8 سینئر افسران کو سپر سیڈ کر کے لیبر انسپکٹر اور بعدازاں لیبر افسر کی تعیناتی سے متعلق مقدمے کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی، جہاں جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کے دوران چیف کمشنر اسلام آباد سے اس ضمن میں وضاحت طلب کرلی۔

سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے چیف کمشنر صاحب کو چیئرمین سی ڈی اے کی سیٹ زیادہ پسند ہے۔ ایک دن وہ چیف کمشنر کی کرسی پر بیٹھ کر دیکھیں کہ کام کیسے چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیف کمشنر کو اپنے ماتحت خالی پوسٹوں پر نظر ڈالنی چاہیے، اسلام آباد میں لیبر انسپکٹرز کی 4 نشستیں تاحال خالی ہیں جبکہ لوگ نوکریوں کو ترس رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا بحران سنگین ہوگیا، درخواست گزاروں کے مقدمات تاخیر کا شکار

سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے متعلقہ افسر کی ترقی اور تعیناتی پر سخت ریمارکس دیے، انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال پٹواریوں کے کیس جیسی ہے جہاں اصل تعیناتی کی بجائے منشی رکھ لیے جاتے ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ڈیپارٹمنٹل کمیٹی نے خود تسلیم کیا کہ پہلے اس افسر کو ترقی نہ دینا غلط فیصلہ تھا۔ جسٹس کیانی نے کہا کہ اس افسر کو نہ صرف ترقی دی گئی بلکہ اس کا کیڈر بھی تبدیل کر کے لیبر انسپکٹر تعینات کر دیا گیا۔

جسٹس کیانی نے طنزیہ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کہ اگر یہ افسر اتنا ہی شاندار تھا تو اسے سیدھا ڈپٹی کمشنر ہی لگا دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی شخص سندھ میں ترقی نہ حاصل کر سکے لیکن اسلام آباد آ کر اسے پروموشن مل جائے، صرف اس لیے کہ یہاں گنجائش موجود ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی عدم دستیابی، اہم مقدمات کی سماعت لٹک گئی

عدالت نے ریمارکس دیے کہ غلط فیصلوں کا دفاع کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے اور سرکاری لا آفیسراور اسٹیٹ کونسل کے لیے بھی ایسے اقدامات کا دفاع کرنا آسان نہیں رہتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی واضح فیصلے موجود ہیں کہ چیئرمین سی ڈی اے اور چیف کمشنر کے عہدے ایک ہی شخص کے پاس نہیں ہونے چاہییں۔

درخواست گزار کے وکیل ریاض حنیف راہی، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن اور اسٹیٹ کونسل عبد الرحمن عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے چیف کمشنر سے وضاحت طلب کرتے ہوئے سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد پٹواریوں جسٹس محسن اختر کیانی چیف کمشنر سندھ سی ڈی اے لیبر انسپکٹرز منشی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسلام اباد پٹواریوں جسٹس محسن اختر کیانی چیف کمشنر سی ڈی اے لیبر انسپکٹرز جسٹس محسن اختر کیانی اسلام آباد چیف کمشنر کیانی نے انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچوں ججوں درخواستیں اعتراضات لگا کر واپس کردیں

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 ستمبر ۔2025 )سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچوں ججوں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس اعجاز اسحاق خان کی درخواستیں پر اعتراضات عائد کر کے واپس کردیں نجی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے بتایاکہ رجسٹرار سپریم کورٹ آفس نے پانچوں ججز کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اعتراض عائد کیا ہے کہ درخواست گزار نے واضح نہیں کیا کہ درخواستوں میں کونسا مفاد عامہ کا سوال ہے، درخواست گزار نے یہ بھی نہیں بتایا کہ کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے کہ آرٹیکل 184/3 کا دائرہ کار استعمال ہو.

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراض عائد کیا ہے کہ درخواست گزاروں نے ذاتی رنجش پر آرٹیکل 184/3 کے غیر معمولی دائرہ کار کے تحت درخواستیں دائر کیں جبکہ سپریم کورٹ کا ذوالفقار مہدی بنام پی آئی اے کیس ذاتی رنجش پر184/3 کی درخواست دائرکرنے کی اجازت نہیں دیتا. ذرائع کے مطابق اعتراض میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست کے اجزا پورے نہیں کئے گئے، ججز نے آئینی درخواست دائر کرنے کی ٹھوس وجہ بیان کی نہ نوٹسز کے لیے فریقین کی وضاحت کی واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت امتیاز اور جسٹس اعجاز اسحاق خان نے سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں درخواستوں میں ججوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ انتظامی اختیارات کو ہائی کورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا.

درخواستوں میں کہاگیاتھا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے. ججوں کی جانب سے کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے.

درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹی فکیشنوں اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے. 

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچوں ججوں درخواستیں اعتراضات لگا کر واپس کردیں
  • سپریم کورٹ: رجسٹرار آفس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی درخواستیں اعتراضات لگاکر واپس کردیں
  • سپریم کورٹ؛ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5ججز کی آئینی درخواستیں اعتراضات لگا کر واپس
  • لوگ نوکریوں کو ترس رہے ہیں اور یہاں پوسٹیں خالی ہیں، آپ تقرریاں ہی نہیں کرتے: جسٹس محسن اختر کیانی کے ریمارکس
  • لیبر افسر تعیناتی کیس: چیئرمین سی ڈی اے کے پاس 2 عہدے ہونے پر جسٹس محسن اختر کیانی کے اہم ریمارکس
  • اسلام آباد میں بچوں کا مبینہ اغوا: بااثر شخصیات کے دباؤ پر پولیس کی کارروائی، کل ہائیکورٹ میں سماعت
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اعجاز اسحاق کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اعجاز اسحاق خان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر
  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج طارق جہانگیری‘ محسن اختر کیانی، بابر ستار، ثمن رفعت اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکری