دو ریاستی حل نا انصافی اور ظلم پر مبنی ہے
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
1917ء میں برطانوی استعماری حکومت کے سیکریٹری خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے فلسطین کی تقسیم کے لیے جو منصوبہ حکومت برطانیہ کو پیش کیا، اسے تاریخ میں اعلان بالفور یا پھر بالفور اعلامیہ کہا جاتا ہے۔
فلسطین کی تاریخ میں اس اعلامیے کو فلسطین کے ساتھ کی جانیوالی سب سے بڑی نا انصافی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی اعلامیے کی بنیاد پر 1947میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد نمبر 181میں بھی فلسطین کی تقسیم کی منظوری دی گئی۔
یہاں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ یہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کہ جو آج ایک مرتبہ پھر فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کو مستحکم کرنے پر تلی ہوئی ہے، ماضی میں فلسطین کی تقسیم اور ناانصافی کو انجام دے چکی ہے۔
یہاں قارئین کی معلومات کے لیے یہ بات بھی ذہن نشین رکھی جائے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد قانونی طور پر بائنڈنگ نہیں ہوتی، یعنی اس پر عمل کرنا لازم نہیں ہوتا لیکن فلسطین کی تقسیم کے معاملے پر جنرل اسمبلی کی قرار داد کو تمام تر امور سے زیادہ ترجیح دی گئی اور اس پر عمل درآمد کر کے 1948میں فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو قائم کردیا گیا۔
آج پھر یہی اقوام متحدہ کوئی آٹھ دہائیاں مکمل ہونے کے بعد فلسطین کے ساتھ انصاف کرنے کے بجائے اپنی پرانے گناہ کو از سر نو تجدید کر رہی ہے اور ہمیں دو ریاستی حل کی گونج اقوام متحدہ یعنی کفن چوروں کی انجمن سے سنائی دے رہی ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کی تاریخ ایک صدی سے زائد کا عرصہ رکھتی ہے اور اس عرصے میں 1948کے بعد سے مسلسل فلسطینی عوام پر اپنی ہی زمین تنگ کی جاتی رہی ہے اور صیہونی آباد کاری کے ذریعے اب تک 78فیصد سے زیادہ فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو قابض کیا گیا ہے۔
فلسطینی عوام اپنی زمین، حقِ واپسی اور قومی خود مختاری کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں اور مغربی حکومتوں کے ساتھ ساتھ ادارے سب کے سب فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل (Two-State Solution) تجویز کرتے آئے ہیں۔ ایسا ہی آج بھی کیا جا رہا ہے۔
بظاہر یہ تجویز انصاف اور امن کا راستہ دکھائی دیتی ہے، لیکن درحقیقت یہ فلسطینی کاز کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرتی ہے اور غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز وجود کو مزید مضبوط بناتی ہے۔
دو ریاستی حل کا بنیادی خاکہ یہ ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی موجودہ ریاست کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ یعنی اس حل میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے ایک الگ ریاست قائم کی جائے جس کی سرحدیں 1967 کی جنگ سے پہلے کی حدود کے مطابق ہوں۔ حالانکہ یہ خود ایک غیر منصفانہ تجویز ہے کہ آپ کسی قوم اور ملت کو کہتے ہیں کہ اس کو اپنے ہی گھر میں اور وطن میں ایک محدود علاقے پر ریاست قائم کرنا ہوگی۔
اسی طرح دو ریاستی حل کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ القدس کو تقسیم کر کے مغربی القدس اسرائیل کے پاس اور مشرقی القدس فلسطین کے پاس رہے۔ یہ ایک اور بڑی خیانت اور دھوکا ہے جو فلسطینی عوام کے ساتھ دو ریاستی حل کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
اس سے بڑھ کر فلسطین کے اپنے باشندوں کو اپنے ہی وطن واپس آنے سے محروم کرنے کا ہدف بھی اسی دو ریاستی حل میں موجود ہے، یعنی فلسطینی پناہ گزینوں کے حقِ واپسی کو محدود یا ختم کردیا جائے گا۔دنیا کی تمام حکومتیں جو مسئلہ فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کو تجویز کر رہی ہیں وہ سب یہ باتیں اچھی طرح جانتی ہیں اور یہ بھی جانتی ہیں کہ دو ریاستی حل اسرائیل کے قیام اور اس کے قبضے کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔
فلسطین کی 78 فیصد زمین جو 1948 میں غصب کی گئی، وہ ہمیشہ کے لیے اسرائیل کے قبضے میں رہے گی اور یہ فلسطینی عوام کے تمام حقوق پر کھلم کھلا ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ کئی ایک مسلمان حکومتیں بھی فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی میں ساتھ دے رہی ہیں۔
یہ فلسطینی عوام کے تاریخی اور دینی حق کی نفی ہے جسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ 1948 اور 1967 میں نکالے گئے، لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کے حقِ واپسی کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اسی وجہ سے اس حل میں فلسطینی عوام کے حق واپسی کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی اپنی اصل زمین اور گھروں میں کبھی واپس نہیں جا سکیں گے۔دو ریاستی حل کی حمایت کرنیوالی حکومتوں کو یہ بات بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ دو ریاستی حل کے نتیجے میں جو ریاست فلسطینیوں کو دی جائے گی وہ نہ تو عسکری طور پر طاقتور ہوگی اور نہ معاشی طور پر خود کفیل۔
یعنی نہ تو انھیں فوج رکھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی اپنی کرنسی چھاپنے کی۔ تو ایسے ادھوری ریاست کس طرح ایک ریاست کا درجہ پا سکتی ہے؟ اسی طرح دو ریاستی حل کے نتیجے میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل پانی، تجارتی راستے اور فضائی حدود پر قابض رہے گی، یوں فلسطینی ریاست ایک کمزور پروٹیکٹوریٹ (Protectorate) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھے گی۔
القدس شریف جو کہ دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کا مقدس مقام ہے۔ دو ریاستی حل قدس شریف کو بھی تقسیم کرتا ہے جب کہ فلسطینی موقف یہ ہے کہ پورا قدس فلسطین کا دارالحکومت ہے۔
تقسیم کی صورت میں صہیونی قبضہ مسجد اقصیٰ اور مقدسات پر مزید بڑھ جائے گا۔ دو ریاستی حل کا ایک اور مقصد فلسطین میں موجود فلسطینیوں کی مزاحمت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔ دو ریاستی حل جو کہ خاص طور پر حالیہ دنوں میں فرانس اور سعودی عرب کی حکومتوں نے 29جولائی 2025 کو ہونے والی نیو یارک کانفرنس میں اعلان کیا ہے۔
یہاں تک کہ نیو یارک اعلامیہ میں بھی حماس کی شدید مذمت کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت کی کارروائیوں کو بھی دہشتگردی قرار دیا گیا ہے۔ اب اسی نیو یارک اعلامیہ کی بنیاد پر ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک مرتبہ پھر دو ریاستی حل کو پیش کیا گیا ہے۔
فلسطین کے عوام نے دو ریاستی حل کو مسترد کر دیا ہے، جو بھی فیصلہ فلسطینی عوام کی مرضی کے خلاف ہوگا وہ کبھی پائیدار نہیں ہو سکتا۔ چاہے بالفور اعلامیہ ہو، چاہے اس کے بعد آنیوالی قراردادیں ہوں یا پھر صدی کی ڈیل، ابراھیمی معاہدے اور اسی طرح نیو یارک اعلامیہ یہ سب فلسطینی عوام کی خواہشات اور ان کے حقوق کے بر خلاف ہیں، تاہم اس طرح کا حل غیر منصفانہ اور ظلم پر مبنی ہے، اگر فلسطینی قوم اس دو ریاستی حل کو تسلیم کرتی ہے تو وہ جانتے ہیں کہ پھر پورے فلسطین میں صیہونی آباد کاری ہو گی اور رفتہ رفتہ وہ تمام فلسطین سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
دراصل دو ریاستی حل اسرائیل کی غیر قانونی حیثیت کو قانونی حیثیت دینے کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کا واحد اور منصفانہ حل صرف اور صرف ایک فلسطینی ریاست ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔ یہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہو جو اپنا فیصلہ خود اور اپنے عوام کے ساتھ کرے۔
اسی حل کے ذریعے ہی لاکھوں مہاجرین فلسطینی اپنے گھروں اور وطن کو واپس لوٹ سکتے ہیں اور فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ بھی فلسطینی عوام اپنی رائے اور ریفرنڈم سے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام تر راستے اور حل غیر منصفانہ ہونے کے ساتھ ساتھ نا قابل قبول اور نا قابل عمل ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطینی عوام کے فلسطین کی تقسیم دو ریاستی حل کو مسئلہ فلسطین غاصب صیہونی کیا گیا ہے فلسطین کے نیو یارک یہ ہے کہ کے ساتھ ہے اور کے لیے اور اس یہ بات
پڑھیں:
غزہ، فلسطین کا اٹوٹ انگ ہے؛ اسرائیل یہودی آبادکاری سے باز رہے؛ محمود عباس
فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے امریکا کی جانب سے ویزا فراہم نہ کرنے پر ویڈیو لنک کے ذریعے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پُرجوش خطاب کیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اپنی تقریر میں اسرائیلی مظالم، یہودی بستیوں کی آبادکاری کے منصوبوں اور حماس کے حملوں کی بھی مذمت کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے غزہ پر حملے اور ناکہ بندی محض جارحیت نہیں بلکہ سنگین جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے جسے تاریخ انسانی کی بدترین المیوں میں شمار کیا جائے گا۔
فلسطینی صدر نے کہا کہ غزہ کے عوام تقریباً 2 برس سے نسل کشی، تباہی، بھوک اور جبری بے دخلی کا سامنا کر رہے ہیں۔ دو لاکھ بیس ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید یا زخمی کیا جا چکا ہے جن میں اکثریت نہتے شہری، بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں۔
صدر محمود عباس نے اسرائیلی آبادکاروں کے تشدد کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آبادکار ہمارے گھروں اور کھیتوں کو جلا دیتے ہیں، درخت اکھاڑتے ہیں، دیہات پر حملے کرتے ہیں اور نہتے فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج کی سرپرستی میں قتل کرتے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ غزہ ہمارا اٹوٹ انگ ہے اور ہم وہاں کی حکمرانی اور سلامتی کی پوری ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہیں لیکن اس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حماس اور دیگر گروہوں کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے تاکہ ایک ریاست، ایک قانون اور ایک ملکی فوج کے اصول کے تحت حکومت قائم ہوسکے۔
انھوں نے حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حماس کی یہ انفرادی کارروائی فلسطینی عوام یا ان کی آزادی کی منصفانہ جدوجہد کی نمائندگی نہیں کرتی۔
انھوں نے مزید کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس، ہیبرون اور غزہ میں مساجد، گرجا گھروں اور قبرستانوں پر حملے کیے گئے جو بین الاقوامی قانون اور تاریخی حیثیت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
محمود عباس نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے "گریٹر اسرائیل منصوبے" کی کال کو مسترد کرتے ہوئے قطر پر حملے کو بھی "سنگین اور کھلی خلاف ورزی" قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبے کا حصہ ہے جو نہ صرف فلسطین بلکہ خود مختار عرب ممالک کے لیے بھی خطرہ ہے۔
فلسطینی صدر نے اسرائیلی حکومت کو "انتہا پسند" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہودی بستیوں کے پھیلاؤ اور نئے منصوبوں کے ذریعے مغربی کنارے کو تقسیم کرنے اور بیت المقدس کو اس کے اردگرد کے علاقوں سے الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے اسرائیل کے ای 1 (E1) منصوبے کو "دو ریاستی حل کے خاتمے" کے مترادف قرار دیا۔