پاکستان نے مالی سال 25-2024کا اختتام ریکارڈ ترقیاتی اخراجات کے ساتھ کیا، وفاقی وزیراحسن اقبال
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 جولائی2025ء) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان نے مالی سال25-2024 کے دوران سخت مالی حالات کے باوجود ترقیاتی اخراجات میں تاریخی سنگِ میل عبور کر لیا ہے اور 1,146 ارب روپے خرچ کرتے ہوئے ملکی تاریخ کی بلند ترین ترقیاتی سرمایہ کاری کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔
جمعرات کو ماہانہ ترقیاتی رپورٹ کی تقریب رونمائی کے موقع پر خطاب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان نے مالی سال کے دوران سخت مالی حالات کے باوجود ترقیاتی اخراجات میں ایک تاریخی سنگِ میل عبور کر لیا ہے، اور ایک ہزار ارب روپے سے زائد کی رقم ترقیاتی مد میں خرچ کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے تقریباً 1,146 ارب روپے ترقیاتی اخراجات کی مد میں خرچ کیے، جو کہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔(جاری ہے)
احسن اقبال نے کہاکہ یہ ایک فخر کا لمحہ ہے اور قومی ترقی کو اولین ترجیح دینے کے عزم کا ثبوت ہے۔ پہلی مرتبہ پاکستان نے اپنے ترقیاتی بجٹ کا اس قدر اعلیٰ سطح پر استعمال یقینی بنایا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ کارنامہ ایسے وقت میں حاصل کیا گیا ہے جب شدید مالی دباؤ موجود تھا۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (PSDP) کا اصل ہدف 1,400 ارب روپے تھا، جو کہ معاشی دباؤ کے باعث کم ہو کر 1,100 ارب روپے تک آ گیا، لیکن اس میں سے 95 فیصد سے زائد بجٹ مؤثر انداز میں استعمال کیا گیا۔وزیرِ منصوبہ بندی نے کہا کہ یہ کارکردگی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ یہ حکومت واقعی ترقی دوست حکومت ہے۔ تمام وزارتوں اور منصوبہ بندی و ترقی ٹیم نے غیر معمولی جذبے سے کام کیا۔انہوں نے کہا کہ اگر اس سال ترقیاتی بجٹ کا خاطرخواہ استعمال نہ ہوتا تو اگلے مالی سال پر مالی بوجھ منتقل ہو جاتا، جہاں پی ایس ڈی پی کا حجم مزید کم ہو کر 1,000 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس یہ گنجائش نہیں تھی کہ 200 سے 300 ارب روپے بغیر خرچ کئے چھوڑ دیے جاتے، کیونکہ اس سے ترقیاتی منصوبوں پر بوجھ بڑھ جاتا۔ ہم نے نظم و ضبط اور باہمی تعاون سے اس صورتحال سے بچاؤ ممکن بنایا۔احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں معیشت کی روانی کا سب سے بڑا ذریعہ سرکاری ترقیاتی سرمایہ کاری ہے۔ جب حکومت یونیورسٹیوں، سڑکوں، توانائی، اور پانی جیسے بنیادی ڈھانچوں میں سرمایہ کاری کرتی ہے تو اس سے تعمیراتی شعبے، لاجسٹکس، سیمنٹ، اور میٹریل انڈسٹری میں ترقی آتی ہے، روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور نجی شعبہ بھی سرمایہ کاری کرتا ہے۔انہوں نے اس کامیابی کو وزیراعظم شہباز شریف کے فلیگ شپ منصوبے "اُڑان پاکستان" کے تحت معیشت میں مثبت تبدیلی سے بھی جوڑا۔احسن اقبال نے کہاکہ "اُڑان پاکستان کے تحت ہم معیشت میں ایک مثبت موڑ دیکھ رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی علامات میں سے ایک مہنگائی کی شرح ہے، جو کم ہو کر 4.5 فیصد پر آ گئی ہے ،جو گزشتہ 9 سال کی کم ترین سطح ہے۔ یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 23.4 فیصد کی کمی ہے، جو عالمی سطح پر بھی ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ترقیاتی اخراجات احسن اقبال نے انہوں نے کہا سرمایہ کاری ہے انہوں نے پاکستان نے ارب روپے نے کہاکہ مالی سال
پڑھیں:
وفاقی وزارتوں میں مالی بے ضابطگیاں، 1100 ارب روپے سے زائد کا نقصان
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے مالی سال 2023-24ء کی آڈٹ رپورٹ میں وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز میں سنگین مالی بے ضابطگیوں، قواعد کی خلاف ورزیوں اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کی نشاندہی کی ہے۔ رپورٹ میں 1100؍ ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں، نقصانات اور دیگر مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے، جو مالیاتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی، غیر مجاز ادائیگیوں اور ادارہ جاتی کنٹرولز کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔ رپورٹ میں سب سے سنگین معاملہ 35؍ لاکھ 90؍ ہزار ٹن گندم کی درآمد کو قرار دیا گیا ہے، جو اس وقت کی گئی جب ملک میں مقامی سطح پر وافر مقدار میں گندم موجود تھی۔ اس فیصلے سے 300؍ ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا، مقامی منڈی میں گندم کی بھرمار ہوئی اور کاشتکاروں کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ متعدد وزارتوں نے بجٹ کی منظوری کے بغیر اخراجات کیے، جو مالیاتی قواعد کی خلاف ورزی ہے؛کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ملازمین کو اضافی الاؤنسز کی مد میں زیادہ ادائیگیاں کی گئیں، جس سے قومی خزانے پر غیر ضروری بوجھ پڑا؛سول آرمڈ فورسز میں غیر مجاز ادائیگیاں اور خریداری میں بے قاعدگیاں ہوئیں؛نجی تعلیمی اداروں کی ریگولیٹری اتھارٹی میں ملازمین کو غیر قانونی تنخواہیں اور مراعات دی گئیں؛پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں غیر قانونی ادائیگیاں، بے ضابطہ معاہدے اور مالی بدنظمی کا انکشاف ہوا، اور غلط استعمال شدہ فنڈز کی ریکوری کی سفارش کی گئی؛ایویکیو ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ، جموں و کشمیر اسٹیٹ پراپرٹیز اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کی اراضی پر غیر قانونی قبضے کے واقعات سامنے آئے؛متعدد ادائیگیوں پر واجب الادا ٹیکس منہا نہ کرنے سے محصولات میں کمی اور ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی ہوئی۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 1.69؍ ارب روپے کی خوردبرد اور فرضی ادائیگیوں کے پانچ کیسز رپورٹ ہوئے؛689.48؍ ارب روپے کی 107؍ ریکوری کیسز کی نشاندہی کی گئی جن پر فوری اصلاحی اقدامات کی ضرورت ہے؛کمزور داخلی کنٹرول کے 39؍ کیسز رپورٹ ہوئے جو 160.39؍ ارب روپے سے جڑے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، درجنوں دیگر آڈٹ پیراز جن میں اندرونی کنٹرول کی ناکامی اور طریقہ کار کی خلاف ورزیاں شامل ہیں، انہیں مالی نظم و احتساب کی مینجمنٹ رپورٹ (MFDAC) میں شامل کیا گیا لیکن چونکہ ان کی مادی اہمیت کم تھی، لہٰذا انہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے روبرو پیش نہیں کیا گیا۔مالی بے ضابطگیوں کے ازالے کیلئے اے جی پی نے کئی اہم سفارشات پیش کی ہیں جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں: کوئی بھی سرکاری خرچ پارلیمانی منظوری کے بغیر نہ کیا جائے؛ضمنی گرانٹس صرف درست اندازے اور مالی سال میں جاری کی جائیں؛سنگین خوردبرد کے کیسز تحقیقاتی اداروں کو بھیجے جائیں؛تمام غیر خرچ شدہ بقایہ جات اور وصولیاں سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائیں؛داخلی آڈٹ اور کنٹرول کا نظام مضبوط کیا جائے؛ تمام ادارے آڈیٹرز کو مکمل ریکارڈ فراہم کریں؛اثاثوں کا باقاعدہ رجسٹر رکھا جائے اور سالانہ بنیادوں پر باضابطہ تصدیق کی جائے۔آڈیٹر جنرل کی 2023-24ء کی آڈٹ رپورٹ میں ملک میں سرکاری فنڈز کے نظم و نسق کی انتہائی تشویشناک منظر کشی کی گئی ہے۔ اربوں روپے کی بے ضابطگیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ادارہ جاتی اصلاحات، سخت نگرانی اور احتساب کے موثر نظام کی فوری ضرورت ہے تاکہ سرکاری فنڈز کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے اور وفاقی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہو۔ اس ضمن میں جب حکومت کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ آڈٹ رپورٹس ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سیز) میں زیر بحث آتی ہیں، جس کی صدارت پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر (پی اے و) کرتے ہیں۔ زیادہ تر آڈٹ مشاہدات ڈی اے سی کی سطح پر حل ہو جاتے ہیں اور انہیں پی اے سی کو منظوری کیلئے بھیجا جاتا ہے، جو عموماً ان کی توثیق کر دیتی ہے۔‘‘ ترجمان کا کہنا تھا کہ ان بے ضابطگیوں کو حتمی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ پی اے سی پہلے ہی تمام پرنسپل اکائونٹنگ افسران کو ہدایت دے چکا ہے کہ ڈی اے سی کے اجلاس ماہانہ بنیادوں پر منعقد کیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ آڈٹ اعتراضات ڈی اے سی کی سطح پر حل کیے جا سکیں۔
انصار عباسی