Express News:
2025-07-10@03:42:50 GMT

وقت بہت کچھ دکھا رہا، تاریخ بن رہی ہے، شیر افضل مروت

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

لاہور:

سینئر سیاست دان شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جس کو وقتی طور پر شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ کوئی ان کی فتح ہے لیکن دیکھیں جس طرح یہ آپس میں لڑ پڑے ہیں ایسی سیٹیں لینے پہ وہ پارٹیاں جو جمہوریت کی دعوے دار بنی ہیں، کوئی مذہب کی دعوے دار ہیں، کوئی اخلاقیات کی باتیں کرتی تھیں اب وہ آپس میں لڑ رہی ہیں، وقت بہت کچھ دکھا رہا ہے اور یہ آج کی تاریخ بن رہی ہے اور لکھی جا رہی ہے۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ چھینا جھپٹی کا ماحول ہے، دنیا کے کسی ملک میں بھی معاشرے اس طرح کی چھینا جھپٹیوں سے ترقی نہیں پاتے ہیں۔ 

ماہر ماحولیات ملک امین اسلم نے کہا کہ 2022 میں بہت بڑی تباہی تھی ہمیں ڈویلپمنٹ فنانسنگ کی ترجیحات کو کلائمٹ چینج کی طرف منتقل کرنی چاہییں تھیں، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے متاثر ایک ملک ہے اور پچھلے دہائی سے جو ٹاپ ٹین ممالک ہیں ان میں اس کا شمار ہوتا ہے، ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ سردیوں میں بارشیں کم ہو رہی ہیں اور گرمیوں میں زیادہ ہو رہی ہیں، پچھلے سال سردیوں کی بارشیں ستر فیصد کم ہوئیں جس سے قحط سالی ہو گئی، جب اسی سال گرمیوں میں پچاس فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جس سے اربن فلڈنگ ہوئی۔ 

ماہر ماحولیات ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ ابھی تک ہم اس چیز کو سمجھ ہی نہیں پائے کہ ہمارا ہائیڈرولوجیکل سسٹم ہے کیا، ہمارے ہائیڈرولوجیکل سسٹم کے بارے مں جو فیصلہ سازی ہوتی ہے اس میں ہائیڈرولوجی کے اور واٹر ریسورسز کے ایکسپرٹ نہیں بیٹھتے اس میں یا تو بیوروکریٹ بیٹھتے ہیں، یا سیاست دان بیٹھتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ سول انجنیئر بیٹھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان تنیوں میں سے کوئی بھی ہائیڈرولوجی اور واٹر ریسورسز کا ایکسپرٹ نہیں ہوتا، آپ کے پاس اس وقت جو سب سے بڑا قحط ہے وہ علم کا ہے اور ماہرین کا ہے،  سمندر میں پانی کا جانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا آپ کے جسم میں پانی کا جانا ضروری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے کہا کہ ہے اور

پڑھیں:

سیاسی افواہیں

آج کل سیاست میں ویسے تو کچھ نہیں ہو رہا، اس لیے یہ موسم سیاسی افواہوں کا بن گیا ہے۔ روزانہ ایک نئی سیاسی افواہ، ایک نئی سیاسی سازش مارکیٹ میں آجاتی ہے اور پھر اس پر گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔

سیاسی افواہ یا سیاسی سازش جو مارکیٹ میں آجکل بہت عام ہے، ان میں دو افواہیں مارکیٹ میں موجود ہیں۔جن پر یار لوگ دور دور کی کوڑیاں لا کر اپنا من و رنجن کرتے ہیں۔ ان میں پہلی یہ کہ صدر مملکت آصف علی زرداری اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں، دوسری افواہ کا لب و لباب یہ ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر صدر مملکت بن رہے ہیں۔

اب ان دونوں افواہوں کاجائزہ لیتے ہیں۔پہلے تو یہ دیکھوں گا کہ کیا واقعی صدر مملکت آصف علی زرداری کے مستعفی ہونے کا کوئی چانس یا امکان موجود ہے۔ اﷲ تعالیٰ انھیںاچھی  صحت اورلمبی زندگی عطا کرے،موجودہ صورت حال میں تو مجھے صدر مملکت آصف علی زرداری کے مستعفی ہونے کا کوئی چانس نظر نہیں آرہا۔ان کی صحت بھی اچھی ہے اور سیاسی مشکل بھی کوئی نہیں ہے۔

اب اگلا سوال یہ ہے کہ وہ اپنے اس قابل احترام عہدے سے کیوں مستعفی ہوں گے؟عہدہ چھوڑ کر انھیں کیا حاصل ہو جائے گا؟ اگر اقتدار کے کھیل کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو ایک ہی صورت بنتی ہے جس میں وہ موجودہ نظام حکومت کو چھوڑنے کا ارادہ یا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ اگر بلاول بھٹو زرداری کے وزیر اعظم بننے کا کوئی چانس بنتا نظر آئے اور صدر آصف زرداری کی صدارت بلاول کی وزارت عظمیٰ کی راہ میں رکاوٹ ہو ۔اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو ان کے مستعفی ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن موجودہ پارلیمانی سیٹ اپ میں ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا۔

اب ایک اور مفروضہ بنا لیتے ہیں۔ یعنی کیا پیپلزپارٹی تحریک انصاف کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت بنانے کا سوچ رہی ہے؟ اس میں پہلی بات یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ جب تک اسٹبلشمنٹ کی آشیر باد نہ ہو ، یہ ممکن نہیںہو سکتا۔ یہ بات آصف زرداری سے بہتر کون جانتا ہے۔ پھر اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ کیا بانی پی ٹی آئی ، بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بننے کے لیے ووٹ ڈال دیں گے؟ آج کی تاریخ تک دیکھیں تو یہ بھی نا ممکن نظر آرہا ہے۔

بانی پی ٹی آئی بلاول بھٹو زرداری کو اپنے ووٹوں سے ملک کا وزیراعظم کیوں بنائیں گے؟وہ تب ہی ووٹ ڈالیں گے جب انھیں کچھ مل رہا ہوگا۔بانی پی ٹی آئی جو کچھ مانگ رہے ہیں وہ فی الحال تو ممکن نہیںہے۔ اس لیے آج تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کا اتحاد بھی ممکن نہیں ہے۔ اس میں دونوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ پیپلز پارٹی کو نقصان ہی نقصان ہے۔ اس لیے یہ سب مفروضے اور خواہشات تو ہو سکتی ہیں۔ لیکن عملی سیاست میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

ابھی بلاول بھٹو زرداری کے وزیر اعظم بننے کا کوئی چانس نہیں تو صدر مملکت آصف علی زرداری کے مستعفی ہونے کا بھی کوئی چانس نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس دو صوبوں کی حکومت ہے۔ سندھ اور بلوچستان اگر پیپلزپارٹی موجودہ نظام سے علیحدہ ہوتی ہے تو سب سے پہلے بلوچستان کی حکومت جائے گی، پھر مرکزی حکومت جائے گی۔ یہ دونوں حکومتیں گرا کر پیپلزپارٹی کو کیا حاصل ہو جائے گا۔ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت قائم رہے گی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی قائم رہے گی۔ اور کے پی میں تحریک انصاف کی قائم رہے گی۔

اگر صدر مملکت آصف علی زرداری کے مستعفی ہونے کے بعد مرکزی حکومت بچ گئی یعنی میاں شہباز شریف نے اپنے نمبر پورے کر لیے تو پیپلز پارٹی کے دونوں گورنرز کی بھی چھٹی ہو جائے گی۔یوں معاملات فائدے کے بجائے نقصان میں جا سکتے ہیں۔ اس لیے شاید کچھ ملنے کا تو چانس کم ہے لیکن کافی کچھ چلے جانے کا چانس زیادہ ہے۔ سیاست میں زرداری صاحب نے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ انھیںبڑی اچھی طرح معلوم ہے کہ کون سا پتہ کس جگہ اور کس وقت کھیلنا ہے۔اس لیے فی الحال موجودہ پارلیمانی سیٹ اپ کو نہ کوئی خطرہ ہے اور نہ کسی کے مستعفی ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔

 جہاں تک فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے صدر مملکت آصف علی زرداری بننے کی افوا کا تعلق ہے۔ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، ویسے بھی یہ بات ذہن میں رکھیں، صدر مملکت کا عہدہ پاکستان کے آئین میں کوئی با اختیار عہدہ نہیں۔ صدر مملکت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ سارے اختیار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے پاس ہیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کے پاس ایسا کونسا اختیار ہے جو فیلڈ مارشل حاصل کرنا چاہیں گے؟ کوئی نہیں۔ اس لیے مجھے ان کے صدر بننے کی بات افواہ سے زیادہ ایک سیاسی مذاق ہی لگتی ہے۔

ایک اور افواہ جو مارکیٹ میں آئی ہے، وہ یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے۔ یہ بھی مذاق ہی ہے۔یہ تو ذہن میں رکھیں کہ وہ رکن قومی اسمبلی نہیں ہیں، وہ سنیٹر ہیں۔ پاکستان کے موجودہ آئین میں سنیٹر وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔ سنیٹ کے رکن کے وزیر اعظم بننے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ ملک میں کوئی سیاسی بحران بھی نہیں۔ بلکہ سیاسی بحران تو اسٹبلشمنٹ نے خود ختم کیے ہیں۔ سیاسی افواہیں حقیقت نہیں ہوتیں۔ یہ تفریح کے لیے بھی ہوتی ہیں۔

ان کا اکثر حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ آج تک یہ طے کرنا مشکل رہا ہے کہ یہ افواہیں کون پھیلاتا ہے۔ کیا سیاسی افوہیں پھیلانے کا کوئی مربوط نظام موجود ہے۔ کیا یہ کوئی فیکٹری ہے۔ لیکن اکثر جب سیاست بے موسم ہوتی ہے، سیاست میں جمود آجائے تو افواہوں کی فیکٹری اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔ آجکل بھی افواہوں کا موسم ہے۔ آپ اس موسم کو انجوائے کریں۔ گفتگو کریں، تھک جائیں تو یہ یاد رکھیں، یہ صرف افواہیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ندیم افضل چن نے صدر مملکت آصف علی زرداری کے استعفے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دے دیا۔
  • سیاسی افواہیں
  • تمام ممالک یکم اگست تک محصولات کی تعمیل کریں، تاریخ تبدیل نہیں کریں گے ،صدرٹرمپ
  • ’اب مذاکرات نہیں ہوں گے‘، عمران خان نے حکومت مخالف تحریک کے لیے تاریخ کا اعلان کردیا
  • لکی مروت: بم ڈسپوزل اسکواڈ نے 18 کلو وزنی آئی ڈی بم ناکارہ بنا دیا
  • پاکستان میں بجلی کا استعمال کم ہے، اس لیے قیمت زیادہ ہے، وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری
  • اپوزیشن وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف تحریک نہیں لاسکتی،شیر افضل مروت
  • اے سی میں ڈرائی موڈ کیا کام کرتا ہے اور یہ کیسے بجلی کا بِل کم کرسکتا ہے؟
  • لکی مروت سے اغواہونے والے 3 سیکیورٹی اہلکاروں کی لاشیں برآمد