Jasarat News:
2025-11-03@14:42:45 GMT

سسٹم میں رہ کر نہیں توڑ کر پاکستان کو بچائیں

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کوئی بھی حکمران، حکومت پر براجمان سیاسی جماعت یا طاقت کے نشے میں چور کوئی بھی گروہ، جب بھی ایک مرتبہ ظلم و درندگی پر اُتر آتا ہے تو پھر اس کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے روز بروز اپنی فرعونیت میں اضافہ در اضافہ کرتا چلا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دلوں پر حکومت ہمیشہ وہ لوگ، جماعتیں، گروہ اور حکمران ہی کرتے ہیں جو اخلاق، کردار، عدل اور انصاف کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ، جماعتیں، گروہ اور حکمران ہوتے ہیں جو دنیا سے اٹھ بھی جائیں تو مرتے دم تک لوگ ان کو یاد کر کرکے روتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس جب کوئی حکمران ہی کیا، ایک عام فرد بھی ظلم و تشدد، وحشت و درندگی یا فرعونیت پر اتر آتا ہے تو پھر اس کے لیے لازم ہوتا چلا جاتا ہے کہ وہ اپنی وحشت و دہشت میں اضافہ در اضافہ کرتا چلا جائے۔

المیہ یہ ہے کہ وہ ظالم، فرعونیت کے کسی مقام پر ٹھیر بھی نہیں سکتا۔ جس مقام پر بھی وہ ٹھیرنے کی کوشش کرے گا یا یہ ارادہ کرے گا کہ وہ اس سے زیادہ ظلم نہ توڑے تو پھر وہ تمام لوگ جو اس کے ظلم و ستم سہتے رہے ہیں، اس کے خلاف متحد ہونا شروع ہوتے جائیں گے اور پھر ایک وقت وہ آئے گا کہ لوگ اس کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیں گے۔

ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ روز بروز انحطاط کا شکار ہوتا جا رہے۔ گلی گلی چھینا جھپٹی کی وارداتوں میں اضافہ در اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات بھی نہایت عام ہوتی جا رہی ہے کہ لوٹ مار کے موقع پر اگر کوئی مزاحمتی عمل سامنے آتا ہے تو جرائم پیشہ لوگ قتل کر دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ لوٹ مار، چھینا جھپٹی یا ڈاکا زنی ایک ایسی لعنت ہے جس سے باہر نکلنے والی ساری گلیاں اور راستے بند ہوتے ہیں۔ آغاز چھینا جھپٹی سے ہوتا ہے اور مزاحمت پر اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے کی جان تک لے لینے کی نوبت آجاتی ہے۔ ایک مرتبہ بھی کوئی بڑا جرم سرزد ہوجائے تو پھر جرم کرنے والے کی زندگی کا انحصار دوسرے کی جان لے لینے پر ہی رہ جاتا ہے۔ اگر مجرم کسی ایک مقام پر بھی اپنا ہاتھ روکنا چاہے تو پھر اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جرم سے ہاتھ روک لینے کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ یا تو وہ قانون کے ہاتھوں مارا جائے یا پھر اس فرد یا افراد کے ہاتھوں مارا جائے جن کو وہ لوٹنے کے لیے آیا ہے۔ ایسے مجرم کے لیے ایک مصیبت یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر وہ ہر قسم کے جرم سے کنارہ کشی کرکے بیٹھ جائے تو اس کے گروہ کے ساتھی اسے اس لیے مار دیتے ہیں کہ کہیں وہ ان کی مخبری نہ کر دے۔ گویا جرم کے اس راستے کو اختیار کرنے والے کی زندگی نہ صرف جرم سے مسلسل وابستگی ہی میں پوشیدہ ہوتی ہے بلکہ اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ اسی جرم میں مزید پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جائے۔ یہی حال فرعونیت پر اتر آنے والے حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ جب کوئی بھی حاکم عدل و انصاف کے راستے کو چھوڑ کر ظلم و درندگی کی راہ اختیار کرتا ہے تو پھر وہ کسی بھی مقام پر ٹھیر ہی نہیں سکتا۔ اس کی حکمرانی کا دار و مدار روز روز نئے نئے کار ہائے فرعونیت ایجاد کرنے پر ہی ہوتا ہے۔

تاریخ میں کوئی بھی ایسا فرعون صفت حکمران یا طاقت کے نشے میں چور کوئی گروہ ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنی فرعونیت کو کسی مقام پر روک لیا ہو کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ اس کا ٹھیر جانا خود اس کے اور اس کی بدمعاشی کے لیے موت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ موجودہ دور میں ملکوں کی سطح پر امریکا و اسرائیل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں ممالک اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب ان کی بقا کا دار و مدار ان کی مسلسل درندگی ہی میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان کی صورت حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ یہاں حکمرانی میں تشدد کا آغاز 1958 سے شروع ہوا۔ 1971 میں یہ اپنے ایسے عروج پر پہنچا کہ آدھا ملک اپنے ہاتھوں برباد کرنا پڑ گیا۔ شاید عبرت حاصل کرنے سے باقی ماندہ پاکستان عدل و انصاف اور جمہوریت کا گہوارہ بن جاتا لیکن یہ کسی طور بھی ممکن نہیں کہ ظلم و نا انصافیاں اپنے رویے میں تبدیلیاں لا سکیں لہٰذا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے اور اب آہستہ آہستہ یہ عالم ہوتا جا رہا ہے کہ ایک کانسٹیبل کی سطح کا اہل کار بھی اپنی آپ کو سالار اعظم سمجھنے لگا ہے۔ بڑھتی ہوئی فرعونیت جب تک غرقاب دریا نہیں ہوجاتی یا نہیں کردی جاتی، اس وقت تک یہ عذابِ الٰہی کی صورت میں مسلط ہی رہتی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایسی فرعونیت خدا کا خوف دلانے سے ختم ہو جائے گی تو سیدنا موسیؑ تو اللہ کے نبی تھے، جب ان کے سمجھانے اور ڈرانے سے فرعون باز نہیں آیا تو ہمارے سجدہ ریز علما کے سمجھانے سے یہ سمجھ لینا کہ حالات بدل سکتے ہیں، دیوانے کی بڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

جب تک ہمارے سارے رہنمایانِ قوم یہ فیصلہ نہیں کر لیتے کہ ہر قسم کی فرعونیت کا خاتمہ کرنے کے لیے جب تک ہم وہی راستہ اختیار نہیں کریں گے جو رسول اللہ ؐ نے اختیار کیا تھا اس وقت تک تضیع اوقات کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ سسٹم میں رہتے ہوئے نہیں، سسٹم کو توڑ کر باہر نکلنے سے ہی کچھ ہوگا۔ انگریزوں اور ہندوؤں کے بنائے ہوئے سسٹم کو توڑا تھا تو پاکستان بنا تھا لہٰذا ظلم و درندگی کے بنائے گئے اس سسٹم کو توڑیں گے تو پاکستان بچ سکتا ہے ورنہ لگے رہو، ووٹ دیتے رہو، جلتے کڑھتے رہو، ریلیاں اور جلوس نکالتے رہو اور اخبارات، ریڈیو ٹی وی پر بیانات داغتے رہو اس سے کسی بھی فرعون کی صحت پر ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے تو پھر کوئی بھی کے علاوہ ہے کہ وہ ہوتا ہے نہیں کر ا ہے تو ہیں کہ پھر اس کے لیے

پڑھیں:

طورخم بارڈ غیرقانونی افغان باشندوں کی واپسی کے لیے کھولا گیا، کوئی تجارت نہیں ہورہی، خواجہ آصف

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کو مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے، تاہم مشرقی محاذ پر اسے شکست اٹھانا پڑی ہے اور اسی سبب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ دفاع نے کہاکہ طورخم بارڈر غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کے لیے کھولا گیا ہے، وہاں کسی قسم کی تجارت نہیں ہو رہی۔ ان کے مطابق بے دخلی کا عمل جاری رہنا ضروری ہے تاکہ یہ افراد دوبارہ اسی بہانے پاکستان میں نہ رک سکیں۔ اس محاذ پر ثالثی کے مثبت نتائج آنے کی امید ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری، اب تک کتنے پناہ گزین واپس جا چکے؟

خواجہ آصف نے واضح کیاکہ اس وقت تمام عمل، حتیٰ کہ ویزا پروسیسنگ بھی معطل ہے اور جب تک مذاکرات مکمل نہیں ہو جاتے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پہلی مرتبہ افغان شہریوں کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر زیرِ بحث آیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ترکیہ اور قطر ثالثی کا کردار خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہیں۔ ماضی میں افغانستان غیر قانونی افغان باشندوں کو اپنا مسئلہ تسلیم نہیں کرتا تھا اور اسے پاکستان کا داخلی مسئلہ قرار دیتا رہا، تاہم اب یہ ذمہ داری بین الاقوامی سطح پر واضح ہو گئی ہے۔

وزیرِ دفاع نے بتایا کہ ترکیہ میں ہونے والی گفتگو میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ اگر افغان سرزمین سے کوئی غیر قانونی سرگرمی سامنے آئی تو اس کا ازالہ افغانستان کو کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کسی خلاف ورزی میں ملوث نہیں، امن کی خلاف ورزی افغانستان کی جانب سے کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان یہ تاثر دے رہا ہے کہ ان امور میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کردار ادا کر رہی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ثالثی میں چاروں ممالک کے اسٹیبلشمنٹ نمائندے موجود ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کے عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ وہ اس صورتحال سے زیادہ متاثر ہیں۔ پوری قوم، سیاسی قیادت اور ریاستی ادارے ایک پیج پر ہیں اور چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ہو، یہی واحد حل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر دونوں ممالک مہذب اور بہتر تعلقات برقرار رکھ سکیں تو یہ دونوں کیلئے فائدہ مند ہوگا۔ افغانستان کی جانب سے تفریق پیدا کرنے کی کوشش واضح ہے اور دنیا اسے سمجھ رہی ہے۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں پاکستان نے جو نقصان اٹھایا وہ مشترکہ تاریخ کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی، کیا اہداف حاصل ہو گئے؟

خواجہ آصف نے مزید کہاکہ بھارت کی پراکسی سرگرمیوں کے شواہد اشرف غنی کے دور سے موجود ہیں، اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ثبوت دینا بھی ضروری نہیں رہا کیونکہ عالمی سطح پر اس حقیقت کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ تاہم ضرورت پڑنے پر پاکستان ثبوت پیش کرےگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پاک افغان جنگ ثالثی طورخم بارڈر غیرقانونی باشندے نریندر مودی وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو
  • تلاش
  • طورخم بارڈ غیرقانونی افغان باشندوں کی واپسی کے لیے کھولا گیا، کوئی تجارت نہیں ہورہی، خواجہ آصف
  • دہشتگردی پاکستان کیلئے ریڈ لائن ، اسپر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، بیرسٹر دانیال
  • دہشت گردی پاکستان کےلیے ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، بیرسٹر دانیال چوہدری
  • افغان طالبان نے جو لکھ کر دیا ہے ، اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچے گا: طلال چوہدری
  • پاکستانی فاسٹ بولر نے جیت ماں کے نام کر دی