Express News:
2025-11-12@11:04:24 GMT

اٹلی کی ضد اور فلسطین

اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT

یورپ کے کئی ممالک نے حالیہ دنوں میں فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ محض سفارتی کارروائی نہیں بلکہ ایک بڑے انسانی ضمیرکی آواز ہے جو برسوں سے دبائی جا رہی تھی۔

فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال، بیلجیم، لکسمبرگ اور مالٹا جیسے ممالک نے یہ تسلیم کر کے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی زمین اور اپنی ریاست کے جائز حق دار ہیں لیکن انھی دنوں اٹلی نے اس کے برعکس موقف اختیارکیا اور فلسطین کو تسلیم کرنے سے انکارکردیا۔ اس انکار نے پورے اٹلی کو ہلا کر رکھ دیا۔

گلیاں چوراہے اور بڑے بڑے شہر احتجاج کی آواز سے گونج اُٹھے۔ طلبہ، مزدور، خواتین اور عام شہری ایک ہی بات دہرا رہے ہیں کہ فلسطین کو تسلیم کیا جائے۔

یہ یورپ میں ایک نئی لہر ہے۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے واضح کیا کہ فلسطین کو تسلیم کیے بغیر امن ممکن نہیں۔ برطانیہ اورکینیڈا جیسے ممالک جو ہمیشہ اسرائیل کے اتحادی رہے ہیں، اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کر کے ایک نئے رخ پرکھڑے ہوگئے ہیں۔

یورپی ممالک میں اب رائے عامہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اور فلسطین کے ساتھ جا کھڑی ہوئی ہے۔ غزہ کی بربادی معصوم بچوں کی لاشیں برباد بستیاں اور ملبے میں دبے خواب یہ سب مناظر دنیا کو مجبورکر رہے ہیں کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہوں۔

اٹلی کی حکومت مگر اس وقت ہچکچاہٹ میں گرفتار ہے، وزیر اعظم جارجیا میلونی نے یہ اعلان کیا کہ اٹلی فلسطین کو صرف اس وقت تسلیم کرے گا جب اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا جائے اور حماس کو مستقبل کی فلسطینی حکومت سے باہر رکھا جائے۔

یہ شرطیں دراصل فلسطین کے حق کو مزید کمزورکرنے کی کوشش ہیں۔ یہ کوئی احسان نہیں بلکہ ایک نئی دیوار ہے جو فلسطینی عوام کے سامنے کھڑی کی جا رہی ہے۔ یہ موقف دراصل امریکا اور اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے ہے۔

اٹلی نے ماضی میں بھی فلسطین کے حق میں آنے والی قراردادوں سے یا توکنارہ کشی اختیار کی یا ان کی مخالفت کی۔مگر سڑکوں پر عوام کا ردعمل حکومت سے بالکل مختلف ہے۔ پچھلے ہفتے اٹلی میں ایک دن کی عام ہڑتال کی گئی جس کا نعرہ تھا ’’ سب کچھ بند کرو‘‘ اسکول بند، فیکٹریاں بند، ٹرانسپورٹ معطل اور مزدوروں نے بڑی بندرگاہوں پر جہازوں کو لنگر انداز ہونے سے روک دیا۔

یہ احتجاج محض جذباتی نہیں بلکہ سیاسی اعلان تھا کہ فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونا، اب ایک اخلاقی ذمے داری ہے۔ مزدور، طلبہ، خواتین سب ایک ہی پیغام دے رہے تھے کہ یہ مسئلہ صرف مشرق وسطیٰ کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے۔

یورپ اس وقت ایک بار پھر تقسیم کے دہانے پر ہے۔ ایک طرف وہ ممالک ہیں جنھوں نے فلسطین کو تسلیم کر لیا۔ دوسری طرف وہ حکومتیں ہیں جو امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں کا بوجھ اٹھائے کھڑی ہیں۔ اٹلی اس دوسری صف میں ہے، مگر اس کے عوام اپنی حکومت کو مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب عوامی رائے مسلسل اور مضبوط ہو جائے تو کوئی حکومت زیادہ دیر تک اپنی ضد برقرار نہیں رکھ سکتی۔ آج اٹلی کے نوجوان اور مزدور جب فلسطین کا جھنڈا اٹھاتے ہیں تو وہ صرف ایک ریاست کے قیام کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ ان کی یہ آواز اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا چاہتے ہیں جہاں سب کے لیے انصاف ہو۔

یہ مسئلہ صرف سفارتی تسلیم کا نہیں بلکہ ایک بڑے اخلاقی سوال کا ہے۔ دنیا مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوگی یا طاقتور کے ظلم کے سامنے جھک جائے گی؟ بایاں بازو ہمیشہ اس سوال کا جواب یکجہتی میں دیتا رہا ہے۔ ویتنام جنوبی افریقہ اور اب فلسطین مظلوموں کی جدوجہد نے ہمیشہ عالمی حمایت حاصل کی ہے۔ اٹلی کے احتجاج ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ یورپ کے دل میں انصاف کی چنگاری ابھی زندہ ہے۔

اٹلی کی حکومت نے وقتی طور پر اسرائیل اور امریکا کو خوش کر لیا ہے مگر اپنی عوام کو ناراض کیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اسے بھی جھکنا پڑے گا کیونکہ تاریخ کا پہیہ ہمیشہ مظلوموں کی جدوجہد کے ساتھ گھومتا ہے۔

فلسطین کو تسلیم کرنا کوئی احسان نہیں بلکہ ایک دیرینہ ناانصافی کی تصحیح ہے۔ چاہے اٹلی جتنی بھی دیر کرے عوامی احتجاج اور عالمی یکجہتی یہ یقینی بنائے گی کہ فلسطین کی ریاستی حیثیت کو دنیا بھول نہ پائے۔

آج دنیا ایک نئے دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف وہ طاقتیں ہیں جو انسانی حقوق، انصاف اور مساوات کی بات کرتی ہیں لیکن جب مظلوم فلسطینی عوام کی آواز سننے کا وقت آتا ہے تو وہ یا تو خاموش رہتی ہیں یا شرائط اور مفادات کی سیاست میں الجھ جاتی ہیں۔

دوسری طرف وہ عوام ہیں جو بغیر کسی سیاسی مفاد کے صرف انسانیت کے نام پر ظلم کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ اٹلی کے عوام کا احتجاج اسی دوسری صف کی نمایندگی کرتا ہے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ ریاستی پالیسیاں خواہ کچھ بھی ہوں عوام کا ضمیر اگر جاگ جائے تو وہ دیواروں کو بھی ہلا سکتا ہے۔

یہ مظاہرے دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں بلکہ یہ عالمی اخلاق اور انسانیت کا امتحان ہے، اگر آج دنیا فلسطینی عوام کی نسل کشی اور ان کے حقِ خود ارادیت کی پامالی پر خاموش رہی تو کل یہ خاموشی کسی اور مظلوم قوم کی بربادی کا سبب بنے گی۔ یہ صرف جغرافیائی یا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ وہی بنیادی سوال ہے جو ہر دور میں ظالم اور مظلوم کے بیچ اٹھتا آیا ہے، کیا دنیا طاقت کے ساتھ کھڑی ہوگی یا سچائی کے ساتھ؟

اٹلی کی حکومت وقتی طور پر اسرائیل اور اس کے حامیوں کو خوش کر رہی ہے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایسی خوشنودی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ جو ریاستیں عوامی رائے کو نظراندازکرتی ہیں وہ ایک دن خود عوامی ردعمل کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔

اٹلی کے شہریوں نے جو مثال قائم کی ہے وہ باقی یورپ اور دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔وقت آ چکا ہے کہ باقی دنیا بھی اسی راہ پر چلے۔ فلسطین کو تسلیم کرنا صرف ایک ریاستی فیصلہ نہیں بلکہ یہ انصاف امن اور انسانی وقارکے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو جتنا دبایا جائے اتنی ہی قوت سے ابھرتا ہے اور یہی سچ ایک دن فلسطین کو آزادی دلوائے گا۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فلسطین کو تسلیم کر نہیں بلکہ ایک فلسطینی عوام کہ فلسطین فلسطین کے اٹلی کے اٹلی کی رہے ہیں کیا ہے طرف وہ ہیں کہ

پڑھیں:

ہم 27ویں ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، کسی بھی شخص کو عدالتی استثنیٰ غیر شرعی ہے، حافظ نعیم

امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قائم ہوئے 78 سال گزر چکے لیکن ریاستی نظام وہ سمت اختیار نہیں کر سکا جس کا خواب قائداعظم اور بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔ قیام پاکستان کوئی عام سیاسی جدوجہد نہیں بلکہ عظیم قربانیوں اور تمناؤں کا نتیجہ تھا، تحریک پاکستان صرف مسلم اکثریتی علاقوں تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ لوگ بھی اس جدوجہد کا حصہ بنے جو جانتے تھے کہ انہیں اپنے گھر بار اور زمینیں چھوڑنی پڑیں گی۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان کا قیام اللہ کی حاکمیت کے اصول پر ہوا، نظام کو اصل رخ پر لانا ہوگا، ہم 27ویں ترمیم کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، کسی بھی شخص کو عدالتی استثنیٰ غیر شرعی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ہمارا باہمی تبادلہ خیال ملک و قوم کیلئے مفید اور بامقصد ثابت ہو گا، پاکستان کو قائم ہوئے 78 سال گزر چکے لیکن ریاستی نظام وہ سمت اختیار نہیں کر سکا جس کا خواب قائداعظم اور بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔ قیام پاکستان کوئی عام سیاسی جدوجہد نہیں بلکہ عظیم قربانیوں اور تمناؤں کا نتیجہ تھا، تحریک پاکستان صرف مسلم اکثریتی علاقوں تک محدود نہیں تھی بلکہ وہ لوگ بھی اس جدوجہد کا حصہ بنے جو جانتے تھے کہ انہیں اپنے گھر بار اور زمینیں چھوڑنی پڑیں گی۔

انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے دین کی خاطر گھروں، زمینوں اور حتیٰ کہ اپنے آبا و اجداد کی قبریں تک چھوڑ دیں۔ مسلمانوں نے ایک ایسے ملک کے قیام کیلئے قربانیاں دیں جہاں اسلام کا عادلانہ نظام نافذ ہو، قائداعظم کی قیادت میں مسلمانانِ ہند نے اللہ کی حاکمیت کے اصول کو بنیاد بنا کرپاکستان کا خواب دیکھا تھا۔پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ محض ایک نعرہ نہیں بلکہ نظامِ زندگی کے مکمل تصور کا اعلان ہے، اللہ کے سوا کوئی طاقت، حکومت یا قوم حاکمیت کا حق نہیں رکھتی اور پاکستان اسی نظریہ پر وجود میں آیا کہ یہاں اسلامی عدل اور اجتماعی انصاف کا نظام قائم ہو، اب ضروری ہے کہ نظام کو اس کے اصل نظریاتی اور آئینی رخ کی طرف واپس لایا جائے۔ 

متعلقہ مضامین

  • افغانستان کے متعلق، جنید اکبر نے بڑا انکشاف کر دیا
  • امریکی شہری نے 30 سیکنڈ میں 65 کھیرے توڑ کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا
  • مقامی حکومتوں کی تشکیل اٹھارویں ترمیم کی منسوخی نہیں بلکہ آئینی ضمانت ہے، فیصل سبزواری
  • ہم 27ویں ترمیم کو مسترد کرتے ہیں، کسی بھی شخص کو عدالتی استثنیٰ غیر شرعی ہے، حافظ نعیم
  • مغرب کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اب ایران کی سائنسی ترقی کو تسلیم کرلیں: ایرانی وزیر خارجہ
  • افغانستان، دہشت گردوں سے فاصلہ اختیارکرے
  • جے ایس او محض ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک تحریک اور مشن کے طور پر کام کرے، علامہ ساجد نقوی
  • خطے پر تسلط کیلئے صیہونیوں کا صدی پرانا خاکہ
  • بڑھاپے کی قدرتی علامتیں
  • اٹلی: جرمن کوہ پیمائوں کی لاشیں نکال لی گئیں