔
ایک ملک کے خلاف جارحیت دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور ہو گی، پاک سعودی عرب معاہدہپاکستان اور سعودی عرب کے مابین اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے (SMDA) پر دستخط کر دیے گئے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا ہے، معاہدے کا مقصد جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔
اعلامیہ کے مطابق معاہدہ دونوں ممالک کی سلامتی کو بڑھانے، خطے اور دنیا میں امن کے حصول کے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، موجودہ اور متوقع خطرات و چیلنجز کے تناظر میں یہ معاہدہ دفاع کو مضبوط بنائے گا، معاہدہ دونوں ممالک کی دفاعی صلاحیتوں کی تیاری اور انضمام کو بڑھائے گا، معاہدے سے دونوں ممالک کی سلامتی اور علاقائی سالمیت کو لاحق کسی بھی خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے گا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے دونوں ممالک کے خلاف
پڑھیں:
پاک،سعودیہ دفاعی معاہدہ: کیا مطالبات رکھے گئے؟
حالیہ دنوں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک ب اہم دفاعی معاہدہ طے پایا ہے، جسے بعض مبصرین نیٹو جیسے اتحاد کی ابتدائی شکل قرار دے رہے ہیں۔ اگرچہ فی الحال اس میں صرف دو ممالک شامل ہیں، لیکن امکان ہے کہ جلد ہی دیگر عرب اور مسلم ممالک بھی اس میں شامل ہوں گے۔
یہ معاہدہ نیٹو جیسا کیوں ہے؟
نیٹو کے آرٹیکل 5 کے مطابق، کسی ایک رکن ملک پر حملہ پورے اتحاد پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ پاک-سعودیہ معاہدے میں بھی اسی طرح کی شق شامل ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک ملک پر حملہ ہو تو دونوں اسے مشترکہ خطرہ تصور کریں گے اور مل کر جواب دیں گے۔
دفاعی اتحاد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیل نے قطر پر حملہ کیا، باوجود اس کے کہ وہاں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں۔ اس واقعے نے عرب دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور انہیں یہ احساس دلایا کہ امریکا ان کا قابلِ بھروسہ محافظ نہیں۔ چنانچہ، خطے میں ایک اسلامی دفاعی بلاک بنانے کی سوچ ابھری، جس میں پاکستان کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
گریٹر اسرائیل منصوبہ
بہت سے ماہرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل کا طویل المدتی منصوبہ گریٹر اسرائیل” ہے، جس میں عرب ممالک کے کئی علاقے شامل کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ کچھ خفیہ نقشوں میں مدینہ منورہ تک کو شامل کیا گیا ہے۔ یہی خدشات سعودی عرب کو پاکستان جیسے ایٹمی طاقت رکھنے والے اتحادی کی طرف لے گئے۔
پاکستان کا مطالبہ کیا تھا؟
معاہدے سے قبل پاکستان نے سعودی حکام کے ساتھ کئی نشستیں کیں اور واضح طور پر کہاکہ ہمیںبھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ کے خلاف سعودی حمایت درکار ہے۔ اسرائیل جہاں عرب دنیا کے لیے خطرہ ہے، وہیں بھارت پاکستان کے لیے براہِ راست خطرہ ہے، اور دونوں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔
پاکستان کو فائدہ کیا ہوگا؟
سعودی عرب کی حمایت سے پاکستان کو سفارتی، دفاعی اور انٹیلی جنس سطح پر تقویت ملے گی۔
مستقبل میں اگر بھارت حملہ کرے اور اسرائیل اس کی مدد کرے تو پاکستان تنہا نہیں ہوگا۔
معاشی اور اسٹریٹیجک تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، خاص طور پر سعودی سرمایہ کاری اور تیل کے معاملات میں۔
تاریخی تناظر
پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی تعاون نیا نہیں۔ 1969 سے پاکستانی پائلٹس سعودی فضائیہ کی مدد کر رہے ہیں۔ 1979 میں خانہ کعبہ پر حملے کے وقت پاکستانی کمانڈوز نے آپریشن میں حصہ لیا۔ 1980 کی دہائی میں ایران،عراق جنگ کے دوران ہزاروں پاکستانی فوجی سعودی عرب میں تعینات رہے۔