data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کے توانائی کے شعبے کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال نے عوام کو ایک اور مالی بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

ایک جانب مہنگی بجلی اور بے مہار لوڈشیڈنگ نے روزمرہ زندگی اجیرن بنا رکھی ہے تو دوسری طرف پاور سیکٹر کے ناقص انتظامات کے باعث صارفین کے کندھوں پر سیکڑوں ارب روپے کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے رکن رفیق احمد شیخ نے حالیہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سے متعلق فیصلے میں ایک تفصیلی اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے، جس میں بجلی کے پیداواری اور ترسیلی نظام میں پائی جانے والی سنگین خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جس کے مطابق توانائی کے شعبے میں موجود مسائل کو کئی بار اجاگر کیا گیا، لیکن متعلقہ ادارے تاحال اصلاحات کرنے سے قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔

انہوں نے اپنے نوٹ میں خاص طور پر گڈو پاور پلانٹ کی بندش کا ذکر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس فیصلے سے قومی خزانے کو تقریباً 116 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح جزوی لوڈ ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر عوام کو ایک ہی سال میں 37 ارب روپے کا اضافی مالی جھٹکا دیا گیا۔ یہ نقصانات محض انتظامی غفلت، ناتجربہ کاری اور ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔

انہوں نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عوام سے اس منصوبے کے لیے 75 ارب روپے وصول کیے گئے، لیکن اس کے ثمرات نہیں ملے۔ منصوبے کی بندش نے ایک اور دھچکا دیتے ہوئے سالانہ 35 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔

رفیق احمد شیخ کا کہنا ہے کہ اب یہ لازم ہے کہ نیلم جہلم کے سی ای او سے ہر ماہ فیول چارج ایڈجسٹمنٹ کی تفصیلی رپورٹ طلب کی جائے تاکہ جوابدہی کا عمل شروع ہو سکے۔

اس کے ساتھ ساتھ نیپرا کے رکن نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ملک میں جب بجلی کی طلب عروج پر ہوتی ہے، تو ایسے وقت میں سستے اور موثر پلانٹس جیسے اوچ ون اور اینگرو قادرپور کو بند کیوں کر دیا جاتا ہے؟ جبکہ مہنگے اور ناکارہ پاور پلانٹس کو چلایا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ صارفین کو بڑھتے ہوئے بلوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

نیپرا نے اب سسٹم آپریٹرز کو سختی سے ہدایت دی ہے کہ وہ بجلی کے پیداواری، ترسیلی اور مالیاتی اثرات پر مبنی مکمل رپورٹس پیش کریں تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے لائے جا سکیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک توانائی کا نظام شفاف، منظم اور جدید تقاضوں کے مطابق نہیں بنایا جائے گا، تب تک نہ صرف عام صارف کو نقصان ہوتا رہے گا بلکہ قومی معیشت بھی زوال کا شکار رہے گی۔

موجودہ نظام میں بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر شفافیت، استعداد کاری، اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر آنے والے مہینوں میں عوام کو بجلی کے بلوں میں مزید ہوشربا اضافے اور لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ارب روپے کا

پڑھیں:

ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا

وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عوام پر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم سندھ حکومت کے ای چالان سسٹم کے خلاف بول پڑے
  • کراچی کے پارک میں سیکڑوں مردہ کوؤں کی ویڈیو، اصل ماجرا سامنے آگیا
  • سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • صرف ایک سال میں 10 ہزار ارب روپے کا نیا بوجھ، حکومتی قرضے 84 ہزار ارب سے متجاوز
  • اسمارٹ میٹرز کی تنصیب کے کام کا آغاز کردیا گیا
  • پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگیا، حکومت نے عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈال دیا
  • ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
  • ملک بھر میں اسمارٹ میٹرنگ اصلاحات کا آغاز کردیا گیا
  • حکومت کا نیٹ میٹرنگ کی قیمت میں بڑی کمی پرغور
  • پاکستان کی آئی ایم ایف کو فاضل بجٹ کیلیے 200 ارب کے اضافی ٹیکس کی یقین دہانی