data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(اسٹاف رپورٹر) آل پاکستان آرگنائزیشن آف اسمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹریز کراچی کے صدر محمود حامد نائب صدر جاوید عبداللہ سید نوید احمد اور جنرل سیکرٹری عثمان شریف نے چیف جسٹس سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ موٹر سائیکل کی اجرک والی نمبر پلیٹوں کی تبدیلی کے نام پر کراچی کے شہریوں اور تاجروں سے 8 ارب روپے کی سرکاری ڈکیتی کا نوٹس لیں اور اس کی اڑ میں پولیس کی رشوت ستانی اور لوٹ مار سے کراچی کے عوام اور تاجروں کو تحفظ فراہم کریں۔ اپنے مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا کہ کراچی کو حکمرانوں نے سونے کی چڑیا سمجھ لیا ہے اور انہیں پانی بجلی گیس ٹرانسپورٹ پختہ سڑکوں جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم کرنے کے باوجود ان کے اوپر نئے نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں حکومت نے شہر کی ان 32 لاکھ موٹر سائیکلوں پر اجرک والی نمبر پلیٹ بنوا کر لگانے کے نام پر 1850 روپے کی وصولی شروع کر دی ہے جبکہ ایجنٹ کو 2500 روپے دیے بغیر نمبر پلیٹ کا حصول ناممکن ہے حالانکہ ہر موٹر سائیکل سوار سے خریداری کے وقت حکومت موٹر سائیکل کاایڈوانس ٹیکس وصول کر لیتی ہے جس میں نمبر پلیٹ کے چارجز بھی شامل ہوتے ہیں اب دو بار نمبر پلیٹ کے چارجز وصول کرنا خلاف قانون ہے نئی نمبر پلیٹوں کے نام پر کراچی کے شہریوں سے 8 ارب روپے کے سرکاری بھتے کی وصولی شروع کر دی گئی ہے دوسری جانب کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ پچھلے سال جن لوگوں نے نمبر پلیٹوں کی درخواستیں دی تھی ان کی نمبر پلیٹیں ابھی تک نہیں تیار نہیں ہوئی ہیں اور حکومت نے اجرک والی نمبر پلیٹوں کے نام پر کراچی کی سڑکوں پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے ٹریفک پولیس گدوں کی طرح موٹر سائیکل سواروں پر جھپٹ رہی ہے ٹریفک پولیس نے سارے کام چھوڑ دیے ہیں موٹرسائیکلوں کے چالان کرنا انہیں ضبط کرنا صرف یہی مشغلہ ٹریفک پولیس کا رہ گیا ہے پولیس اور سرکاری اہلکارانہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے موٹرسائیکلوں کی ضبطی اور بھاری جرمانے کو بھی ظلم قرار دیا اور ان ظالمانہ قوانین و اختیارات کی واپسی کا مطالبہ کیا ۔اسمال ٹریڈرز کے رہنماؤں نے کہا کہ موٹر سائیکل غریب اور متوسط طبقے کی سواری ہے حکمرانوں نے پیٹرول اتنا مہنگا کر دیا ہے کہ شہر کے چھوٹے تاجر اپنی دکان کا سامان بھی ان موٹر سائیکلوں پر لاد کر لانے پر مجبور ہو گئے ہیں ،ٹریفک پولیس دیگر بہانوں کے ساتھ اجرک والی نمبر پلیٹ کی اڑ میں گدوں کی طرح موٹر سائیکل سواروں پر ٹوٹ پڑتی ہے اور ان کی جیبوں کی تلاشی لے کر ان سے لوٹ مار میں مصروف ہے ۔تاجر رہنماؤں نے کہا کہ اب یہ ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا اگر یہ ظالمانہ فیصلے واپس نہ ہوئے تو ڈی ائی جی ٹریفک کے دفتر کا گھیراؤ کریں گے اور اس وقت تک گھیراؤ ختم نہیں کریں گے جب تک ڈی آئی جی ٹریفک ان ظالمانہ فیصلوں کو واپس نہیں لے لیتے۔ اسمال ٹریڈرز کے رہنماؤں نے کہا کہ ساڑھے 3 کروڑ کے شہر میں 2،3 سو بسیں چلا کر حکمران سمجھتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہو گیا، عوام ٹرانسپورٹ کے مسئلے پر پریشان ہیں چنگچی رکشوں کو کراچی کی20 شاہراہوں پر بند کر کے عوام کو عذاب میں مبتلا کر دیا ہے دوسری جانب ان رکشوں پر پابندی سے اس صنعت سے وابستہ لاکھوں لوگوں کو فاقہ کشی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ تاجر رہنماؤں نے سوال کیا کہ جب آپ روزگار کے دروازے بند کریں گے تو کیا جرائم میں اضافہ نہیں ہوگا؟، اسمال ٹریڈرز کے رہنماؤں نے اس اہم مسئلے پر کراچی کے نام پر سیٹیں اور وزارتیں لینے والوں کی خاموشی کوبھی شرمناک قرار دیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اجرک والی نمبر پلیٹ اسمال ٹریڈرز ٹریفک پولیس موٹر سائیکل رہنماو ں نے ں نے کہا کہ کے نام پر کراچی کے پر کراچی

پڑھیں:

جرمانہ حل نہیں، کمائی بن گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے حالیہ پریس بریفنگ میں بڑے فخر سے کہا کہ ’’ٹریفک جرمانے اتنے زیادہ ہونے چاہئیں کہ دوبارہ خلاف ورزی کا سوچا بھی نہ جائے‘‘ اور ساتھ بتایا کہ نیا قانون عدم ادائیگی کی صورت میں 21 روز بعد جرمانے کو دوگنا، 90 دن بعد ڈرائیونگ لائسنس منسوخ اور 180 دن بعد شناختی کارڈ بلاک کر دیا جائے گا۔ یہ اعلان سن کر پہلا سوال یہی بنتا ہے کہ سزا کا یہ کوڑا صرف عام شہریوں کی پیٹھ پر کیوں؟ خود پولیس کی صفوں میں چھپی وہی رشوت خور ’’کالی بھیڑیں‘‘ کن قوانین کے خوف سے کانپتی ہیں؟

یہاں محکمہ پولیس میں رشوتوں کی بات کی جائے تو ڈرائیونگ لائسنس برانچ میں آج بھی پکے لائسنس کی مد میں 12 سے 15 ہزار روپے، ایل ٹی وی لائسنس 20 سے 25 ہزار روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔ ٹریفک پولیس پورے ساؤتھ زون میں پرائیویٹ لوگوں کے ذریعے اسپتالوں میں آئے ہوئے کراچی کے شہریوں کی موٹر سائیکل اور گاڑیاں غیر قانونی طریقے سے اٹھا کر 250 سے 500 روپے طلب کرتی ہے۔ یہاں سندھ حکومت کے اگر ان اداروں کا ذکر کیا جائے جو رشوت سے پاک ہوں تو شاید کوئی ایک ایسا ادارہ نہ مل پائے جس میں رشوت کے بغیر شہری اپنا کوئی جائز کام کروا سکیں۔

پچھلے بارہ مہینوں میں کراچی ٹریفک پولیس نے شہریوں سے 1.29 ارب روپے سے زائد جرمانے وصول کیے، جبکہ قواعد کے مطابق اس خطیر رقم کا 30 فی صد (تقریباً 360 کروڑ) بطور انعام اہلکاروں کو مل سکتا ہے۔ مگر

اسی عرصے میں کراچی کی سڑکوں نے امن کے بجائے خون اْگلا۔ 2024 کے دوران 9 ہزار کے قریب حادثات میں 775 جانیں گئیں اور 8,111 افراد زخمی ہوئے، جبکہ 2025 کے پہلے پانچ مہینوں ہی میں مزید 376 اموات اور 5,503 زخمی سامنے آ چکے ہیں۔ اگر خوف کا فارمولا اتنا ہی کارگر ہے تو یہ خوف زندگیاں کیوں نہیں بچا پا رہا؟ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر اصل موت کا پہیہ ٹینکر اور ڈمپر مافیا چلا رہی ہے۔

اسپتالوں کے ریکارڈ کے مطابق 2024 میں بھاری گاڑیوں، خصوصاً پانی کے ٹینکروں اور ڈمپروں نے قریباً 500 شہریوں کی جان لی اور 4,879 کو زخمی کیا۔ صرف رواں سال کے پہلے 151 دنوں میں بھاری گاڑیاں 120 اموات کی ذمے دار رہیں، جن میں پانی کے ٹینکر 26 جانیں لے گئے۔ پھر بھی آج تک کسی ایک ڈرائیور کو ایسی مثال بنا دینے والی سزا نہیں سنائی گئی جس کا خوف کل کے حادثے کو روک سکتا ہو۔

بد انتظامی یہی پر ختم نہیں ہوتی۔ گزشتہ برس عدالت ِ عالیہ کو بتایا گیا کہ غیرقانونی و ڈبل پارکنگ پر 49,075 ٹریفک ٹکٹ کاٹے گئے، مگر گرفتاری صرف 55 ہوئی۔ دوسری طرف میئر کراچی بار بار ڈرامائی اعلان کرتے رہے کہ 30 جون کے بعد سڑکوں پر کوئی چارجڈ پارکنگ نہیں ہو گی، مگر چارجڈ کا سلسلہ آج بھی شہر کی 25 ٹاؤنز اور 6 کنٹونمنٹس میں جاری ہے۔ چند روز قبل بھی سرکاری نوٹیفکیشن صرف 32 مقامات تک محدود نکلا، باقی پورا کراچی اب بھی پارکنگ مافیا کے رحم و کرم پر ہے۔

اسی منظرنامے میں سندھ حکومت کا ’’سیف سٹی پروجیکٹ‘‘ ایک اور متنازع پہلو بن کر سامنے آیا ہے۔ شہر میں جرائم پر قابو پانے اور سڑکوں کی نگرانی کے بلند بانگ دعوے اس منصوبے سے وابستہ کیے گئے، لیکن عملاً یہ منصوبہ شہریوں کی جیبوں پر ایک اور بوجھ بن چکا ہے۔ سیف سٹی کے نام پر اب شہریوں کو مہنگی ’’خصوصی نمبر پلیٹ‘‘ لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جن کی قیمت مارکیٹ میں 800 سے 1200 تک وصول کی جا رہی ہے۔ کراچی کے 80 فی صد سے زائد شہریوں نے صرف ٹریفک چالان سے بچنے کے لیے یہ نمبر پلیٹیں مہنگے داموں مارکیٹ سے بنوا کر لگائیں، مگر حکومت نے اس پر بھی قدغن لگا دی کہ نمبر پلیٹیں صرف ایکسائز آفس سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایکسائز کے دفاتر خود ’’سیف سٹی‘‘ کے نام پر بدترین بدنظمی اور رشوت ستانی کے مراکز بن چکے ہیں۔ شہری گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، مگر انہیں وقت پر پلیٹیں نہیں ملتیں۔ اگر کوئی رشوت دینے پر آمادہ ہو، تو فوراً کام ہو جاتا ہے، ورنہ ذلت اور خوار ہونے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ محکمہ ایکسائز کی کالی بھیڑیں عوامی خدمت کے بجائے انہیں آزمائش میں ڈال رہی ہیں، اور اس سارے نظام کے پیچھے جو نعرہ لگایا جا رہا ہے وہ ہے: ’’امن کے نام پر استحصال‘‘۔

تو منظر یہ ہے کہ شہریوں کی جیبوں سے اربوں نکلوائے جا رہے ہیں، پولیس کو انعامی شیئر ملنے کی امید ہے، صوبائی حکومت خزانے کی بھرائی پر مطمئن ہے، اور مافیا، چاہے وہ ٹینکر ہو، پارکنگ ہو یا خود وردی کے اندر چھپا بے خوف اہلکار ہو۔ نتیجہ وہی پرانا: حادثات بڑھتے ہیں، عوام کا اعتماد گھٹتا ہے۔

کراچی کے شہری قانون توڑنے کے شوقین نہیں؛ وہ بس ایک ایسے نظام کے طلب گار ہیں جہاں جرمانہ ’’کمائی‘‘ نہیں بلکہ حقیقی اصلاح کا ذریعہ ہو۔ جب تک ٹریفک پولیس کے احتساب، بھاری گاڑیوں کی سخت مانیٹرنگ، ایکسائز میں موجود رشوت خوروں کا صفایا اور پارکنگ مافیا کے خلاف عملی گہری ضربیں نہیں لگتیں، تب تک ’’ڈراؤ جرمانے‘‘ کا نسخہ صرف خزانے کو فربہ اور عوام کو مفلس کرے گا، سلامتی پھر بھی ویسی ہی نحیف رہے گی۔

 

متعلقہ مضامین

  • جرمانہ حل نہیں، کمائی بن گیا
  • سندھ حکومت کانمبر پلیٹس کے نام پراہل کراچی سے 6 ارب بٹورنے کامنصوبہ
  • موٹر سائیکل نمبر پلیٹوں کی جبری تبدیلی قبول نہیں ٗرشوت و کرپشن کا دھندا بند کیا جائے ٗ منعم ظفر
  • کراچی، ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ سے نوجوان جاں بحق
  • کراچی، ڈاکوؤں کی فائرنگ سے پولیس کا برطرف اہلکار زخمی
  • سندھ حکومت کانمبر پلیٹس کے نام پراہل کراچی سے 6 ارب بٹورنے کا منصوبہ،عوام میں اشتعال
  • کراچی میں نمبر پلیٹس تبدیل کرنے کے فیصلے کیخلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر 
  • نوجوانوں کو کچلنے والا سماجی رہنما ظفر عباس کا ڈرائیور گرفتار، گاڑی برآمد
  • نئی نمبر پلیٹ کا مسئلہ!