اشتر اوصاف کی آرٹیکل 243 میں ترمیم پر تجویز
اشاعت کی تاریخ: 5th, November 2025 GMT
سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم کے حوالے سے تجویز دی ہے کہ ایک چیف آف ڈیفنس اسٹاف ہونا چاہیے، جس کے نیچے تمام فورسز کے ادارے ہوں۔
’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں اشتر اوصاف علی نے فیڈرل کورٹ بنانے کی بھی تجویز دی جو کہ ہر صوبے میں ہو۔
انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹس میں کیسز کی بات کوئی نہیں کر رہا، یہاں اصلاحات کریں، فیڈرل کورٹ ہر صوبے میں ہونی چاہیے، پوری دنیا میں ہیلتھ کا مسئلہ انشورنس سے منسلک ہے، ہیلتھ کو آئین میں بطور بنیادی حق کے تسلیم کیا جائے۔
سابق اٹارنی جنرل اشترا وصاف کا کہنا ہے کہ ملک میں صوبائی و ضلعی محتسب کے نظام کو فعال کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا آئین بہت سارے ممالک کے آئین سے بہتر ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتا۔
اسی پروگرام میں تحریکِ انصاف کے بیرسٹر عمیر نیازی نے کہا کہ اشتر اوصاف کی تجویز ایک عملی بات ہے، اس طرح دو متوازی سپریم کورٹس رہیں گی، ایک صوبائی معاملات کے لیے اور ایک فیڈرل کے لیے۔
یہ بھی پڑھیے فیصلے بند کمروں میں نہیں کھلی عدالت میں ہوتے ہیں، اشتر اوصافانہوں نے کہا کہ آئینی بینچ بنا کر بھی مسائل آ رہے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ یہ معاملات سپریم کورٹ نہ سنے، اگر صحت کا شعبہ وفاق کو واپس چلا گیا تو ہیلتھ کارڈ بند ہو جائے گا، پاکستان میں یونیورسل ہیلتھ انشورنس کی ضرورت ہے۔
بیرسٹر عمیر نیازی نے کہا کہ ہم نے اپوزیشن لیڈر کے نام دیے ہوئے ہیں، یہ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں، پہلے یہ تو فیصلہ کر لیں جو آئین موجود ہے اس پر عمل ہو رہا ہے، کیا ہم آئین کی خلاف ورزی دیکھتے رہیں اور آگے بڑھ جائیں؟
پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن نے مطالبہ کیا کہ 27 ویں آئینی ترمیم پر پارلیمان میں کم از کم ایک ماہ بحث ہونی چاہیے جو براہِ راست بھی دکھائی جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسکول اور اسپتال پرئیویٹائز کر لیں تو پھر حکومت کا کیا کام ہے؟ صوبوں میں بلدیاتی نظام کے بغیر نظام ڈیموکریٹک نہیں بیوروکریٹک چل رہا ہے، ضلع اور تحصیل کو پیسے نہیں دیتے اور مجسٹریٹی نظام لاگو کر رہے ہیں۔
ندیم افضل چن نے کہا کہ عدالتی نظام ڈیلیور نہیں کر رہا ہے، اصلاحات ضروری ہیں، عوام کے درمیان جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ عدالتی نظام گر چکا ہے، پارلیمان میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ بیوروکریسی کے سامنے اصلاحات کر سکے، بحث اور مشاورت کے بعد فیصلے ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی فیڈریشن کو مضبوط اور قائم رکھنا بھی ضروری ہے، پی ٹی آئی کے پاس بہترین موقع ہے کہ ترمیم پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ شریک ہو، پی ٹی آئی کا بطور اپوزیشن جماعت حق بنتا ہے کہ ترمیم پر فعال کردار ادا کرے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اشتر اوصاف نے کہا کہ
پڑھیں:
27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ، این ایف سی اور فوجی کمان سے متعلق کون سی اہم ترامیم تجویز کی جائیں گی؟
حکمراں جماعت مسلم لیگ ن اور اتحادی پیپلزپارٹی کے درمیان آئینی ترمیم پر مشاورت جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا 27ویں ترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم واپس ہونے جا رہی ہے؟
وی نیوز کے ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم میں عدلیہ، این ایف سی ایوارڈ، صوبائی خودمختاری، مسلح افواج کی کمان اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سمیت متعدد آئینی دفعات میں بنیادی تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہیں تاہم فی الحال حتمی تجاویز پر اتفاق نہیں کیا جا سکا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 160، شق 3A، آرٹیکل 213، آرٹیکل 243، آرٹیکل 191A اور آرٹیکل 200 سمیت کئی اہم دفعات میں ترامیم شامل ہیں۔
ان کا کہنا مزید کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں ایک جامع آئینی پیکج متعارف کرائے جانے کا امکان ہے کہ جس کا مقصد عدلیہ، وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کے توازن کو ازسر نو متعین کرنا اور گورننس کے نظام کو مؤثر بنانا ہے۔
ذرائع کے مطابق 27ویں ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 160 اور اس کی شق 3A میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے جس کے ذریعے صوبوں کے وفاقی محصولات میں حصے کی آئینی ضمانت ختم کر دی جائے گی۔
مزید پڑھیے: 27ویں آئینی ترمیم کے اثرات انتہائی خطرناک ہوں گے، منظور نہیں ہونے دیں گے، اپوزیشن اتحاد
18ویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو محصولات کا طے شدہ حصہ دیا جاتا تھا جو صوبائی خودمختاری کی ایک بڑی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق نئی ترمیم کے تحت وفاق کو محصولات کی تقسیم میں زیادہ لچک اور فیصلہ سازی کا اختیار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
آئینی ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 191A کے تحت ایک آئینی عدالت (Constitutional Court) کے قیام کی سفارش کی جائے گی، یہ عدالت آئینی نوعیت کے مقدمات، وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات اور آئین کی تشریح سے متعلق امور پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔
اس اقدام کا مقصد سپریم کورٹ کے بوجھ میں کمی اور آئینی معاملات کو الگ دائرہ کار میں لانا بتایا جا رہا ہے اس کے علاؤہ آرٹیکل 200 کے تحت ہائی کورٹ کے ججز کی منتقلی کے طریقہ کار میں تبدیلی کی سفارش کی گئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ آئینی عدالتوں کی قیام کی بات 26ویں ترمیم کے وقت بھی کی گئی تھی لیکن اس وقت مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئینی عدالتوں کے قیام کی جگہ آئینی بینچ تشکیل دے دیا جائے جس پر آئینی بینچ کی تشکیل کی گئی تھی تاہم اب ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ آئینی بینچ کے ذریعے مسائل کا حل نہیں ہوا اس لیے آئینی عدالتوں کا ہی قیام کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: محسوس ہوتا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو چکا، ملک محمد احمد خان
ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم میں ضلعی سطح پر ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے نظام کی بحالی کی تجویز بھی شامل ہے جس کے تحت انتظامی افسران کو محدود عدالتی اختیارات دیے جائیں گے تاکہ ضلعی سطح پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔
18ویں ترمیم کے بعد تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے محکمے صوبوں کو منتقل کیے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق اب 27ویں ترمیم میں تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی دوبارہ وفاق کے ماتحت کرنے کی تجویز زیر غور ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ پورے ملک میں یکساں تعلیمی نصاب نافذ کیا جا سکے اور آبادی کے انتظامی منصوبوں میں ہم آہنگی پیدا ہو۔
ذرائع کے مطابق آرٹیکل 243 میں بھی اہم تبدیلی کی تجویز زیر غور ہے جس کے ذریعے آرمی چیف کو دیے گئے فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی حیثیت دینے اور اسے آئین کا باقاعدہ حصہ بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 213 میں ترمیم بھی زیر غور ہے جس میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی تجویز ہے تاکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والے تعطل کو ختم کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے اس ضمن میں بتایا ہے کہ 27ویں ترمیم پر بات چیت جاری ہے تاہم باضابطہ کام ابھی شروع نہیں ہوا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
18 ویں ترمیم 27 ویں ترمیم آئینی پیکج پیپلز پارٹی ن لیگ