Express News:
2025-09-27@22:59:15 GMT

پاک سعودی دفاعی معاہدہ

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

اس صدی کا اہم واقعہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹرٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس معاہدے کے تحت ایک ملک کے خلاف جارحیت دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور ہوگی اور کسی بھی ملک پر بیرونی مسلح حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور ہوگا جب کہ جارحیت کی صورت میں دونوں ممالک دشمن کو مشترکہ طور پر بھر پور جواب دیں گے۔

 یہ اس قدر بڑا اور اہم واقعہ ہے کہ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس خبرکو بریکنگ نیوزکے طور پر لیا ہے۔ بظاہر اس کی چند ایک وجوہات ہیں، مثلاً اسرائیل اس وقت جس طرح طاقت کے نشے میں غزہ کو کچلتا ہوا، اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا کھلے عام اظہارکرتے ہوئے نہ صرف آگے بڑھ رہا ہے بلکہ اس سلسلے میں کسی کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے، یہاں تک کہ قطرکو بھی نہیں بخشا۔ پورے عرب میں کوئی بھی اتنی قوت نہیں رکھتا کہ اس کی طاقت کو چیلنج کر سکے۔

اس تناظر میں پاکستان اور سعودی عر ب کے درمیان ہونے والا معاہدہ دراصل اسرائیل کی راہ میں نہ صرف ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ہے بلکہ قطر وغیرہ جیسے ممالک نے بھی پاکستان کے ساتھ اگر اسی قسم کے دفاعی معاہدے کر لیے تو اسرائیل کے لیے آیندہ مزید مشکلات پیش آسکتی ہیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ غیر متوقع اور غیر منطقی نہیں ہوگا۔ 

کیونکہ اسرائیل نے قطرکی حدود میں حملہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ برے وقت میں کسی بھی عرب ملک کو اسرائیل کے حملوں سے کوئی طاقت بھی محفوظ نہیں رکھ سکتی اور امریکا بھی ان ممالک کا ساتھ نہیں دے گا۔

قطر پر اسرائیلی حملے نے تمام عرب ممالک کو بہت واضح انداز میں یہ سمجھا دیا تھا کہ اب تمھیں کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ ایسی صورتحال میں ایک یہی راستہ بچتا تھا کہ یہ عرب ممالک کسی با اعتماد اور طاقتور ملک سے دفاعی معاہدہ کر لیں اور زمینیں حقائق یہی ہیں کہ ایسا ملک اگر دنیا میں کوئی ہے تو وہ پاکستان ہے۔

صرف مسلم دنیا نے ہی نہیں، تمام عالمی طاقتوں نے بھی اس معاہدے کو نہایت سنجیدگی سے لیا ہے کیونکہ سب کو علم ہے کہ سعودی عرب سے پاکستان کا سیا سی رشتے سے بھی بڑھ کر ایک اور مضبوط رشتہ ہے اور وہ ہے ’’ اسلام۔‘‘ اور یہ حقیقت تاریخ بھی بیان کرتی ہے یعنی اگر ہم تقسیم ہند سے قبل کی مسلمانوں کی تحاریک کا جائزہ لیں تو ان سب کا مرکزی تصور ایک ’’ امت‘‘ کا تھا یعنی تمام تحاریک میں امت مسلمہ کے لیے جدوجہد یا جہاد کیا گیا۔

ایسی تاریخ دنیا کے کسی کو نے میں نہیں ملتی حتیٰ کہ یہاں علی برادران جیسے رہنما ایک جانب آزادی کے لیے تحریک چلاتے تو دوسری جانب ترکیہ کی خلافت کے لیے بھی میدان عمل میں نظر آتے ہیں۔ یہ وہ زمینیں حقائق ہیں کہ جس کے تناظر میں نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکا سمیت بہت سی طاقتیں اس معاہدے پر سخت فکر مند ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو اب دفاعی لحاظ سے سعودی عرب پاکستان ہے یعنی سعودی عرب ایک عالمی ایٹمی قوت کا حامل ملک بن چکا ہے۔

ایسے میں اگر دیگر عرب ریاستیں بھی پاکستان کے ساتھ اس قسم کے معاہدات کر لیتی ہیں (جن کی باز گشت سنائی بھی دے رہی ہے) تو پھر مشرق وسطیٰ کی پوری سیاسی صورتحال پر بھی اس کا اثر پڑے گا کیونکہ پھر عرب ریاستیں اپنی کمزوری کو نہیں بلکہ طاقت کو مدنظر رکھ کر اپنے سیاسی فیصلے کریں گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب صرف اسرائیل کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ امریکا کی سیاسی پالیسی کو بھی مزاحمت کا سامنا ہوگا جس کے تحت وہ اب تک اپنے مفادات کے فیصلے با آسانی کرتے آیا ہے۔ 

اگر عرب کی کچھ اور ریاستیں بھی پاکستان کے ساتھ اس قسم کا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال پر بھی لازمی اثر پڑے گا اور ایک نیا منظر نامہ ابھرے گا۔

اس معاہدے کے بعد اگر مزید کسی عرب ریاست سے معاہدہ نہیں ہوتا تو پھر سیاسی منظر نامے میں کسی بڑی سیاسی تبدیلی کی توقع کرنا درست نہیں ہوگا بلکہ اسرائیل کو ایک خاموش پیغام تک والی صورتحال جوں کی توں رہی گی، البتہ اسرائیل کی جانب سے اگرگریٹر اسرائیل کی موجودہ پالیسی اسی طرح تیزی سے آگے بڑھی تو پھر ایک بڑی ہلچل ضرور ہوگی، کیونکہ سعودی عرب اور پاکستان دو ملک ہی نہیں، ان کے عوام ایک امت کا نظریہ بھی رکھتے ہیں۔

پاکستانی عوام تو ایک ’’ امت‘‘ کا نظریہ ہمیشہ سے ہی تھامے ہوئے ہیں اور دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر کڑا وقت آئے تو پاکستانی سب سے آگے آگے کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہاں کی وہ مٹی ہے جس سے پیدا ہونے والے رہنما خلافت عثمانیہ کے تحفظ کی بھی تحریک چلاتے ہیں۔ 

یہی وہ مٹی ہے جس سے شاعر بھی علامہ اقبال جیسے پیدا ہوتے ہیں جن کا پیغام ہی ’’امت‘‘ کا ہوتا ہے۔ اقبال نے یہاں کے عوام کو ہر سطح پر نہ صرف رہنمائی فراہم کی بلکہ حالات حاضرہ کے مطابق شعور دیا۔ اقبال کا کہنا تھا کہ

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں

یعنی اقبال نے اپنی قوم کو مغربی نظریہ قوم پرستی میں دفن ہونے سے روکا اور یہ شعور دیا کہ۔

یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا

نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی

 یوں دیکھا جائے تو پاک سعودی دفاعی معاہدہ اقبال کے مذکورہ بالا اشعارکی تفسیر نظر آتی ہے۔ اس معاہدے کی سب سے حیرت انگیز اور خوش کن بات جو نظر آتی وہ یہ ہے کہ ایک جانب یہ معاہدہ نہایت خاموشی و راز داری سے طے پاگیا جس میں امریکا سمیت کسی بڑی طاقت کے کسی بھی قسم کے ردعمل کو نظر انداز کردیا گیا۔ 

دوسری جانب یہ کہ اس میں پاکستانی حکومت اور فوج کی مکمل ہم آہنگی نظر آئی۔ گویا اس معاملے پر فریقین کی تمام اکائیاں ایک ہی پیج پر نظر آئیں اور یہی وہ سب سے اہم بات ہے کہ جس کا مطالبہ ہمارے رہنماؤں اور دانشوروں کو کرنا چاہیے تھا، وہی فیصلہ ہماری فوج اور حکومت نے بروقت کر لیا۔

یہ وہ فیصلہ ہے کہ جس نے عرب ممالک کو بھی تقویت بخشی ہے، ہمارے روحانی مراکزکو مزید سیکیورٹی دی ہے بلکہ ہمارے وطن پاکستان کو بھی مضبوط ترکیا ہے، اب ہم بھی اکیلے نہیں۔ گویا اس میں صرف عرب کا نہیں، ہم سب کا بھلا ہے۔ اس وقت پوری امت مسلمہ کی سوچ یہی ہے کہ اس معاہدے سے اسرائیل کے عزائم کو سخت نقصان پہنچا ہے اور قوی امید ہے کہ امت مسلمہ اس سے مضبوط ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دفاعی معاہدہ اسرائیل کے اس معاہدے کو بھی تو پھر کے لیے

پڑھیں:

عملی اتحاد کا پہلا قدم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250927-03-4

 

غزالہ عزیز

پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کا ایک اہم معاہدہ ہے اور انوکھا بھی۔ اس معاہدے کے تحت ایک ملک کے خلاف بیرونی جارحیت کو دونوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ دوحا میں اسرائیل کی جانب سے ہونے والے حملے کے بعد کیا گیا۔ اس معاہدے کے بعد سعودی وزیر دفاع نے اپنے ایکس پروگرام میں پیغام دیا ’’سعودیہ اور پاکستان… جارح کے مقابل ایک ہی صف میں ہمیشہ اور ابد تک‘‘۔ یہ جامع اور مختصر اظہار ہے۔ دوحا پر حملہ سارے مشرق وسطیٰ کے لیے قابل تشویش تھا۔ اسرائیل اس سے پہلے فلسطین، قطر، ایران، لبنان، شام اور یمن پر حملے کرچکا ہے۔ ہر حملے کے بعد اس نے اس طرح کے مزید حملوں کی دھمکی بھی دی۔ ڈھٹائی کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے اسرائیل کا حق دفاع قرار دیا۔ دوحا پر حملے کے بعد مشرق وسطیٰ کے حکمران اپنی سلامتی کے لیے کسی دوسرے کی طرف دیکھنے کے لیے مجبور ہوئے ایسے میں پاکستان انہیں قابل اعتماد اور مضبوط محسوس ہوا جس کا ثبوت مئی 2025ء کی پاک بھارت جنگ میں وہ دیکھ چکے تھے۔ چین کی پشت پناہی اور بھی زیادہ اطمینان بخش تھی۔ یہ معاہدہ ان حالات میں ایک اسٹرٹیجک شفٹ ہے جس سے سعودی عرب کی سیکورٹی تو مضبوط ہوگئی ہے ساتھ پاکستان بھی مضبوط ہوگا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون کی تشکیل 1960ء میں ہوئی جب شاہ فیصل سعودی عرب اور صدر ایوب خان پاکستان کی قیادت کررہے تھے، اس وقت سعودی فضائیہ کی تربیت میں مدد فراہم کی گئی۔ پھر 1967ء میں دفاعی تعاون کا معاہدہ ہوا جس میں پاکستانی افسران نے ٹرینر اور مشاورت کی خدمات انجام دیں، ہزاروں سعودی فوجی پاکستان میں تربیت پاتے رہے۔ 2017ء میں پاکستان کے سابق جنرل راحیل شریف نے اسلامی عسکری قیادت برائے انسداد دہشت گردی کی کمان سنبھالی۔ اب یہ معاہدہ بدلتے ہوئے علاقائی ماحول میں سعودی کے لیے قابل اعتماد دفاع کو یقینی بنانے میں کردار ادا کرے گا۔ اس معاہدے کے تحت 2030ء تک سعودی عرب اپنی خود انحصاری کے لیے پاکستان کی آزمودہ فوجی مہارت سے فائدہ اٹھائے گا۔ اس معاہدے نے ساری دنیا کو حیران کیا ہے اور حیرانی اس بات پر زیادہ ہے کہ کیا مشرق وسطیٰ کے تحفظ کے ضامن کے طور پر مغرب کا کردار سائیڈ لائن کردیا گیا ہے۔ دراصل عرب ممالک کی اس سوچ کو یہ زاویہ دینے میں خود اسرائیل اور امریکا ہی کا کردار ہے۔ کنگ فیصل ریسرچ سینٹر کے تجزیہ کار عمر کریم کہتے ہیں کہ ’’یہ واضح ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد پہلے سے طے سیکورٹی انتظامات جس کے تحت امریکا کچھ خلیجی ممالک کی سیکورٹی کا ضامن ہے وہ اب موثر طریقے سے کام نہیں کررہا۔ وہ سیکورٹی کے ضامن کے طور پر کام نہیں کرپایا اور کہا گیا کہ اسرائیلی حملے میں امریکا ملوث ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کو اپنے آپ کو اس حملے سے علٰیحدگی جتانے کے لیے بار بار بیان دینے پڑے جن پر یقینا یقین مشکل تھا۔ لہٰذا ایسے میں اسرائیلی حملوں سے بچائو کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے کا راستہ چنا۔ پاکستان کی جوہری صلاحیت اور دفاعی قابلیت کے باعث یہ معاہدہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اہمیت کو بڑھائے گا۔ اگرچہ دفاعی سہولتوں کی فراہمی کی تفصیل نہیں دی گئی، لیکن سعودی عرب کے لیے جوہری تحفظ کا ابہام بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار بھی ہیں اور ان کی ترسیل کا نظام بھی ہے۔ خاص طور سے ایسا نظام جو اسرائیل تک مار کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے علاقے میں اسرائیل کے جارحانہ حملوں کے باعث یہ بہت اہم ہے۔ قطر سے پہلے اسرائیل نے کئی ممالک کو نشانہ بنایا لیکن قطر پر حملہ اس لیے ان سب سے مختلف تھا کہ قطر امریکی اتحادی ہے اور قطر میں امریکی ائربیس موجود ہے جہاں دفاعی نظام ہے۔ اسرائیلی حملے کے بعد ظاہر ہے امریکا کی جانب سے دی گئی سیکورٹی کی ضمانتوں کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ لہٰذا یہ اسرائیل کے اس اقدام کے بعد بھی سمجھا جارہا ہے کہ دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی امریکا پر اعتماد کے لیے تذبذب کا شکار ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں کچھ اور ریاستیں پاکستان کی طرف متوجہ ہوں۔ مشرق وسطیٰ کی ریاستیں دفاعی نظام اور ہتھیار تو رکھتی ہیں لیکن وہ سب امریکا کے تیار کردہ ہیں اور انہیں آپریشنل رکھنے کے لیے امریکی سرپرستی ضروری ہے۔ یہ سارے نظام اسرائیل کے حملے کے وقت خاموش تھے، آگے بھی وہ کس وقت خاموش رہیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لہٰذا دنیا پاکستان اور سعودی عرب کے دفاع معاہدے کو کچھ اس نظر سے دیکھ رہی ہے کہ ریاض کے مالی وسائل کو پاکستان جیسی ایٹمی قوت رکھنے والی فوج سے جوڑ دیا گیا ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادی انڈیا کے لیے یہ اچھی خبر نہیں بلکہ پریشانی کی بات ہے کہ یہ اسلامی اتحاد کا پہلا مظاہرہ اور پہلا قدم ہے۔

غزالہ عزیز

متعلقہ مضامین

  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ کو لاحق خطرات
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ صرف مسلمانوں کی حفاظت ہی نہیں، عالمی امن کا مظہر بھی ہوگا، ڈاکٹر عبدالغفور راشد
  • عملی اتحاد کا پہلا قدم
  • پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ، پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان کا خصوصی انٹرویو
  • سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ قطر پر حملے کا ردعمل نہیں، وزیردفاع خواجہ آصف
  • پاکستان سعودیہ صرف دفاعی تعاون نہیں بلکہ اسلامی عسکری اتحاد کی جانب نمایاں قدم ہے، ایاز میمن
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ دونوں برادرا سلامی مالک کیلئے نعمت ہے، علامہ ریاض نجفی
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ مسلم ممالک کے سکیورٹی ڈھانچے کی ابتدا بن سکتا ہے، ڈاکٹر مسعود پزشکیان
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ مسلم ممالک کے سکیورٹی ڈھانچے کی ابتدا بن سکتا ہے، ڈاکٹر مسعود پزیشکیان