Jasarat News:
2025-09-18@20:55:30 GMT

سسٹم میں رہ کر نہیں توڑ کر پاکستان کو بچائیں

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کوئی بھی حکمران، حکومت پر براجمان سیاسی جماعت یا طاقت کے نشے میں چور کوئی بھی گروہ، جب بھی ایک مرتبہ ظلم و درندگی پر اُتر آتا ہے تو پھر اس کے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے روز بروز اپنی فرعونیت میں اضافہ در اضافہ کرتا چلا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دلوں پر حکومت ہمیشہ وہ لوگ، جماعتیں، گروہ اور حکمران ہی کرتے ہیں جو اخلاق، کردار، عدل اور انصاف کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ، جماعتیں، گروہ اور حکمران ہوتے ہیں جو دنیا سے اٹھ بھی جائیں تو مرتے دم تک لوگ ان کو یاد کر کرکے روتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس جب کوئی حکمران ہی کیا، ایک عام فرد بھی ظلم و تشدد، وحشت و درندگی یا فرعونیت پر اتر آتا ہے تو پھر اس کے لیے لازم ہوتا چلا جاتا ہے کہ وہ اپنی وحشت و دہشت میں اضافہ در اضافہ کرتا چلا جائے۔

المیہ یہ ہے کہ وہ ظالم، فرعونیت کے کسی مقام پر ٹھیر بھی نہیں سکتا۔ جس مقام پر بھی وہ ٹھیرنے کی کوشش کرے گا یا یہ ارادہ کرے گا کہ وہ اس سے زیادہ ظلم نہ توڑے تو پھر وہ تمام لوگ جو اس کے ظلم و ستم سہتے رہے ہیں، اس کے خلاف متحد ہونا شروع ہوتے جائیں گے اور پھر ایک وقت وہ آئے گا کہ لوگ اس کو نشانِ عبرت بنا کر رکھ دیں گے۔

ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ روز بروز انحطاط کا شکار ہوتا جا رہے۔ گلی گلی چھینا جھپٹی کی وارداتوں میں اضافہ در اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بات بھی نہایت عام ہوتی جا رہی ہے کہ لوٹ مار کے موقع پر اگر کوئی مزاحمتی عمل سامنے آتا ہے تو جرائم پیشہ لوگ قتل کر دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ لوٹ مار، چھینا جھپٹی یا ڈاکا زنی ایک ایسی لعنت ہے جس سے باہر نکلنے والی ساری گلیاں اور راستے بند ہوتے ہیں۔ آغاز چھینا جھپٹی سے ہوتا ہے اور مزاحمت پر اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے کی جان تک لے لینے کی نوبت آجاتی ہے۔ ایک مرتبہ بھی کوئی بڑا جرم سرزد ہوجائے تو پھر جرم کرنے والے کی زندگی کا انحصار دوسرے کی جان لے لینے پر ہی رہ جاتا ہے۔ اگر مجرم کسی ایک مقام پر بھی اپنا ہاتھ روکنا چاہے تو پھر اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جرم سے ہاتھ روک لینے کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ یا تو وہ قانون کے ہاتھوں مارا جائے یا پھر اس فرد یا افراد کے ہاتھوں مارا جائے جن کو وہ لوٹنے کے لیے آیا ہے۔ ایسے مجرم کے لیے ایک مصیبت یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر وہ ہر قسم کے جرم سے کنارہ کشی کرکے بیٹھ جائے تو اس کے گروہ کے ساتھی اسے اس لیے مار دیتے ہیں کہ کہیں وہ ان کی مخبری نہ کر دے۔ گویا جرم کے اس راستے کو اختیار کرنے والے کی زندگی نہ صرف جرم سے مسلسل وابستگی ہی میں پوشیدہ ہوتی ہے بلکہ اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ اسی جرم میں مزید پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جائے۔ یہی حال فرعونیت پر اتر آنے والے حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ جب کوئی بھی حاکم عدل و انصاف کے راستے کو چھوڑ کر ظلم و درندگی کی راہ اختیار کرتا ہے تو پھر وہ کسی بھی مقام پر ٹھیر ہی نہیں سکتا۔ اس کی حکمرانی کا دار و مدار روز روز نئے نئے کار ہائے فرعونیت ایجاد کرنے پر ہی ہوتا ہے۔

تاریخ میں کوئی بھی ایسا فرعون صفت حکمران یا طاقت کے نشے میں چور کوئی گروہ ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنی فرعونیت کو کسی مقام پر روک لیا ہو کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ اس کا ٹھیر جانا خود اس کے اور اس کی بدمعاشی کے لیے موت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ موجودہ دور میں ملکوں کی سطح پر امریکا و اسرائیل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں ممالک اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب ان کی بقا کا دار و مدار ان کی مسلسل درندگی ہی میں پوشیدہ ہے۔ پاکستان کی صورت حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ یہاں حکمرانی میں تشدد کا آغاز 1958 سے شروع ہوا۔ 1971 میں یہ اپنے ایسے عروج پر پہنچا کہ آدھا ملک اپنے ہاتھوں برباد کرنا پڑ گیا۔ شاید عبرت حاصل کرنے سے باقی ماندہ پاکستان عدل و انصاف اور جمہوریت کا گہوارہ بن جاتا لیکن یہ کسی طور بھی ممکن نہیں کہ ظلم و نا انصافیاں اپنے رویے میں تبدیلیاں لا سکیں لہٰذا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے اور اب آہستہ آہستہ یہ عالم ہوتا جا رہا ہے کہ ایک کانسٹیبل کی سطح کا اہل کار بھی اپنی آپ کو سالار اعظم سمجھنے لگا ہے۔ بڑھتی ہوئی فرعونیت جب تک غرقاب دریا نہیں ہوجاتی یا نہیں کردی جاتی، اس وقت تک یہ عذابِ الٰہی کی صورت میں مسلط ہی رہتی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایسی فرعونیت خدا کا خوف دلانے سے ختم ہو جائے گی تو سیدنا موسیؑ تو اللہ کے نبی تھے، جب ان کے سمجھانے اور ڈرانے سے فرعون باز نہیں آیا تو ہمارے سجدہ ریز علما کے سمجھانے سے یہ سمجھ لینا کہ حالات بدل سکتے ہیں، دیوانے کی بڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

جب تک ہمارے سارے رہنمایانِ قوم یہ فیصلہ نہیں کر لیتے کہ ہر قسم کی فرعونیت کا خاتمہ کرنے کے لیے جب تک ہم وہی راستہ اختیار نہیں کریں گے جو رسول اللہ ؐ نے اختیار کیا تھا اس وقت تک تضیع اوقات کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ سسٹم میں رہتے ہوئے نہیں، سسٹم کو توڑ کر باہر نکلنے سے ہی کچھ ہوگا۔ انگریزوں اور ہندوؤں کے بنائے ہوئے سسٹم کو توڑا تھا تو پاکستان بنا تھا لہٰذا ظلم و درندگی کے بنائے گئے اس سسٹم کو توڑیں گے تو پاکستان بچ سکتا ہے ورنہ لگے رہو، ووٹ دیتے رہو، جلتے کڑھتے رہو، ریلیاں اور جلوس نکالتے رہو اور اخبارات، ریڈیو ٹی وی پر بیانات داغتے رہو اس سے کسی بھی فرعون کی صحت پر ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے تو پھر کوئی بھی کے علاوہ ہے کہ وہ ہوتا ہے نہیں کر ا ہے تو ہیں کہ پھر اس کے لیے

پڑھیں:

ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ

اسلام آباد: وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نےکہا ہےکہ  پیغام پاکستان” ملک کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کا نام ہے اور اس نے پورے ملک میں یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ریاست پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کا جہاد ممکن نہیں۔
قومی پیغام امن کمیٹی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اجلاس کے دوران کمیٹی کے تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پیغام پاکستان میں علما کرام کے متفقہ فتوے موجود ہیں جنہوں نے ریاست کے خلاف مسلح کارروائی کو غیر شرعی قرار دیا۔ عطاء اللہ تارڑ نے زور دیا کہ پیغام پاکستان نہ صرف دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ ہے بلکہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا بھی علمبردار ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان 27 ویں رمضان المبارک کی بابرکت شب کو وجود میں آیا، اور آج کے دور میں دو قومی نظریے کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں غیر مسلم کمیونٹی کا کردار تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
عطاء اللہ تارڑ نے عزم ظاہر کیا کہ قومی پیغام امن کمیٹی کے پیغام کو ملک کے ہر کونے تک پہنچایا جائے گا تاکہ امن، برداشت اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔ اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب، رنگ یا نسل نہیں ہوتا اور ان کے سہولت کار بھی دہشت گردی کے مجرم ہیں۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90 ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، اور ریاست ملک کے دفاع اور سالمیت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اورسعودی عرب کا دفاعی معاہدہ کسی ملک کیخلاف نہیں ،خواجہ آصف
  • فارم 47 والے پی پی کی کرپشن اور بیڈ گورننس کا نوٹس لے کر کراچی کو تباہ ہونے سے بچائیں، آفاق احمد
  • رینالہ خورد میں ہونے والا ٹرین حادثہ، تحقیقات میں اہم انکشافات
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • پی سی بی نے ایشیا کپ کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا، ترجمان
  • ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ
  • ملکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں :اسحاق ڈار
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ