پاک سعودی دفاعی معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
اس صدی کا اہم واقعہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس معاہدے کے تحت ایک ملک کے خلاف جارحیت دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور ہوگی اور کسی بھی ملک پر بیرونی مسلح حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور ہوگا جب کہ جارحیت کی صورت میں دونوں ممالک دشمن کو مشترکہ طور پر بھر پور جواب دیں گے۔
یہ اس قدر بڑا اور اہم واقعہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس خبرکو بریکنگ نیوزکے طور پر لیا ہے۔ بظاہر اس کی چند ایک وجوہات ہیں، مثلاً اسرائیل اس وقت جس طرح طاقت کے نشے میں غزہ کو کچلتا ہوا، اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا کھلے عام اظہارکرتے ہوئے نہ صرف آگے بڑھ رہا ہے بلکہ اس سلسلے میں کسی کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے، یہاں تک کہ قطرکو بھی نہیں بخشا۔ پورے عرب میں کوئی بھی اتنی قوت نہیں رکھتا کہ اس کی طاقت کو چیلنج کر سکے۔
اس تناظر میں پاکستان اور سعودی عر ب کے درمیان ہونے والا معاہدہ دراصل اسرائیل کی راہ میں نہ صرف ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ہے بلکہ قطر وغیرہ جیسے ممالک نے بھی پاکستان کے ساتھ اگر اسی قسم کے دفاعی معاہدے کر لیے تو اسرائیل کے لیے آیندہ مزید مشکلات پیش آسکتی ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ غیر متوقع اور غیر منطقی نہیں ہوگا۔
کیونکہ اسرائیل نے قطرکی حدود میں حملہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ برے وقت میں کسی بھی عرب ملک کو اسرائیل کے حملوں سے کوئی طاقت بھی محفوظ نہیں رکھ سکتی اور امریکا بھی ان ممالک کا ساتھ نہیں دے گا۔
قطر پر اسرائیلی حملے نے تمام عرب ممالک کو بہت واضح انداز میں یہ سمجھا دیا تھا کہ اب تمھیں کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ ایسی صورتحال میں ایک یہی راستہ بچتا تھا کہ یہ عرب ممالک کسی با اعتماد اور طاقتور ملک سے دفاعی معاہدہ کر لیں اور زمینیں حقائق یہی ہیں کہ ایسا ملک اگر دنیا میں کوئی ہے تو وہ پاکستان ہے۔
صرف مسلم دنیا نے ہی نہیں، تمام عالمی طاقتوں نے بھی اس معاہدے کو نہایت سنجیدگی سے لیا ہے کیونکہ سب کو علم ہے کہ سعودی عرب سے پاکستان کا سیا سی رشتے سے بھی بڑھ کر ایک اور مضبوط رشتہ ہے اور وہ ہے ’’ اسلام۔‘‘ اور یہ حقیقت تاریخ بھی بیان کرتی ہے یعنی اگر ہم تقسیم ہند سے قبل کی مسلمانوں کی تحاریک کا جائزہ لیں تو ان سب کا مرکزی تصور ایک ’’ امت‘‘ کا تھا یعنی تمام تحاریک میں امت مسلمہ کے لیے جدوجہد یا جہاد کیا گیا۔
ایسی تاریخ دنیا کے کسی کو نے میں نہیں ملتی حتیٰ کہ یہاں علی برادران جیسے رہنما ایک جانب آزادی کے لیے تحریک چلاتے تو دوسری جانب ترکیہ کی خلافت کے لیے بھی میدان عمل میں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ زمینیں حقائق ہیں کہ جس کے تناظر میں نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکا سمیت بہت سی طاقتیں اس معاہدے پر سخت فکر مند ہیں۔
یوں دیکھا جائے تو اب دفاعی لحاظ سے سعودی عرب پاکستان ہے یعنی سعودی عرب ایک عالمی ایٹمی قوت کا حامل ملک بن چکا ہے۔
ایسے میں اگر دیگر عرب ریاستیں بھی پاکستان کے ساتھ اس قسم کے معاہدات کر لیتی ہیں (جن کی باز گشت سنائی بھی دے رہی ہے) تو پھر مشرق وسطیٰ کی پوری سیاسی صورتحال پر بھی اس کا اثر پڑے گا کیونکہ پھر عرب ریاستیں اپنی کمزوری کو نہیں بلکہ طاقت کو مدنظر رکھ کر اپنے سیاسی فیصلے کریں گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب صرف اسرائیل کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ امریکا کی سیاسی پالیسی کو بھی مزاحمت کا سامنا ہوگا جس کے تحت وہ اب تک اپنے مفادات کے فیصلے با آسانی کرتے آیا ہے۔
اگر عرب کی کچھ اور ریاستیں بھی پاکستان کے ساتھ اس قسم کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال پر بھی لازمی اثر پڑے گا اور ایک نیا منظر نامہ ابھرے گا۔
اس معاہدے کے بعد اگر مزید کسی عرب ریاست سے معاہدہ نہیں ہوتا تو پھر سیاسی منظر نامے میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کی توقع کرنا درست نہیں ہوگا بلکہ اسرائیل کو ایک خاموش پیغام تک والی صورتحال جوں کی توں رہی گی، البتہ اسرائیل کی جانب سے اگرگریٹر اسرائیل کی موجودہ پالیسی اسی طرح تیزی سے آگے بڑھی تو پھر ایک بڑی ہلچل ضرور ہوگی، کیونکہ سعودی عرب اور پاکستان دو ملک ہی نہیں، ان کے عوام ایک امت کا نظریہ بھی رکھتے ہیں۔
پاکستانی عوام تو ایک ’’ امت‘‘ کا نظریہ ہمیشہ سے ہی تھامے ہوئے ہیں اور دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر کڑا وقت آئے تو پاکستانی سب سے آگے آگے کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہاں کی وہ مٹی ہے جس سے پیدا ہونے والے رہنما خلافت عثمانیہ کے تحفظ کی بھی تحریک چلاتے ہیں۔
یہی وہ مٹی ہے جس سے شاعر بھی علامہ اقبال جیسے پیدا ہوتے ہیں جن کا پیغام ہی ’’امت‘‘ کا ہوتا ہے۔ اقبال نے یہاں کے عوام کو ہر سطح پر نہ صرف رہنمائی فراہم کی بلکہ حالات حاضرہ کے مطابق شعور دیا۔ اقبال کا کہنا تھا کہ
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں
یعنی اقبال نے اپنی قوم کو مغربی نظریہ قوم پرستی میں دفن ہونے سے روکا اور یہ شعور دیا کہ۔
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
یوں دیکھا جائے تو پاک سعودی دفاعی معاہدہ اقبال کے مذکورہ بالا اشعارکی تفسیر نظر آتی ہے۔ اس معاہدے کی سب سے حیرت انگیز اور خوش کن بات جو نظر آتی وہ یہ ہے کہ ایک جانب یہ معاہدہ نہایت خاموشی و راز داری سے طے پاگیا جس میں امریکا سمیت کسی بڑی طاقت کے کسی بھی قسم کے ردعمل کو نظر انداز کردیا گیا۔
دوسری جانب یہ کہ اس میں پاکستانی حکومت اور فوج کی مکمل ہم آہنگی نظر آئی۔ گویا اس معاملے پر فریقین کی تمام اکائیاں ایک ہی پیج پر نظر آئیں اور یہی وہ سب سے اہم بات ہے کہ جس کا مطالبہ ہمارے رہنماؤں اور دانشوروں کو کرنا چاہیے تھا، وہی فیصلہ ہماری فوج اور حکومت نے بروقت کر لیا۔
یہ وہ فیصلہ ہے کہ جس نے عرب ممالک کو بھی تقویت بخشی ہے، ہمارے روحانی مراکزکو مزید سیکیورٹی دی ہے بلکہ ہمارے وطن پاکستان کو بھی مضبوط ترکیا ہے، اب ہم بھی اکیلے نہیں۔ گویا اس میں صرف عرب کا نہیں، ہم سب کا بھلا ہے۔ اس وقت پوری امت مسلمہ کی سوچ یہی ہے کہ اس معاہدے سے اسرائیل کے عزائم کو سخت نقصان پہنچا ہے اور قوی امید ہے کہ امت مسلمہ اس سے مضبوط ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دفاعی معاہدہ اسرائیل کے اس معاہدے کو بھی تو پھر کے لیے
پڑھیں:
سعودی عرب نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کو اعزاز سے نواز دیا
سعودی عرب نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کو فوجی تعلقات مضبوط بنانے اور نمایاں خدمات کے اعتراف میں کنگ عبدالعزیز میڈل آف آنر (ایکسِلینٹ کلاس) اعزاز سے نوازا گیا۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، جنرل ساحر شمشاد مرزا نے ریاض میں سعودی عرب کی مسلح افواج کے سربراہ سے ملاقات کی جس میں دفاعی شراکت داری کو مزید بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا، جہاں اُن کی سعودی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل فیاض بن حمید الرویلی سے ملاقات ہوئی۔
فریقین نے برادرانہ تعلقات اور پائیدار دفاعی شراکت داری کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
ملاقات کے دوران دونوں ممالک کی عسکری قیادت نے عالمی و علاقائی صورتحال اور دفاعی تعاون کو مزید فروغ دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔
دونوں فریقین نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط برادرانہ تعلقات اور پائیدار دفاعی شراکت داری کو مزید گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
اعلامیے کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان فوجی تعلقات کو مضبوط بنانے اور نمایاں خدمات کے اعتراف میں جنرل ساحر شمشاد مرزا کو کنگ عبدالعزیز میڈل آف آنر (ایکسِلینٹ کلاس) سے نوازا گیا۔