ا سلام آ باد(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستانی پاسپورٹ بتدریج ترقی کے بعد ٹاپ 100 پاسپورٹس میں شامل ہوگیا، ہینلے پاسپورٹ انڈیکس کی جانب سے سال 2025 کی رینکنگ جاری کردی گئی، پاکستانی پاسپورٹ پر شہری 32 ممالک میں ویزا فری سفری سہولت بھی حاصل کر سکیں گے۔
ڈان نیوز کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس میں سنگاپور کا پاسپورٹ دنیا بھر میں سرفہرست رہا ہے، جاپان اور جنوبی کوریا کا پاسپورٹ مشترکہ طور پر دوسرے اور ڈنمارک کا پاسپورٹ تیسرے نمبر پر ہے۔فن لینڈ، فرانس، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی اور سپین کے پاسپورٹس نے بھی مشترکہ طور پر تیسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ترکیہ کا پاسپورٹ 49، چین کا 64 اور بھارت کا پاسپورٹ 82ویں نمبر پر ہے۔یمن، عراق، شام اور افغانستان بالترتیب 100، 101، 102 اور 103 نمبر پر ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ سال کی پاسپورٹ رینکنگ میں پاکستان کا پاسپورٹ دنیا میں آخری 4 پاسپورٹس میں شامل تھا، ایک سال کے دوران بتدریج پاکستانی پاسپورٹ کی رینکنگ میں 2 درجے بہتری آئی ہے، یہ بہتری عالمی سطح پر پاکستان کے امیج میں نمایاں تبدیلی کا اشارہ ہے۔
ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) پاسپورٹس کی جانب سے پاسپورٹ رینکنگ میں بہتری پر قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وزیر داخلہ محسن نقوی و سیکرٹری داخلہ کے خصوصی تعاون پر مشکور ہیں۔
ڈی جی پاسپورٹس کا کہنا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ میں جدید سیکیورٹی فیچرز متعارف کروائے گئے ہیں، ای پاسپورٹس ہولڈرز کے لیے جلد تمام ائیرپورٹس پر ای گیٹس کی سہولت میسر ہوگی۔
پاسپورٹ بنوانے کے لیے آنے والوں کو جدید سہولتوں کے تحت بروقت ڈیل کیا جا رہا ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر میں پاسپورٹ بیگ لاک مکمل طور پر صفر ہے، اوورسیز پاکستانیوں کے لیے آن لائن پاسپورٹ سروسز بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاسپورٹ آسان فیس ایپ کے ذریعے فیس سیکنڈز میں ادا کی جا سکتی ہے، جلد ہی پاسپورٹ ایپ کے ذریعے شہری گھر بیٹھے پاسپورٹ بنوا سکیں گے، وزارت داخلہ کے تعاون سے پاسپورٹ رینکنگ میں بہتری کا سفر جاری رہے گا۔

لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں ہیلتھ کارڈ کی سہولت ختم کر دی گئی

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: پاکستانی پاسپورٹ کا پاسپورٹ

پڑھیں:

پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب رواں

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ بھارت اب بھی خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے پر بضد ہے، پاکستان واضح کرچکا ہے کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ، امریکی صدر ٹرمپ کا انتہائی ممنون ہے جن کی اسٹرٹیجک لیڈر شپ کی بدولت نہ صرف انڈیا پاکستان جنگ رکی بلکہ دنیا میں جاری بہت سی جنگوں کو روکا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر بھارت کا کوئی اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک نامکمل بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔

 فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکا حالیہ دورہ امریکا قومی اور بین الاقوامی سیاست کے موجودہ تناظر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ نہ صرف عسکری سطح پر تعلقات کی بہتری کی کوششوں کا آئینہ دار ہے بلکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے امور پر عالمی سطح پر مؤثر آواز اٹھانے کی ایک مدبرانہ کوشش بھی ہے۔

ان کا امریکی دارالحکومت میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب، صرف ایک رسمی ملاقات نہیں تھی بلکہ یہ ایک مکمل ریاستی بیانیے کا اعلان تھا جس میں پاکستان کی داخلی و خارجی ترجیحات، چیلنجز اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے خدوخال کو واضح کیا گیا۔

 پاکستانی کمیونٹی سے دوران خطاب انھوں نے عالمی اور علاقائی خطرات پر بھی کھل کر بات کی۔ ان کا سب سے توانا اور دو ٹوک موقف بھارت کی پالیسیوں اور خفیہ ایجنسی RAW کی سرگرمیوں کے خلاف تھا۔ انھوں نے بھارت کی نام نہاد ’’ وشوا گرو‘‘ پالیسی کو ایک مصنوعی دعویٰ قرار دیا اور کہا کہ بھارت نہ صرف اپنے اندرونی معاملات میں شدت پسندی کو ہوا دے رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔

اس ضمن میں انھوں نے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل، قطر میں آٹھ بھارتی نیول افسران کا معاملہ اورکلبھوشن یادیو جیسے واقعات کا حوالہ دے کر واضح کیا کہ بھارت کی سرحد پار دہشت گردی کی سرگرمیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ ان واقعات کی فہرست پاکستان کے اُس دیرینہ مؤقف کی تصدیق ہے جس میں وہ عالمی برادری کو مسلسل خبردار کرتا رہا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔

 یہ بیانیہ صرف ایک الزام نہیں بلکہ ایک سفارتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو متحرک کرنا ہے تاکہ بھارت کی دوغلی پالیسیوں کو بے نقاب کیا جاسکے۔ آج دنیا میں خارجہ پالیسی صرف دو طرفہ ملاقاتوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بیانیہ سازی ایک اہم آلہ کار بن چکا ہے۔ فیلڈ مارشل نے عالمی ضمیرکو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ بھارت کا اصل چہرہ اب مزید چھپایا نہیں جا سکتا اور بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے دو ٹوک مؤقف اختیارکرے۔

 اس خطاب کا ایک اور اہم پہلو حالیہ بھارتی جارحیت پر فیلڈ مارشل کا موقف تھا، جس میں انھوں نے کہا کہ بھارت نے ’’ شرمناک بہانوں‘‘ کے تحت پاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی اور معصوم شہریوں کو شہید کیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے اس اشتعال انگیزی کا پُرعزم اور بھرپور جواب دیا اور وسیع تر تنازعہ کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے،کیونکہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، لیکن اپنی خود مختاری اور قومی وقار کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔

 فیلڈ مارشل نے دوٹوک انداز میں کہا کہ کسی بھی نئی بھارتی جارحیت کا ’’منہ توڑ جواب‘‘ دیا جائے گا۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب کسی قسم کی نرمی یا معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرے گا۔ ماضی میں پاکستان کو بارہا ایسے چیلنجزکا سامنا رہا جہاں بھارت نے طاقت کے استعمال کا مظاہرہ کیا، مگر اب پاکستان ایک باوقار اور مضبوط ریاست کے طور پر اپنے دفاعی نظریے کو عالمی سطح پر پیش کر رہا ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستانی قیادت اب محض ردعمل دینے پر یقین نہیں رکھتی، بلکہ ایک فعال اور جارحانہ سفارتی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے۔

خطاب کا سب سے اہم اور جذباتی پہلو کشمیر کے مسئلے پر دیا گیا بیان تھا۔ فیلڈ مارشل سیدعاصم منیر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ ایک نامکمل بین الاقوامی ایجنڈا ہے، جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ انھوں نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اس تاریخی قول کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ یہ بیان صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ موجودہ تناظر میں ایک بھرپور سیاسی پیغام ہے۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد پاکستان نے جس مؤثر انداز میں بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو اجاگر کیا ہے، فیلڈ مارشل کا یہ بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ ان کا یہ موقف عالمی ضمیر کو ایک بار پھر متوجہ کرتا ہے کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کوئی علیحدگی پسندی نہیں بلکہ حقِ خودارادیت کی قانونی، آئینی اور انسانی بنیادوں پر کی جانے والی تحریک ہے جسے کسی صورت دبایا نہیں جا سکتا۔

خطاب میں فیلڈ مارشل نے ایک دلچسپ اور قابلِ غور نکتہ یہ بھی اٹھایا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کلیدی کردار ادا کیا اور ان کی ’’ اسٹرٹیجک لیڈر شپ‘‘ نے نہ صرف انڈیا پاکستان جنگ کو روکا بلکہ دنیا میں جاری کئی دیگر تنازعات کو بھی کم کرنے میں مدد دی۔

اگرچہ یہ بیان کچھ حلقوں کے لیے حیران کن ہو سکتا ہے، لیکن بین الاقوامی تعلقات میں جذبات سے زیادہ حقیقت پسندی کو اہمیت دی جاتی ہے، اگر کسی وقت امریکا نے تعمیری کردار ادا کیا، تو اس کا اعتراف بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا تنقید کا اظہار۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ دنیا کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھا جائے اور فیلڈ مارشل کے اس بیان سے بھی یہی جھلکتا ہے۔اس پورے خطاب کا خلاصہ اگر نکالا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض ایک دفاعی ادارے کے سربراہ کا بیان نہیں تھا، بلکہ یہ ایک مکمل قومی بیانیہ تھا جو ملکی سالمیت، خود مختاری، کشمیرکاز، عالمی سفارت کاری اور قوم سے ربط کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔

فیلڈ مارشل نے اپنی گفتگو میں صرف حالیہ خطرات کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کی مستقبل کی سمت بھی واضح کی۔ انھوں نے پاکستان کے مضبوط دفاع، مستحکم معیشت اور خود دار خارجہ پالیسی کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو آج کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں اندرونی سیاسی عدم استحکام، معاشی مسائل اور عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی جیو پولیٹیکل کشمکش شامل ہیں۔

 انھوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کی خدمات اور ان کی علمی و فنی مہارت کو تسلیم کرتے ہوئے ’’برین ڈرین‘‘ کے بجائے ’’برین گین‘‘ کی اصطلاح استعمال کی، جو ایک نہایت مثبت اور مستقبل بین سوچ کی نمایندگی ہے۔ یہ جملہ صرف ایک فقرہ نہیں، بلکہ ایک سوچ کا اظہار ہے کہ پاکستان اپنے ہنرمند، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت شہریوں کو ایک بوجھ نہیں بلکہ ایک اثاثہ سمجھتا ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔ یہ بیان اُن لاکھوں پاکستانیوں کے دل کو چھو گیا جو اپنے وطن سے دور ہو کر بھی اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے ہیں اور ملکی ترقی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

ان کے حالیہ بیانات اور اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ قومی وحدت، آئینی بالادستی اور جمہوری تسلسل کے حامی ہیں۔ انھوں نے افواجِ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو مضبوط کرتے ہوئے عوام سے بھی قربت بڑھائی ہے، تاکہ فوج اور قوم کے درمیان اعتماد اور یکجہتی کا رشتہ مزید مضبوط ہو۔ جنرل عاصم منیر صرف ایک سپہ سالار نہیں، ایک ایسے وژنری رہنما ہیں جو پاکستان کے مستقبل کو ایک باوقار، پُرامن اور مضبوط ریاست کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ان کی قیادت میں قوم کو امید ہے کہ ریاستی ادارے مضبوط ہوں گے، جمہوریت مستحکم ہوگی اور دشمن کے ہر وار کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

بلاشبہ پاکستانی کمیونٹی کو مخاطب کرتے ہوئے، فیلڈ مارشل کا انداز ایک قومی رہنما کا تھا، جو صرف دفاعی پالیسی بیان نہیں کر رہا بلکہ ایک فکری و نظریاتی موقف بھی دے رہا تھا۔ انھوں نے پاکستانی تارکینِ وطن کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ نہ صرف پاکستانی ثقافت کے سفیر ہیں بلکہ اپنے طرزِ عمل، کامیابیوں اور اخلاقیات کے ذریعے پاکستان کا چہرہ دنیا کو دکھاتے ہیں۔ اس پیغام کے ذریعے انھوں نے عالمی سطح پر پاکستان کے سافٹ امیج کو فروغ دینے کی کوشش کی، جو آج کے دور میں کسی بھی قوم کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ستون بن چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا غرور 10 مئی کو غرق ہوگیا، وزیراعظم
  • تیسرا ون ڈے: پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان میچ کا ٹاس ہوگیا
  • کویت نے جی سی سی رہائشیوں کو ویزہ آن ارائیول کی سہولت دیدی
  • پرو ہاکی لیگ میں شرکت سے پاکستان کی عالمی رینکنگ میں اضافہ ہوگا، سابق قومی کپتان
  • پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب رواں
  • 6 کروڑ نوجوانوں کو ملکی تعمیر و ترقی میں شامل کرنا بڑا چیلنج
  • عرب میڈیا بھی پاکستانی ڈراموں کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا
  • آئی سی سی کی نئی ون ڈے رینکنگ میں پاکستان ٹیم کی تنزلی
  • ملکی آزادی کا احترام خون میں شامل، ترقی کیلئے ہمیشہ مصروف رہیں گے: خالد مقبول
  • ملک کی آزادی کا احترام ہمارے خون میں شامل، ترقی کیلئے ہمیشہ مصروف رہیں، خالد مقبول