—فائل فوٹو

سینئرز کو نظرانداز کر کے ایل ڈی سی کو لیبر افسر کے عہدے تک پروموٹ کرنے کے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ لوگ نوکریوں کو ترس رہے ہیں اور یہاں پوسٹیں خالی ہیں، آپ تقرریاں ہی نہیں کرتے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ اور وفاق کی جانب سے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن اور اسٹیٹ کونسل ملک عبدالرحمان عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے شہری احسان اللّٰہ کی درخواست پر وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ 8 سینئرز کو سپرسیڈ کر کے ایک شخص کو لیبر انسپکٹر اور پھر لیبر افسر بنایا گیا، لاء افسران کے لیے غلط کام کو ڈیفنڈ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

وکیل ریاض حنیف راہی نے کہا کہ چیئرمین سی ڈی اے کے پاس دو عہدے ہیں، وہ چیف کمشنر بھی ہیں۔ جس پر جسٹس کیانی نے کہا کہ اس کورٹ کی ججمنٹس ہیں کہ چیئرمین سی ڈی اے اور چیف کمشنر کا چارج الگ الگ بندے کے پاس ہونا چاہیے۔ لگتا ہےچیف کمشنر صاحب کو چیئرمین سی ڈی اے کی سیٹ زیادہ پسند ہے، ایک دن چیئرمین سی ڈی اے کا کام چھوڑ کر چیف کمشنر کی کرسی پر جاکر بیٹھیں اور دیکھیں کہ کام کیسے چل رہا ہے؟ چیف کمشنر دیکھیں ان کی ناک کے نیچے کیا ہورہا ہے، پوسٹیں کیوں خالی پڑی ہیں، چیف کمشنر نہیں دیکھتے کہ ان کے نیچے کتنی پوسٹیں خالی ہیں؟ اسلام آباد میں لیبر انسپکٹرز کی 4 پوسٹس ابھی بھی خالی ہیں، یہ بھی پٹواریوں کی طرح کا کیس ہے کہ پٹواری تعینات نہیں کرتے، آگے منشی رکھ لیتے ہیں، ہم نے پٹواریوں کے کیس میں ڈی سی کو بلایا ہوا ہے، ‏یہ اتنا زبردست افسر ہے کہ ہائی کورٹ کی رٹ خارج ہونے کے بعد بھی پروموٹ کر دیا گیا، ڈیپارٹمنٹل کمیٹی میں شامل 3 سی ایس پی افسران نے کہا وہ غلط تھے کہ پہلے پروموٹ نہیں کیا، اس افسر کو ترقی دے کر کیڈر تبدیل کیا گیا اور پھر لیبر انسپکٹر لگا دیا، اتنا زبردست افسر تھا تو اس کو سیدھا ڈی سی ہی لگا دیتے، کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی سندھ میں پروموٹ نہیں ہو سکتا تو اسلام آباد آکر پروموٹ ہو جائے کہ یہاں گنجائش ہے؟

عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ چیف کمشنر تحریری وضاحت جمع کرائیں کہ لیبر انسپکٹر کی آسامیاں کیوں خالی ہیں اور بھرتیاں کیوں نہیں کی جا رہیں؟

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: چیئرمین سی ڈی اے چیف کمشنر خالی ہیں کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

عدالت کا خاتون، بچوں کی گرفتاری کےمعاملے میں ملوث پولیس اہلکاروں کیخلاف اندراج مقدمہ کا عندیہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاہور اور بہاولپور سے خاتون اور بچوں کی گرفتاری کے معاملے میں ملوث پولیس اہلکاروں کیخلاف ایف آئی آر کے اندراج کا عندیہ دے دیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی  نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے معاملے کی تحقیقات کریں، پولیس اہلکار واقعہ کی شفاف تحقیقات میں ناکام رہے، پولیس بااثر مدعی کے زیر اثر ہے اور لاہور میں عدالت کی اجازت کے بغیر چھاپہ مارا، پولیس اہکاروں نے ملزمان کیخلاف پولیس مقابلے کی جعلی ایف آئی آر درج کی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ  کیوں نہ پولیس اہلکاروں کی معطلی کا آرڈر جاری کیا جائے، آئی جی اسلام آباد نے پیش ہوکر شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کروائی تھی۔

وکیل سردار لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ مدعی بااثر بیوروکریٹ ہے، مدعی کو سابق دور میں ایم ڈی پی آئی اے بھی لگایا گیا، مدعی کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پولیس نے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔

عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

متعلقہ مضامین

  • ’پاکستان کی سیکیورٹی ترکیہ کی سیکیورٹی سے الگ نہیں‘، ترک وزیر داخلہ کی محسن نقوی سے ملاقات
  • لاہور ہائیکورٹ کا مبینہ اغوا خاتون کو زندہ یا مردہ برآمد کر کے پیش کرنے کا حکم
  • لیاری کی بے نظیر یونیورسٹی میں قیام کے بعد پہلی بار پروفیسرز کے عہدے پر تقرریاں
  • عدالت کا خاتون، بچوں کی گرفتاری کےمعاملے میں ملوث پولیس اہلکاروں کیخلاف اندراج مقدمہ کا عندیہ
  • جرمانہ ادا کرنے سے جرم ختم نہیں ہوجاتا،جسٹس شفیع
  • لاہور، صوبائی وزیر لیبر سے کامیاب مذاکرات کے بعد اساتذہ کا دھرنا ختم
  • دبئی ولی عہد نے شہر کے لیے 15 ہزار نوکریوں اور جدید منصوبوں کی منظوری دیدی
  • 50 لاکھ گھر اور 1 کروڑ نوکریوں والے سارے وعدے جھوٹے تھے: عظمیٰ بخاری
  • صادق خان کی حکومت سے ’حقیقی‘ لیبر بجٹ لانے کی اپیل
  • بھارت بیرون ملک اپنے واحد فوجی اڈے سے ہاتھ دھو بیٹھا‘ تاجکستان کا عینی ائربیس خالی کردیا