Express News:
2025-11-05@23:27:49 GMT

کمزور بلدیاتی نظام

اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT

ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب اب تک نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام سے محروم ہے۔ الیکشن کمیشن نے ایک دفعہ پھر اس سال دسمبر میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا تھا مگر پنجاب کی حکومت نے ایک نیا بلدیاتی قانون نافذ کردیا۔ اس نئے قانون میں بلدیاتی اداروں کی ہیت اور ان اداروں میں عوامی نمایندگی کا تناسب تبدیل ہوا، یوں اب الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کا ٹاسک مل گیا ہے۔

اس بناء پر دسمبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پھر ملتوی ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے ہینڈ آؤٹ میں نئی حلقہ بندیوں کے کام کی تکمیل اور نئے انتخابات کی حتمی تاریخ کے بارے میں خاموشی اختیارکی گئی ہے۔ اس بناء پر اگلے سال پنجاب کے عوام کو نچلی سطح تک بااختیار بلدیاتی نظام میسر آسکے گا؟ اس سوال کا جواب کسی نجومی کے پاس نہیں ہے۔

بلدیاتی امورکے ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے بلدیاتی نظام کو بیوروکریسی کے تابع کردیا گیا ہے اور بلدیاتی نظام پر عوامی اداروں کی بالادستی کے تصورکو قانونی شکل نہیں دی گئی۔ اس نئے قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوںگے مگر منتخب اراکین کو ایک ماہ کے اندرکسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی ہوگی۔ اس قانون کے تحت وارڈ سسٹم ختم ہوجائے گا اور ہر یونین کونسل سے 9 اراکین منتخب ہوں گے۔ ان 9 ارکان پر بھاری ذمے داری عائد ہوگی، یہ 9 اراکین چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔

پھر یہی ارکان ریزرو نشستوں کا انتخاب کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی چیئرمین شپ کا روٹیشن شپ کا طریقہ نافذ ہوگا اور 6ماہ بعد چیئرمین شپ تبدیل ہوجائے گی۔ اگرچہ ڈسٹرکٹ کمیٹی کا چیئرمین عوامی نمایندہ ہوگا مگر ضلع کا ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ کمیٹی کا کوچیئرمین ہوگا۔ پھر ہر 6 ماہ بعد آبادی کے تناسب سے سب سے بڑے بلدیاتی ادارے کا سربراہ چیئرمین بنے گا اور یہ روٹیشن مسلسل جاری رہے گی۔

آئین کے آرٹیکل 140-A کے تحت منتخب بلدیاتی اداروں کا قیام لازمی ہے۔ اس قانون کے تحت بلدیاتی اداروں کے چیئرمین کی 6ماہ بعد تبدیلی سے منتخب اراکین کی اتھارٹی قائم نہیں ہوسکے گی اور کوئی بھی چیئرمین مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے بیوروکریسی کا محتاج ہوگا۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر 6 ماہ بعد آنے والے چیئرمین کی پالیسی مختلف ہوئی اور اس کی ترقیاتی منصوبوں کی ترجیحات مختلف ہوئیں تو اس طرح کے تضادات سے ترقی کا عمل متاثر ہوگا۔ پھر عجب منطق اس قانون میں شامل کی گئی ہے کہ پہلے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوںگے۔ سیاسی جماعتیں کسی امیدوار کو اپنا نمایندو نامزد نہیں کرسکیں گی، مگر ایک ماہ بعد ان نمایندوں کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔

سیاست سے دلچسپی رکھنے والا ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف بھی بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ 2024کے انتخابات کے وقت الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے اندرونی انتخابات کو تسلیم نہیں کیا تھا، اس بنا پر تحریک انصاف بطور پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکی تھی اور یوں پارٹی کے امیدواروں کے پاس کوئی نشان نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے، بعد میں ان آزاد ارکان نے سنی اتحاد کونسل جوائن کرلی تھی ۔ بعد میں پھر آئینی تنازعہ پیدا ہوا، یوں اب الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے تمام منتخب اراکینِ پارلیمنٹ کو آزاد ارکان قرار دیا ہے۔

 پنجاب کے بلدیاتی قانون کی اس شق کے تحت ہر منتخب رکن کو ایک ماہ بعد کسی نہ کسی جماعت ( الیکشن کمیشن کی رجسٹرڈ شدہ) میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی اور جو اراکین اس میں ناکام رہے تو انھیں اپنی نشست سے محروم ہونا پڑے گا۔ اس صورت میں ان اراکین کو منتخب کرنے والے ووٹرز کا بنیادی حق سلب ہوجائے گا۔ یہ طریقہ کار جمہوریت کے بنیادی اصولوں کی نفی ہوگا۔ اسی طرح اراکین کا مخصوص نشستوں کے امیدواروں کے انتخاب کا طریقہ کار بھی جمہوری اصولوں سے متصادم ہے۔ ان مخصوص نشستوں میں اقلیتوں کے نمایندوں کا بھی انتخاب شامل ہے۔ کچھ دانشوروں کا کہنا ہے کہ ہر ووٹرکو منتخب نشستوں کے امیدواروں کو منتخب کرنے کا حق ہے۔

سماجی کارکن پیٹر جیکب کی ساری زندگی مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے گزری ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے انسانیت کے لیے خدمات پر پیٹر جیکب کو خصوصی اعزازات سے نوازا ہے۔ پیٹر جیکب نے موجودہ قانون پر یوں غیر جانبدارانہ تبصرہ کیا ہے۔ ’’ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ2025 اس ضمن کے دیگر قوانین کے مقابلے میں اور شراکتی و جمہوری نمایندگی کے تمام تقاضے تو پورے نہیں کرتا لیکن مخصوص نشستوں پر انتخاب براہِ راست نہ ہونے میں کوئی مذہبی امتیاز نہیں پایا جاتا ہے۔ مذہبی امتیاز تب کہا جائے گا جب مذہب کی بنیاد پر ووٹ دینے یا امیدوار ہونے پرکوئی پابندی عائد کر دی جائے۔

جیسے صدر مملکت اور وزیرِاعظم کے چناؤکے لیے مذہبی اقلیتوں کے امیدوار ہونے پر پابندی آئین پاکستان کا حصہ ہے۔‘‘ پیٹر جیکب کے مختصر اور جامع تبصرے نے اس قانون کے افلاس کو آشکارکردیا ہے۔ شہروں کی ترقی پر تحقیق کرنے والے بہت سے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کے ماڈلز نے ترقی کے عمل کو تیز کیا اور غربت کا خاتمہ ہوا۔ دنیا بھر میں تمام جمہوری ممالک میں نچلی سطح تک اختیار کے بلدیاتی نظام نے نہ صرف شہروں کو ترقی دی بلکہ اس نظام کے ذریعے جمہوری نظام کو بھی استحکام حاصل ہوا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت برطانیہ کے سیاسی نظام کا جائزہ لیا جائے کہ برطانیہ میں ایک مضبوط پارلیمانی نظام قائم ہے۔ وزیر اعظم اورکابینہ مکمل طور پر بااختیار ہیں۔

اس نظام میں کاؤنٹی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، یہ کاؤنٹی تمام قسم کے شہری امور انجام دیتی ہیں۔ برطانیہ میں سیاسی قیادت بھی کاؤنٹی سے ابھرتی ہے۔ اس وقت برطانیہ میں سب سے طاقتور شخصیت وزیر اعظم کی ہوتی ہے مگر دوسرے نمبر پر لندن کے میئر ہوتے ہیں۔ لندن کے میئر کو ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں۔ لندن کے میئر پاکستانی نژاد صادق علی خان اتنے مضبوط ہیں کہ امریکا کے صدر ٹرمپ کی شدید مخالفت کے باوجود ان کے اختیارات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اتنا ہی طاقتور نیویارک کا میئر ہے۔

نیویارک کے میئر کے لیے ایک بھارتی نژاد مسلمان ظہرین ممدانی کامیاب ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ممدانی کو کمیونسٹ قرار دے کر انھیں ہرانے کی کوشش کی تھی۔ برطانیہ اور امریکا کا ہی ذکر کیا، چین میں بھی شہروں میں ترقی کی بنیاد کاؤنٹی کا نظام ہے۔ چین میں اس وقت 2ہزار 800 کاؤنٹی (ڈویژن) ہیں۔ یہ ڈویژن مکمل طور پر خود مختار ہیں۔ اس نظام کی بنیاد پر چین میں ترقی کی رفتار تیز ہوئی ہے۔

 ملک میں کئی غیر سرکاری تنظیموں کے اراکین جو جنوبی پنجاب کے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کام کررہے تھے کا کہنا تھا کہ ایک مؤثر بلدیاتی نظام کے ذریعہ سیلاب زدگان کی مدد کا کام زیادہ بہتر انداز میں ہوسکتا ہے۔ پھر جمہوری اداروں کو نئی قیادت فراہم کرنے کے لیے بھی بلدیاتی نظام ضروری ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ قیادت Visionaryذہن کی مالک ہے۔ پنجاب اسمبلی نے بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ دینے کی جو قرار داد منظورکی ہے، وہ ایک خوش آیند قدم ہے، وفاقی حکومت کو اس قرارداد پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ نچلی سطح تک کا بااختیار بلدیاتی نظام شہروں کی ترقی کا ضامن ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بلدیاتی اداروں بلدیاتی نظام الیکشن کمیشن تحریک انصاف نچلی سطح تک کے بلدیاتی کے امیدوار پیٹر جیکب قانون کے کا کہنا نے والے ماہ بعد کے میئر کے تحت کے لیے

پڑھیں:

کھپرو میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ،شہری پریشان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کھپرو (نمائندہ جسارت) کھپروشہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا، جگہ جگہ ریڑیاں اور رکشے جگہ روک لیتے ہیں، ٹریفک اہل کار چند سو روپے لے کر سائڈ میں بیٹھ جاتے ہیں، شہری پریشان ۔تفصیلات کے مطابق کھپرو کے مین روڈ پر ٹریفک جام معمول بن گیا، شہری پریشان جگہ جگہ سبزی فروش ریڑے رکشے کھڑے ہوتے ہیں ،پیدل چلنے والے بچے بوڑھے شہری سب کا جینا محال ہو گیا ہے ۔ٹریفک پولیس بھی ان کو ہٹاتی نہیں ہے۔سیون جی روڈ ہو یا ہتنگو روڈ میرپورخاص روڈ ہو یا سانگھڑ روڈ سارا سارا دن ٹریفک جام رہتا ہے اسکول ٹائم میں بچے بچیاں خواتین اساتذہ سب پریشان ہوتے ہیں مگر کھپرو کی نا اہل انتظامیہ نہ کام نہیں کرتی اور نہ کوئی ایکشن لیتی ہے۔ انکروچمنٹ مافیا کے خلاف کھپرو میں کوئی روڈ بچا ہوا نہیں جہاں مافیا نے پنجے نہیں گاڑھے ہوئے ہوں کچھ روز قبل میونسپل کمیٹی اسسٹنٹ کمشنر مختار کار سی ایم او انکروچمنٹ ختم کرانے نکلے مگر فوٹو گرافی کر کے اپنے اپنے دفتر جا بیٹھے، شہریوں کو ریلیف دینے میں ناکام رہے۔ شہریوں نے ایم این اے شازیہ مری ایم پی علی حسن ہنگورجو سے ترجیعی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

نمائندہ جسارت گلزار

متعلقہ مضامین

  • اشتر اوصاف کی آرٹیکل 243 میں ترمیم پر تجویز
  • بدعنوانی اور ووٹ چوری نے جمہوریت کو کمزور کیا ہے، پرینکا گاندھی
  • 27 ویں ترمیم مسئلہ نہیں، بلدیاتی نظام سمیت کئی اقدامات پر عملدرآمد چاہتے ہیں،خالد مقبول
  • 27 ویں آئینی ترمیم، کیا حکومت کے نمبرز پورے ہیں؟
  • کیا آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو اپوزیشن یا جے یو آئی ارکان کی حمایت درکار ہوگی؟
  • ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود ظہران ممدانی کامیاب، ’کیا امریکی صدر کمزور ہورہے ہیں؟‘
  • بدل دو نظام، تحریک
  • کھپرو میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ،شہری پریشان
  • ہم تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں: ظہران ممدانی، میئر منتخب ہوئے تو فنڈز نہیں دوں گا: ٹرمپ