جرمانہ حل نہیں، کمائی بن گیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے حالیہ پریس بریفنگ میں بڑے فخر سے کہا کہ ’’ٹریفک جرمانے اتنے زیادہ ہونے چاہئیں کہ دوبارہ خلاف ورزی کا سوچا بھی نہ جائے‘‘ اور ساتھ بتایا کہ نیا قانون عدم ادائیگی کی صورت میں 21 روز بعد جرمانے کو دوگنا، 90 دن بعد ڈرائیونگ لائسنس منسوخ اور 180 دن بعد شناختی کارڈ بلاک کر دیا جائے گا۔ یہ اعلان سن کر پہلا سوال یہی بنتا ہے کہ سزا کا یہ کوڑا صرف عام شہریوں کی پیٹھ پر کیوں؟ خود پولیس کی صفوں میں چھپی وہی رشوت خور ’’کالی بھیڑیں‘‘ کن قوانین کے خوف سے کانپتی ہیں؟
یہاں محکمہ پولیس میں رشوتوں کی بات کی جائے تو ڈرائیونگ لائسنس برانچ میں آج بھی پکے لائسنس کی مد میں 12 سے 15 ہزار روپے، ایل ٹی وی لائسنس 20 سے 25 ہزار روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔ ٹریفک پولیس پورے ساؤتھ زون میں پرائیویٹ لوگوں کے ذریعے اسپتالوں میں آئے ہوئے کراچی کے شہریوں کی موٹر سائیکل اور گاڑیاں غیر قانونی طریقے سے اٹھا کر 250 سے 500 روپے طلب کرتی ہے۔ یہاں سندھ حکومت کے اگر ان اداروں کا ذکر کیا جائے جو رشوت سے پاک ہوں تو شاید کوئی ایک ایسا ادارہ نہ مل پائے جس میں رشوت کے بغیر شہری اپنا کوئی جائز کام کروا سکیں۔
پچھلے بارہ مہینوں میں کراچی ٹریفک پولیس نے شہریوں سے 1.
اسی عرصے میں کراچی کی سڑکوں نے امن کے بجائے خون اْگلا۔ 2024 کے دوران 9 ہزار کے قریب حادثات میں 775 جانیں گئیں اور 8,111 افراد زخمی ہوئے، جبکہ 2025 کے پہلے پانچ مہینوں ہی میں مزید 376 اموات اور 5,503 زخمی سامنے آ چکے ہیں۔ اگر خوف کا فارمولا اتنا ہی کارگر ہے تو یہ خوف زندگیاں کیوں نہیں بچا پا رہا؟ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر اصل موت کا پہیہ ٹینکر اور ڈمپر مافیا چلا رہی ہے۔
اسپتالوں کے ریکارڈ کے مطابق 2024 میں بھاری گاڑیوں، خصوصاً پانی کے ٹینکروں اور ڈمپروں نے قریباً 500 شہریوں کی جان لی اور 4,879 کو زخمی کیا۔ صرف رواں سال کے پہلے 151 دنوں میں بھاری گاڑیاں 120 اموات کی ذمے دار رہیں، جن میں پانی کے ٹینکر 26 جانیں لے گئے۔ پھر بھی آج تک کسی ایک ڈرائیور کو ایسی مثال بنا دینے والی سزا نہیں سنائی گئی جس کا خوف کل کے حادثے کو روک سکتا ہو۔
بد انتظامی یہی پر ختم نہیں ہوتی۔ گزشتہ برس عدالت ِ عالیہ کو بتایا گیا کہ غیرقانونی و ڈبل پارکنگ پر 49,075 ٹریفک ٹکٹ کاٹے گئے، مگر گرفتاری صرف 55 ہوئی۔ دوسری طرف میئر کراچی بار بار ڈرامائی اعلان کرتے رہے کہ 30 جون کے بعد سڑکوں پر کوئی چارجڈ پارکنگ نہیں ہو گی، مگر چارجڈ کا سلسلہ آج بھی شہر کی 25 ٹاؤنز اور 6 کنٹونمنٹس میں جاری ہے۔ چند روز قبل بھی سرکاری نوٹیفکیشن صرف 32 مقامات تک محدود نکلا، باقی پورا کراچی اب بھی پارکنگ مافیا کے رحم و کرم پر ہے۔
اسی منظرنامے میں سندھ حکومت کا ’’سیف سٹی پروجیکٹ‘‘ ایک اور متنازع پہلو بن کر سامنے آیا ہے۔ شہر میں جرائم پر قابو پانے اور سڑکوں کی نگرانی کے بلند بانگ دعوے اس منصوبے سے وابستہ کیے گئے، لیکن عملاً یہ منصوبہ شہریوں کی جیبوں پر ایک اور بوجھ بن چکا ہے۔ سیف سٹی کے نام پر اب شہریوں کو مہنگی ’’خصوصی نمبر پلیٹ‘‘ لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جن کی قیمت مارکیٹ میں 800 سے 1200 تک وصول کی جا رہی ہے۔ کراچی کے 80 فی صد سے زائد شہریوں نے صرف ٹریفک چالان سے بچنے کے لیے یہ نمبر پلیٹیں مہنگے داموں مارکیٹ سے بنوا کر لگائیں، مگر حکومت نے اس پر بھی قدغن لگا دی کہ نمبر پلیٹیں صرف ایکسائز آفس سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایکسائز کے دفاتر خود ’’سیف سٹی‘‘ کے نام پر بدترین بدنظمی اور رشوت ستانی کے مراکز بن چکے ہیں۔ شہری گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، مگر انہیں وقت پر پلیٹیں نہیں ملتیں۔ اگر کوئی رشوت دینے پر آمادہ ہو، تو فوراً کام ہو جاتا ہے، ورنہ ذلت اور خوار ہونے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ محکمہ ایکسائز کی کالی بھیڑیں عوامی خدمت کے بجائے انہیں آزمائش میں ڈال رہی ہیں، اور اس سارے نظام کے پیچھے جو نعرہ لگایا جا رہا ہے وہ ہے: ’’امن کے نام پر استحصال‘‘۔
تو منظر یہ ہے کہ شہریوں کی جیبوں سے اربوں نکلوائے جا رہے ہیں، پولیس کو انعامی شیئر ملنے کی امید ہے، صوبائی حکومت خزانے کی بھرائی پر مطمئن ہے، اور مافیا، چاہے وہ ٹینکر ہو، پارکنگ ہو یا خود وردی کے اندر چھپا بے خوف اہلکار ہو۔ نتیجہ وہی پرانا: حادثات بڑھتے ہیں، عوام کا اعتماد گھٹتا ہے۔
کراچی کے شہری قانون توڑنے کے شوقین نہیں؛ وہ بس ایک ایسے نظام کے طلب گار ہیں جہاں جرمانہ ’’کمائی‘‘ نہیں بلکہ حقیقی اصلاح کا ذریعہ ہو۔ جب تک ٹریفک پولیس کے احتساب، بھاری گاڑیوں کی سخت مانیٹرنگ، ایکسائز میں موجود رشوت خوروں کا صفایا اور پارکنگ مافیا کے خلاف عملی گہری ضربیں نہیں لگتیں، تب تک ’’ڈراؤ جرمانے‘‘ کا نسخہ صرف خزانے کو فربہ اور عوام کو مفلس کرے گا، سلامتی پھر بھی ویسی ہی نحیف رہے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: شہریوں کی
پڑھیں:
’کینیڈا کی سڑک پر ’ٹریفک جام‘ کا مزہ‘
کینیڈا کے ایک ہائی وے پر اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب ایک پک اپ ٹرک نے اپنا قیمتی ’میٹھا سامان‘ کو سڑک پر بکھیر دیا، جی ہاں، ہزاروں تازہ توڑی گئی بلیو بیریز سڑک پر گر گئیں اور یوں وہاں’ٹریفک جام‘ کا مطلب ہی بدل گیا۔
یہ بھی پڑھیں:آسٹریلیا میں اگائی جانے والی دنیا کی سب سے بھاری بلیو بیری نے ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا
مشین پولیس کے مطابق ایک سفید رنگ کی فورڈ پک اپ لوہیڈ ہائی وے اور وریں اسٹریٹ کے چوراہے پر رکی، لیکن جیسے ہی گاڑی دوبارہ چلی، اس پر لدا بلیو بیریز سے بھرے کریٹ دھڑام سے نیچے آ گرا۔
پولیس کے مطابق کئی کریٹ زمین پر گرنے سے ہزاروں بلیو بیریز ہائی وے پر بکھر گئیں، جس سے گاڑیوں کے پہیے پھسلنے لگے اور سڑک چپچپی ہو گئی۔
مشین پولیس کے اہلکار ’اس رسیلے حادثے‘ پر موقع پر پہنچے اور شاول کی مدد سے بیریز کو سڑک سے ہٹایا۔
یہ بھی پڑھیں:چکن، بلیو چیز، اسٹرابیری کے ساتھ بنا مزیدار پالک سلاد
پولیس نے مذاق میں سوشل میڈیا پر لکھا کہ:
شاید مشین پولیس اور فارمرز مارکیٹ مل کر کچھ نیا متعارف کرائیں جیسے: جیک نائف جیلی، پٹ ہول پریزَرو، اور سب سے مشہور ’ٹریفک جام‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلیو بیری ٹریفک جام کینیڈا مشین پولیس