یہ سمجھنا غلط فہمی ہوگی کہ امریکہ ہمیشہ پاکستان کیساتھ فیاض رہے گا، حسین حقانی
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ طاقت کو پسند کرتے ہیں اور حالیہ پاک ،بھارت کشیدگی کے بعد انہیں اندازہ ہوا ہے کہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تاہم امریکہ کی ریاستی مشینری اب بھی بھارت کو طویل المدتی حلیف سمجھتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے کہا ہے کہ یہ سمجھنا غلط فہمی ہوگی کہ امریکہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ فیاض رہے گا۔امریکی ریاستی مشینری اب بھی بھارت کو حلیف سمجھتی ہے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں 1954 سے اب تک اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں اس بار بہتری ضرور ہے لیکن یہ سمجھنا غلط فہمی ہوگی کہ امریکہ ہمیشہ پاکستان کے ساتھ فیاض رہے گا۔ ٹرمپ طاقت کو پسند کرتے ہیں اور حالیہ پاک ،بھارت کشیدگی کے بعد انہیں اندازہ ہوا ہے کہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تاہم امریکہ کی ریاستی مشینری اب بھی بھارت کو طویل المدتی حلیف سمجھتی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
امریکہ، چین اور خطے کی سیاست
محمد آصف
دنیا کی سیاست میں امریکہ اور چین دو ایسی بڑی طاقتیں ہیں جن کا اثر و رسوخ صرف اپنی سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا پر براہِ راست پڑتا ہے ۔ اکیسویں صدی کو اگر ”ایشیا کی صدی” کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا، کیونکہ عالمی معیشت اور سیاست کا محور تیزی سے ایشیا کی طرف منتقل ہو رہا ہے ۔ چین اپنی معاشی ترقی، ٹیکنالوجی میں جدت، اور خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن کر ابھرا ہے ، جبکہ امریکہ اب بھی عسکری طاقت، عالمی اداروں میں اثر و رسوخ، اور روایتی اتحادیوں کے سہارے دنیا کی قیادت کا دعوے دار ہے ۔ یہی کشمکش خطے کی سیاست کو پیچیدہ اور غیر یقینی بنا رہی ہے ۔
امریکہ کی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں رکھے ۔ سرد جنگ کے زمانے میں یہ کردار سوویت یونین کے خلاف تھا اور آج یہی پالیسی چین کے خلاف نظر آتی ہے ۔ امریکہ خطے میں بھارت کو ایک بڑی اسٹریٹجک طاقت کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہے تاکہ چین کو روکا جا سکے ۔ دوسری طرف، چین”بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو”(BRI)اور”چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور” (CPEC) جیسے منصوبوں کے ذریعے خطے میں معاشی جڑیں مضبوط کر رہا ہے ۔ یہ صورتحال امریکہ اور چین کے درمیان ایک نئے قسم کے سرد جنگی ماحول کو جنم دے رہی ہے ۔ پاکستان اس کشمکش میں ایک نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے
پاکستان خطے کی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ چین کے ساتھ اس کے تعلقات روایتی طور پر مضبوط ہیں اور سی پیک کو پاکستان اپنی معاشی ترقی کا سنگ بنیاد سمجھتا ہے ۔ مگر دوسری طرف پاکستان امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات کو نظرانداز نہیں کر سکتا، کیونکہ امریکہ اب بھی عالمی
مالیاتی اداروں، فوجی امداد، اور سفارتی اثر و رسوخ کے ذریعے ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو بار بار ”بیلنسنگ ایکٹ”کرنا پڑتا ہے ، یعنی ایک طرف چین سے قریبی تعلقات رکھنا اور دوسری طرف امریکہ کو بھی ناراض نہ کرنا۔
خطے میں بھارت کا کردار بھی امریکہ اور چین کی سیاست کا اہم حصہ ہے ۔ امریکہ، بھارت کو چین کے خلاف ایک فطری اتحادی کے طور پر دیکھ رہا ہے ۔”کواڈ” (QUAD) اتحاد جس میں امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں ۔اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ ایشیا میں چین کے بڑھتے اثرکو روکنے کے لیے ایک اتحاد بنا رہا ہے ۔ اس کے مقابلے میں چین پاکستان کے ساتھ مل کر خطے میں بھارت کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس کشمکش کے اثرات نہ صرف سیاسی اور دفاعی شعبوں میں ہیں بلکہ معاشی میدان میں بھی نمایاں ہیں۔
افغانستان کی صورتحال بھی اس خطے کی سیاست پر گہرے اثرات ڈال رہی ہے ۔ امریکہ نے طویل جنگ کے بعد افغانستان سے انخلا کیا، لیکن اس کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے چین اور روس آگے بڑھ رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے بعد افغانستان میں امن و امان اور دہشت گردی کے خدشات کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات نے خطے کے ممالک کو نئی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے ۔ چین افغانستان میں سرمایہ کاری کے امکانات تلاش کر رہا ہے جبکہ امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے ۔ پاکستان اس سارے منظرنامے میں براہِ راست متاثر ہو رہا ہے کیونکہ افغانستان کی صورتحال کا اثر اس کی سیکیورٹی اور معیشت دونوں پر پڑتا ہے ۔
امریکہ اور چین کے درمیان یہ مقابلہ محض عسکری یا سیاسی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی، معیشت اور عالمی اداروں پر اثر و رسوخ کی جنگ بھی ہے ۔ امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ ہائی ٹیک انڈسٹریز، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)، اور دفاعی ٹیکنالوجیز پر اپنی برتری قائم رکھے ، جبکہ چین تیزی سے ان شعبوں میں ترقی کر رہا ہے ۔ 5G ٹیکنالوجی، الیکٹرک گاڑیاں، اور جدید انفراسٹرکچر میں چین نے کئی ممالک کو اپنی طرف مائل کر لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ چینی ٹیکنالوجی، خاص طور پر ہواوے اور دیگر کمپنیوں کو استعمال نہ کریں۔
خطے کے دوسرے ممالک جیسے ایران، ترکی، وسطی ایشیائی ریاستیں، اور خلیجی ممالک بھی اس بڑی طاقتوں کی کشمکش سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایران چین کے ساتھ معاہدے کر کے امریکہ کے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، جبکہ خلیجی ممالک ایک طرف امریکہ کے روایتی اتحادی ہیں مگر دوسری طرف وہ چین سے معاشی تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ خطے کی سیاست اب ایک کثیر رخی شکل اختیار کر چکی ہے جہاں ممالک صرف ایک طاقت پر انحصار کرنے کے بجائے دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ اس عالمی اور علاقائی کشمکش میں اپنے مفادات کو کیسے محفوظ رکھے ۔ سی پیک کے ذریعے پاکستان کو توانائی، انفراسٹرکچر اور روزگار کے مواقع مل رہے ہیں، مگر امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا مطلب عالمی مالیاتی اداروں سے مشکلات اور سفارتی دباؤ ہو سکتا ہے ۔ اس لیے پاکستان کو نہ صرف معاشی خودکفالت کی طرف جانا ہوگا بلکہ ایک متوازن خارجہ پالیسی اپنانی ہوگی تاکہ وہ دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات برقرار رکھ سکے ۔ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے امریکہ، چین اور خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب یا دور کیا ہے ۔ پاکستان جیسے ملک موسمیاتی آفات کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں، لیکن ان کے پاس وسائل نہیں کہ وہ تنہا ان سے نمٹ سکیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کو قائل کرے کہ ماحولیاتی انصاف کے تحت کمزور ممالک کی مدد کی جائے ۔ چین نے گرین انرجی پر سرمایہ کاری بڑھائی ہے ، جبکہ امریکہ نے بھی ”کلائمٹ چینج” کے حوالے سے کئی عالمی وعدے کیے ہیں۔ خطے کی سیاست میں یہ پہلو بھی ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے ۔ مستقبل کی سیاست کا دارومدار اس بات پر ہے کہ امریکہ اور چین کی یہ کشمکش کہاں تک جاتی ہے ۔ اگر یہ محاذ آرائی کھلی ٹکراؤ میں بدلتی ہے تو خطے کے ممالک کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی، لیکن اگر یہ مقابلہ زیادہ تر معاشی اور سفارتی حدود میں رہے تو چھوٹے ممالک اس سے فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے موقع یہ ہے کہ وہ اپنی جغرافیائی حیثیت، معاشی مواقع اور سفارتی کردار کو اس انداز میں استعمال کریں کہ دونوں طاقتوں سے فائدہ بھی اٹھائیں اورکسی بڑی طاقت کے ساتھ دشمنی مول نہ لیں۔
٭٭٭