Express News:
2025-11-12@06:05:46 GMT

دو ریاستی حل نا انصافی اور ظلم پر مبنی ہے

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

1917ء میں برطانوی استعماری حکومت کے سیکریٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے فلسطین کی تقسیم کے لیے جو منصوبہ حکومت برطانیہ کو پیش کیا، اسے تاریخ میں اعلان بالفور یا پھر بالفور اعلامیہ کہا جاتا ہے۔

فلسطین کی تاریخ میں اس اعلامیے کو فلسطین کے ساتھ کی جانیوالی سب سے بڑی نا انصافی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی اعلامیے کی بنیاد پر 1947میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد نمبر 181میں بھی فلسطین کی تقسیم کی منظوری دی گئی۔

یہاں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ یہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کہ جو آج ایک مرتبہ پھر فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کو مستحکم کرنے پر تلی ہوئی ہے، ماضی میں فلسطین کی تقسیم اور ناانصافی کو انجام دے چکی ہے۔

یہاں قارئین کی معلومات کے لیے یہ بات بھی ذہن نشین رکھی جائے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد قانونی طور پر بائنڈنگ نہیں ہوتی، یعنی اس پر عمل کرنا لازم نہیں ہوتا لیکن فلسطین کی تقسیم کے معاملے پر جنرل اسمبلی کی قرار داد کو تمام تر امور سے زیادہ ترجیح دی گئی اور اس پر عمل درآمد کر کے 1948میں فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو قائم کردیا گیا۔

آج پھر یہی اقوام متحدہ کوئی آٹھ دہائیاں مکمل ہونے کے بعد فلسطین کے ساتھ انصاف کرنے کے بجائے اپنی پرانے گناہ کو از سر نو تجدید کر رہی ہے اور ہمیں دو ریاستی حل کی گونج اقوام متحدہ یعنی کفن چوروں کی انجمن سے سنائی دے رہی ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کی تاریخ ایک صدی سے زائد کا عرصہ رکھتی ہے اور اس عرصے میں 1948کے بعد سے مسلسل فلسطینی عوام پر اپنی ہی زمین تنگ کی جاتی رہی ہے اور صیہونی آباد کاری کے ذریعے اب تک 78فیصد سے زیادہ فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو قابض کیا گیا ہے۔

فلسطینی عوام اپنی زمین، حقِ واپسی اور قومی خود مختاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں اور مغربی حکومتوں کے ساتھ ساتھ ادارے سب کے سب فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل (Two-State Solution) تجویز کرتے آئے ہیں۔ ایسا ہی آج بھی کیا جا رہا ہے۔

بظاہر یہ تجویز انصاف اور امن کا راستہ دکھائی دیتی ہے، لیکن درحقیقت یہ فلسطینی کاز کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرتی ہے اور غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز وجود کو مزید مضبوط بناتی ہے۔

دو ریاستی حل کا بنیادی خاکہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی موجودہ ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ یعنی اس حل میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے ایک الگ ریاست قائم کی جائے جس کی سرحدیں 1967 کی جنگ سے پہلے کی حدود کے مطابق ہوں۔ حالانکہ یہ خود ایک غیر منصفانہ تجویز ہے کہ آپ کسی قوم اور ملت کو کہتے ہیں کہ اس کو اپنے ہی گھر میں اور وطن میں ایک محدود علاقے پر ریاست قائم کرنا ہوگی۔

اسی طرح دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ القدس کو تقسیم کر کے مغربی القدس اسرائیل کے پاس اور مشرقی القدس فلسطین کے پاس رہے۔ یہ ایک اور بڑی خیانت اور دھوکا ہے جو فلسطینی عوام کے ساتھ دو ریاستی حل کے نام پر کیا جا رہا ہے۔

اس سے بڑھ کر فلسطین کے اپنے باشندوں کو اپنے ہی وطن واپس آنے سے محروم کرنے کا ہدف بھی اسی دو ریاستی حل میں موجود ہے، یعنی فلسطینی پناہ گزینوں کے حقِ واپسی کو محدود یا ختم کردیا جائے گا۔دنیا کی تمام حکومتیں جو مسئلہ فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کو تجویز کر رہی ہیں وہ سب یہ باتیں اچھی طرح جانتی ہیں اور یہ بھی جانتی ہیں کہ دو ریاستی حل اسرائیل کے قیام اور اس کے قبضے کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔

فلسطین کی 78 فیصد زمین جو 1948 میں غصب کی گئی، وہ ہمیشہ کے لیے اسرائیل کے قبضے میں رہے گی اور یہ فلسطینی عوام کے تمام حقوق پر کھلم کھلا ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ کئی ایک مسلمان حکومتیں بھی فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی میں ساتھ دے رہی ہیں۔

یہ فلسطینی عوام کے تاریخی اور دینی حق کی نفی ہے جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ 1948 اور 1967 میں نکالے گئے، لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے حقِ واپسی کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اسی وجہ سے اس حل میں فلسطینی عوام کے حق واپسی کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی اپنی اصل زمین اور گھروں میں کبھی واپس نہیں جا سکیں گے۔دو ریاستی حل کی حمایت کرنیوالی حکومتوں کو یہ بات بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ دو ریاستی حل کے نتیجے میں جو ریاست فلسطینیوں کو دی جائے گی وہ نہ تو عسکری طور پر طاقتور ہوگی اور نہ معاشی طور پر خود کفیل۔

یعنی نہ تو انھیں فوج رکھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اپنی کرنسی چھاپنے کی۔ تو ایسے ادھوری ریاست کس طرح ایک ریاست کا درجہ پا سکتی ہے؟ اسی طرح دو ریاستی حل کے نتیجے میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل پانی، تجارتی راستے اور فضائی حدود پر قابض رہے گی، یوں فلسطینی ریاست ایک کمزور پروٹیکٹوریٹ (Protectorate) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھے گی۔

القدس شریف جو کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کا مقدس مقام ہے۔ دو ریاستی حل قدس شریف کو بھی تقسیم کرتا ہے جب کہ فلسطینی موقف یہ ہے کہ پورا قدس فلسطین کا دارالحکومت ہے۔

تقسیم کی صورت میں صہیونی قبضہ مسجد اقصیٰ اور مقدسات پر مزید بڑھ جائے گا۔ دو ریاستی حل کا ایک اور مقصد فلسطین میں موجود فلسطینیوں کی مزاحمت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔ دو ریاستی حل جو کہ خاص طور پر حالیہ دنوں میں فرانس اور سعودی عرب کی حکومتوں نے 29جولائی 2025 کو ہونے والی نیو یارک کانفرنس میں اعلان کیا ہے۔

یہاں تک کہ نیو یارک اعلامیہ میں بھی حماس کی شدید مذمت کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت کی کارروائیوں کو بھی دہشتگردی قرار دیا گیا ہے۔ اب اسی نیو یارک اعلامیہ کی بنیاد پر ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک مرتبہ پھر دو ریاستی حل کو پیش کیا گیا ہے۔

فلسطین کے عوام نے دو ریاستی حل کو مسترد کر دیا ہے، جو بھی فیصلہ فلسطینی عوام کی مرضی کے خلاف ہوگا وہ کبھی پائیدار نہیں ہو سکتا۔ چاہے بالفور اعلامیہ ہو، چاہے اس کے بعد آنیوالی قراردادیں ہوں یا پھر صدی کی ڈیل، ابراھیمی معاہدے اور اسی طرح نیو یارک اعلامیہ یہ سب فلسطینی عوام کی خواہشات اور ان کے حقوق کے بر خلاف ہیں، تاہم اس طرح کا حل غیر منصفانہ اور ظلم پر مبنی ہے، اگر فلسطینی قوم اس دو ریاستی حل کو تسلیم کرتی ہے تو وہ جانتے ہیں کہ پھر پورے فلسطین میں صیہونی آباد کاری ہو گی اور رفتہ رفتہ وہ تمام فلسطین سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

دراصل دو ریاستی حل اسرائیل کی غیر قانونی حیثیت کو قانونی حیثیت دینے کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کا واحد اور منصفانہ حل صرف اور صرف ایک فلسطینی ریاست ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔ یہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہو جو اپنا فیصلہ خود اور اپنے عوام کے ساتھ کرے۔

اسی حل کے ذریعے ہی لاکھوں مہاجرین فلسطینی اپنے گھروں اور وطن کو واپس لوٹ سکتے ہیں اور فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ بھی فلسطینی عوام اپنی رائے اور ریفرنڈم سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام تر راستے اور حل غیر منصفانہ ہونے کے ساتھ ساتھ نا قابل قبول اور نا قابل عمل ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطینی عوام کے فلسطین کی تقسیم دو ریاستی حل کو مسئلہ فلسطین غاصب صیہونی کیا گیا ہے فلسطین کے نیو یارک یہ ہے کہ کے ساتھ ہے اور کے لیے اور اس یہ بات

پڑھیں:

مقاومت کو غیر مسلح کرنا ناممکن ہے، جھاد اسلامی

الجزیرہ سے اپنی ایک گفتگو میں حماس کے رہنما کا کہنا تھا کہ جنگبندی کے معاہدے میں تو یہ طے ہوا تھا کہ نہتے شہریوں کے قتل عام اور جارحانہ کارروائیوں کو بند کیا جائیگا، لیکن اب تک 241 افراد کو قابض رژیم نے اپنے حملوں میں شہید کر دیا۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین كی مقاومتی تحریک "جہاد اسلامی" كے ڈپٹی سیكرٹری جنرل "محمد الهندی" نے کہا کہ غزہ میں بین الاقوامی فورس کے قیام کے حوالے سے امریکی مسودے میں جان بوجھ کر مبہم نکات رکھے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں تعینات ہونے والی کوئی بھی فورس صرف اسی صورت قابل قبول ہوگی جب وہ لبنان میں تعینات اقوام متحدہ کے امن دستے یونیفل کی طرح، صرف نگرانی کرے اور اس کے اختیارات و دورانیہ واضح ہوں۔ محمد الھندی نے واضح کیا کہ کسی بھی بین الاقوامی فورس کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوگا کہ وہ غزہ میں استقامتی محاذ کو غیر مسلح کرے، پولیس کو تربیت دے اور شہریوں کی حفاظت کی کوئی ذمہ داری اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی آزادی کے راستے میں مقاومتہ فورسز کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کا کوئی بھی منصوبہ ناکام و قابل مذمت ہے کیونکہ اس طرح کی سازشوں سے سوائے استعمار کے اسٹریٹجک ایجنڈوں کی تکمیل کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

دوسری جانب اسی سلسلے میں فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کے سینئر رہنماء "اسماعیل رضوان" نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا کہ مقاومت، جنگ بندی کے معاہدے کی کامیابی چاہتی ہے اور اس پر عملدرآمد کرے گی۔ اسماعیل رضوان نے کہا کہ استقامتی محاذ، صیہونی قیدیوں کی لاشوں کے معاملے کو جلد از جلد نمٹانے کے لئے پُرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے میں تو یہ طے ہوا تھا کہ نہتے شہریوں کے قتل عام اور جارحانہ کارروائیوں کو بند کیا جائے گا، لیکن اب تک 241 افراد کو قابض رژیم نے اپنے حملوں میں شہید کر دیا۔ حماس کے اس سینئر رہنماء نے واضح کیا کہ معاہدے میں انسانی امداد کے 600 ٹرکوں کی غزہ میں داخلے کی منظوری دی گئی تھی جن میں سے صرف 150 سے 200 ٹرک ہر روز غزہ کی پٹی میں داخل ہو پا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت غزہ میں شدید غذائی قلت ہے اور دوائیوں کی کمی ہے، اسلئے جس قدر جلد ممکن ہو رفح کراسنگ کھولنے کے لئے اسرائیل پر دباؤ ڈالنا چاہئے۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق
  • پاکستن نے فراست پر مبنی زری و مالیاتی پالیسیوں کے ذریعےمعاشی استحکام حاصل کرلیا؛گورنراسٹیٹ بینک
  • خطے پر تسلط کیلئے صیہونیوں کا صدی پرانا خاکہ
  • ریاست جوناگڑھ پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو 78 برس مکمل
  • ریاستی اداروں کیخلاف بیان پرسہیل آفریدی کیخلاف مقدمہ درج
  • مقاومت کو غیر مسلح کرنا ناممکن ہے، جھاد اسلامی
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کیخلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج
  • استنبول مذاکرات، پاکستان کا موقف تعصب سے بالاتر اور حقائق پر مبنی تھا، ذرائع
  • مساجد میں کتے باندھنے کا الزام، سہیل آفریدی کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج
  • جوناگڑھ پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو 78 سال مکمل