زیر التوا مقدمات بوجھ، مسئلہ سنگین، جسٹس گل حسن: ثالثی کو عام کرنا ہو گا، جسٹس شاہد وحید
اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT
اسلام آباد (نیٹ نیوز) سپریم کورٹ کے عارضی جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان زیرِ التواء مقدمات کے بوجھ جیسے سنگین مسئلے کا شکار ہے۔ مقدمات کو عدالت میں آنے سے قبل ہی ابتدائی مرحلے میں ثالث کے پاس بھیجا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں 6 روزہ سول کمرشل ثالثی ٹریننگ پروگرام کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ثالثی کے 3 اجزاء ہیں، بین الاقوامی سطح کی ثالثی کا نفاذ ہونا چاہیے۔ ثالثی کے ذریعے مقدمات کے حل کی قراردار پنجاب اور بلوچستان نے منظور کی۔ امید ہے باقی صوبے بھی جلد ایسا کریں گے۔ انہوں نے کہا 2022ء سے اب تک ترکیہ نے 2 ملین سے زائد مقدمات ثالثی سے نمٹائے، پاکستان کے پاس 200 ثالث ہیں لیکن ان کو مقدمات بھیجے نہیں جاتے، ثالثی کے لیے دل اور دماغ میں تبدیلی لانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا مقدمات کے متبادل حل کی ٹریننگ مکمل کرنے پر شرکاء کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو آپ نے سیکھا یہ انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس شاہد وحید نے کہا ثالث کا خرچ بچانے کے لیے ججز کو ہی بغیر معاوضہ ثالث کا کردار ادا کرنا ہو گا، ثالثی کے ذریعے مقدمات کے حل کو عام کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا قرآن پاک بھی صلح کی تعلیمات دیتا ہے، سپریم کورٹ کی اے ڈی آر کمیٹی نے مستقبل کی گائیڈ لائنز بنا کر دی ہیں۔ تجویز دی ہے، ملک میں مقدمات کے متبادل حل کے لیے ایک ہی قانون سازی کی جائے۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا فیملی کورٹس کے لیے فریقین کے بڑوں کو بیٹھ کر معاملات حل کرنے کی تجویز دی ہے۔ وکلاء فیملی کیسز میں ثالث بنیں تو معاملات خراب ہوتے ہیں، ثالثی کی ترویج کیلئے مہم شروع کریں گے جس کا نعرہ ’میڈی فیئر‘ ہے۔ انہوں نے کہا ابراہم لنکن نے کہا تھا مقدمات کو عدالتوں میں لے جانے سے احتراز برتیں، نیلسن مینڈیلا نے کہا تھا دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہو تو دشمن کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کرنا ہو گا مقدمات کے ثالثی کے کے لیے
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز انصاف کے لئے سپریم کورٹ پہنچ گئے
اسلام آباد(صغیر چوہدری )اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز انصاف کے لئے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے مختلف اقدامات کو ماتحت ججز نے عدالت عظمی میں چیلنج کر دیا۔جسٹس محسن اختر کیانی ۔جسٹس طارق محمود جہانگیری ۔جسٹس بابر ستار۔جسٹس ثمن رفعت اور جسٹس اعجاز اسحاق نے الگ الگ دائر درخواستوں میں موقف اپنایا ہےکہ
جج کو کام سے روکنے کی درخواست ہائیکورٹ میں قابل سماعت نہیں،
جج کو صرف آرٹیکل 209 کے تحت کام سے روکا جا سکتا ہے،پانچوں ججز کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت درخواست دائر کی گئی ہیں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ
آر ٹیکل 202 کے تحت بنے رولز کے تحت ہی چیف جسٹس بنچ تشکیل دے سکتے ہیں، ماسٹر آف روسٹر کا نظریہ سپریم کورٹ کالعدم قرار دے چکی ہے ۔ ججز نے عدالت عظمی سے استدعا کی ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے انتظامی کمیٹیوں سے متعلق تین فروری اور 15جولائی کو نوٹیفکیشن جاری کئے گئے جوکہ درست اقدام نہیں ہے ان نوٹیفیکیشنز کو کالعدم قرار دیا جائے اور ساتھ قائم کی گئیں ان انتظامی کمیٹیوں کے اقدامات بھی کالعدم قرار دیئے جائیں درخواست میں
اسلام آباد ہائیکورٹ کے حالیہ رولز پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور انہیں غیر قانونی قرار دینے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔ درخواست مئں موقف اپنایا گیا ہے کہ ہائیکورٹ آرٹیکل 199 کے تحت اپنے آپ کو ہی رٹ جاری نہیں کر سکتی درخواست میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ ریاست پاکستان کو فریق بنایا گیا ہے درخواست میں یہ موقف بھی اپنایا گیا ہے کہ قرار دیا جائے کہ انتظامی اختیارات عدالتی اختیارات پر حاوی نہیں ہوسکتے اور پہلے چیف جسٹس پہلے سے تشکیل شدہ بنچ میں تبدیلی کرنے کے مجاز نہیں ہیں یہ بھی قرار دیا جائے کہ چیف جسٹس اپنی منشا اور مرضی کے مطابق دستیاب ججز کو روسٹر سے الگ نہیں کرسکتے اور ناہی چیف جسٹس اپنی منشا کے مطابق ججز کو عدالتی فرائض کی انجام دہی سے روک سکتے ہیں