Express News:
2025-09-28@01:25:13 GMT

اٹلی کی ضد اور فلسطین

اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT

یورپ کے کئی ممالک نے حالیہ دنوں میں فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ محض سفارتی کارروائی نہیں بلکہ ایک بڑے انسانی ضمیرکی آواز ہے جو برسوں سے دبائی جا رہی تھی۔

فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، بیلجیم، لکسمبرگ اور مالٹا جیسے ممالک نے یہ تسلیم کر کے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی زمین اور اپنی ریاست کے جائز حق دار ہیں لیکن انھی دنوں اٹلی نے اس کے برعکس موقف اختیارکیا اور فلسطین کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ اس انکار نے پورے اٹلی کو ہلا کر رکھ دیا۔

گلیاں چوراہے اور بڑے بڑے شہر احتجاج کی آواز سے گونج اُٹھے۔ طلبہ، مزدور، خواتین اور عام شہری ایک ہی بات دہرا رہے ہیں کہ فلسطین کو تسلیم کیا جائے۔

یہ یورپ میں ایک نئی لہر ہے۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے واضح کیا کہ فلسطین کو تسلیم کیے بغیر امن ممکن نہیں۔ برطانیہ اورکینیڈا جیسے ممالک جو ہمیشہ اسرائیل کے اتحادی رہے ہیں، اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کے ایک نئے رخ پرکھڑے ہوگئے ہیں۔

یورپی ممالک میں اب رائے عامہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اور فلسطین کے ساتھ جا کھڑی ہوئی ہے۔ غزہ کی بربادی معصوم بچوں کی لاشیں برباد بستیاں اور ملبے میں دبے خواب یہ سب مناظر دنیا کو مجبورکر رہے ہیں کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔

اٹلی کی حکومت مگر اس وقت ہچکچاہٹ میں گرفتار ہے، وزیر اعظم جارجیا میلونی نے یہ اعلان کیا کہ اٹلی فلسطین کو صرف اس وقت تسلیم کرے گا جب اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا جائے اور حماس کو مستقبل کی فلسطینی حکومت سے باہر رکھا جائے۔

یہ شرطیں دراصل فلسطین کے حق کو مزید کمزورکرنے کی کوشش ہیں۔ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ایک نئی دیوار ہے جو فلسطینی عوام کے سامنے کھڑی کی جا رہی ہے۔ یہ موقف دراصل امریکا اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے ہے۔

اٹلی نے ماضی میں بھی فلسطین کے حق میں آنے والی قراردادوں سے یا توکنارہ کشی اختیار کی یا ان کی مخالفت کی۔مگر سڑکوں پر عوام کا ردعمل حکومت سے بالکل مختلف ہے۔ پچھلے ہفتے اٹلی میں ایک دن کی عام ہڑتال کی گئی جس کا نعرہ تھا ’’ سب کچھ بند کرو‘‘ اسکول بند، فیکٹریاں بند، ٹرانسپورٹ معطل اور مزدوروں نے بڑی بندرگاہوں پر جہازوں کو لنگر انداز ہونے سے روک دیا۔

یہ احتجاج محض جذباتی نہیں بلکہ سیاسی اعلان تھا کہ فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا، اب ایک اخلاقی ذمے داری ہے۔ مزدور، طلبہ، خواتین سب ایک ہی پیغام دے رہے تھے کہ یہ مسئلہ صرف مشرق وسطیٰ کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے۔

یورپ اس وقت ایک بار پھر تقسیم کے دہانے پر ہے۔ ایک طرف وہ ممالک ہیں جنھوں نے فلسطین کو تسلیم کر لیا۔ دوسری طرف وہ حکومتیں ہیں جو امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں کا بوجھ اٹھائے کھڑی ہیں۔ اٹلی اس دوسری صف میں ہے، مگر اس کے عوام اپنی حکومت کو مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب عوامی رائے مسلسل اور مضبوط ہو جائے تو کوئی حکومت زیادہ دیر تک اپنی ضد برقرار نہیں رکھ سکتی۔ آج اٹلی کے نوجوان اور مزدور جب فلسطین کا جھنڈا اٹھاتے ہیں تو وہ صرف ایک ریاست کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ ان کی یہ آواز اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں سب کے لیے انصاف ہو۔

یہ مسئلہ صرف سفارتی تسلیم کا نہیں بلکہ ایک بڑے اخلاقی سوال کا ہے۔ دنیا مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوگی یا طاقتور کے ظلم کے سامنے جھک جائے گی؟ بایاں بازو ہمیشہ اس سوال کا جواب یکجہتی میں دیتا رہا ہے۔ ویتنام جنوبی افریقہ اور اب فلسطین مظلوموں کی جدوجہد نے ہمیشہ عالمی حمایت حاصل کی ہے۔ اٹلی کے احتجاج ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ یورپ کے دل میں انصاف کی چنگاری ابھی زندہ ہے۔

اٹلی کی حکومت نے وقتی طور پر اسرائیل اور امریکا کو خوش کر لیا ہے مگر اپنی عوام کو ناراض کیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اسے بھی جھکنا پڑے گا کیونکہ تاریخ کا پہیہ ہمیشہ مظلوموں کی جدوجہد کے ساتھ گھومتا ہے۔

فلسطین کو تسلیم کرنا کوئی احسان نہیں بلکہ ایک دیرینہ ناانصافی کی تصحیح ہے۔ چاہے اٹلی جتنی بھی دیر کرے عوامی احتجاج اور عالمی یکجہتی یہ یقینی بنائے گی کہ فلسطین کی ریاستی حیثیت کو دنیا بھول نہ پائے۔

آج دنیا ایک نئے دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف وہ طاقتیں ہیں جو انسانی حقوق، انصاف اور مساوات کی بات کرتی ہیں لیکن جب مظلوم فلسطینی عوام کی آواز سننے کا وقت آتا ہے تو وہ یا تو خاموش رہتی ہیں یا شرائط اور مفادات کی سیاست میں الجھ جاتی ہیں۔

دوسری طرف وہ عوام ہیں جو بغیر کسی سیاسی مفاد کے صرف انسانیت کے نام پر ظلم کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ اٹلی کے عوام کا احتجاج اسی دوسری صف کی نمایندگی کرتا ہے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ ریاستی پالیسیاں خواہ کچھ بھی ہوں عوام کا ضمیر اگر جاگ جائے تو وہ دیواروں کو بھی ہلا سکتا ہے۔

یہ مظاہرے دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں بلکہ یہ عالمی اخلاق اور انسانیت کا امتحان ہے، اگر آج دنیا فلسطینی عوام کی نسل کشی اور ان کے حقِ خود ارادیت کی پامالی پر خاموش رہی تو کل یہ خاموشی کسی اور مظلوم قوم کی بربادی کا سبب بنے گی۔ یہ صرف جغرافیائی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ وہی بنیادی سوال ہے جو ہر دور میں ظالم اور مظلوم کے بیچ اٹھتا آیا ہے، کیا دنیا طاقت کے ساتھ کھڑی ہوگی یا سچائی کے ساتھ؟

اٹلی کی حکومت وقتی طور پر اسرائیل اور اس کے حامیوں کو خوش کر رہی ہے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسی خوشنودی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ جو ریاستیں عوامی رائے کو نظراندازکرتی ہیں وہ ایک دن خود عوامی ردعمل کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔

اٹلی کے شہریوں نے جو مثال قائم کی ہے وہ باقی یورپ اور دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔وقت آ چکا ہے کہ باقی دنیا بھی اسی راہ پر چلے۔ فلسطین کو تسلیم کرنا صرف ایک ریاستی فیصلہ نہیں بلکہ یہ انصاف امن اور انسانی وقارکے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو جتنا دبایا جائے اتنی ہی قوت سے ابھرتا ہے اور یہی سچ ایک دن فلسطین کو آزادی دلوائے گا۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطین کو تسلیم کر نہیں بلکہ ایک فلسطینی عوام کہ فلسطین فلسطین کے اٹلی کے اٹلی کی رہے ہیں کیا ہے طرف وہ ہیں کہ

پڑھیں:

پاکستان سعودیہ صرف دفاعی تعاون نہیں بلکہ اسلامی عسکری اتحاد کی جانب نمایاں قدم ہے، ایاز میمن

ایک بیان میں صدر آل کراچی تاجر الائنس نے کہا کہ امت مسلمہ کے پاس اپنے وجود اور اپنے حقوق کے دفاع کے تمام وسائل موجود ہیں اور فلسطین کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقے خود کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کریں، ہم خیالی پیدا کریں۔ اسلام ٹائمز۔ آل کراچی تاجر الائنس کے چیئرمین و بانی عام آدمی پاکستان ایاز میمن موتی والا نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ بہت اہم ہے، اگر کوئی ملک واقعی اسلامی دنیا کے دفاع کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے تو بلا شبہ پاکستان۔ مسئلہ فلسطین پر تمام 57 مسلم ممالک کو مشترکہ ردعمل دینا چاہیئے، وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا میں فلسطینی عوام کے حق میں اجتماعی موقف اختیار کیا جائے، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کی طویل المدتی دوستی اور تعاون کا مظہر ہے بلکہ یہ معاہدہ موجودہ عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں ایک غیر معمولی سفارتی پیش رفت بھی ہے، جس نے دشمن قوتوں کوہلاکر رکھ دیاہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈیفنس آفس سے جاری کردہ بیان میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو پاکستان کی عسکری طاقت کا شراکت دار بنا کر اسلامی دنیا میں ایک نیا توازن پیدا کیا گیا ہے، میں سمجھتاہوں کہ دوطرفہ دفاعی تعاون نہیں بلکہ اسلامی عسکری اتحاد کی جانب ایک نمایاں قدم بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ کے پاس اپنے وجود اور اپنے حقوق کے دفاع کے تمام وسائل موجود ہیں اور فلسطین کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقے خود کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کریں، ہم خیالی پیدا کریں۔

متعلقہ مضامین

  • دو ریاستی حل نا انصافی اور ظلم پر مبنی ہے
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ
  • بھارت سب سے بڑی جمہوریت نہیں بلکہ جھوٹ کی فیکٹری ہے; پاکستانی قونصلر
  • گریٹر اسرائیل منصوبے سے عرب ممالک کا وجود خطرے میں پڑگیا ،تنظیم اسلامی 
  •  فلسطین سے یکجہتی، بھارتی جارحیت کا جواب ، شہباز شریف کا یو این خطاب
  • مریم نواز: کلثوم نواز کا حوصلہ، نواز شریف کی تربیت
  • فلسطینی عوام جنگجو نہیں جمہوری ریاست چاہتے ہیں، صدر محمود عباس
  • کشمیری عوام کے مسائل پر سنجیدہ مذاکرات کیے، غیر آئینی مطالبات تسلیم نہیں کیے جا سکتے، امیر مقام
  • پاکستان سعودیہ صرف دفاعی تعاون نہیں بلکہ اسلامی عسکری اتحاد کی جانب نمایاں قدم ہے، ایاز میمن