نیٹ ہائیڈل پرافٹ (NHP) پر وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان کی توانائی پالیسی ایک بار پھر وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلافات کا شکار ہو گئی ہے، اور اس بار معاملہ نیٹ ہائیڈل پرافٹ (NHP) کے طریقہ کار اور واپڈا کے پن بجلی منصوبوں کی ملکیت پر کھڑا ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کی نگرانی میں ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کا مقصد واپڈا، صوبائی حکومتوں، اور پاور پلاننگ اینڈ مانیٹرنگ کمپنی (PPMC) کے درمیان کسی قابل قبول حل تک پہنچنا ہے۔ اب تک کمیٹی کی پانچ میٹنگز ہو چکی ہیں، اور امید ہے کہ اگلی میٹنگ میں تمام فریق اپنی باقاعدہ سفارشات پیش کریں گے، جنہیں بعد ازاں مشترکہ مفادات کی کونسل (CCI) کے سامنے رکھا جائے گا۔
خیبر پختونخوا کا واضح مؤقف: ہمارا حق ہمیں دو
خیبر پختونخوا حکومت نے مؤقف اپنایا ہے کہ این ایچ پی کی ادائیگیاں “قاضی کمیٹی طریقہ کار” کے مطابق کی جائیں، جسے نہ صرف ماضی کی وفاقی کابینہ اور CCI نے تسلیم کیا تھا بلکہ سپریم کورٹ بھی اسے آئینی بنیاد فراہم کر چکی ہے۔
صوبائی حکومت نے تین بڑی تجاویز پیش کی ہیں:
وفاقی حکومت این ایچ پی کی ذمہ داری لے اور اس کی ادائیگی کو آئینی بنیادوں پر مستقل بنائے۔
واپڈا کے زیر ملکیت پن بجلی گھر متعلقہ صوبوں کو منتقل کیے جائیں تاکہ این ایچ پی کی رقم براہ راست وہاں جائے جہاں بجلی پیدا ہوتی ہے۔ واپڈا صرف آپریشن اور مینٹیننس کا کام سنبھالے۔
جب تک مستقل حل نہ نکلے، بجلی کے نرخ میں عارضی طور پر 1 روپے فی یونٹ اضافہ کر کے یہ فنڈ ایک خصوصی ایسکرو اکاؤنٹ کے ذریعے صوبوں کو منتقل کیے جائیں۔
صوبے نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ انہیں اپنے بجلی کے منصوبوں سے 1500 میگاواٹ تک بجلی وہیل کرنے کی اجازت دی جائے، اور پانی کے استعمال پر چارجز بڑھا کر 3 روپے فی یونٹ کیے جائیں۔
پنجاب کا اعتراض: اصولوں پر سمجھوتا نہیں ہوگا
دوسری جانب پنجاب حکومت نے اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق کمیٹی کا مینڈیٹ تبدیل کر دیا گیا ہے، جو اصل میں “طریقہ کار طے کرنے” کے لیے تھا، مگر اب اسے “متبادل ادائیگی کا طریقہ” بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو آئین کے آرٹیکل 161(2) کی خلاف ورزی ہے۔
پنجاب نے نشاندہی کی کہ قاضی کمیٹی طریقہ کار میں بجلی کی پیداواری لاگت کو تو شامل کیا گیا ہے، لیکن ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن اور کمرشل نقصانات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے، جو کہ مکمل تصویر پیش نہیں کرتا۔
پنجاب حکومت نے مزید کہا کہ بجلی کے پیداواری ذرائع میں تبدیلی آ چکی ہے — ماضی میں ہائیڈل کا حصہ 60 فیصد تھا جو اب گھٹ کر 23 فیصد رہ گیا ہے، جبکہ تھرمل ذرائع اب 70 فیصد سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ لہٰذا، سابقہ طریقہ کار اب موجودہ حقیقتوں کے مطابق نہیں رہا۔
مستقبل کا خدشہ: بجلی مزید مہنگی، قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہوا
ذرائع کے مطابق، سی سی آئی کے 41ویں اور 49ویں اجلاسوں میں اس امر پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ مستقبل میں بجلی کے نرخ 4.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: طریقہ کار حکومت نے کے مطابق بجلی کے گیا ہے
پڑھیں:
201 یونٹ پر مہنگی بجلی ؛ پاور کمیٹی کے اراکین نے سوال اٹھا دیے
201 یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کیلئے اہم خبر ،مہنگی بجلی اور زائد بلوں کی بھرمار،اراکین قومی اسمبلی نے بھی سوال اٹھا دیے ، وزیر توانائی نے عجب منطق پیش کردی
پاور کمیٹی کے رکن رانا حیات نے کہا ہم لوگوں کو کیا جواب دیں بجلی کب سستی ہوگی،؟ کچی آبادیوں اور ہاوسنگ سوسائیٹیوں میں بجلی کنکشن نہیں ہیں،کئی سوسائٹیاں 50 سالوں سے قائم ہیں لیکن وہاں بجلی نہیں ہے، ایسی جگہوں پر بجلی چوری ہو رہی ہے، ایک میٹر ساتھ 10 کنڈے ہوتے ہیں،
گاڑی کا چالان، وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے جنید صفدر کا ردعمل سامنے آگیا
وزیر برائے پاور اینڈ انرجی اویس لغاری نے کہا ہاوسنگ میں کنکشن تب لگتے ہیں جب وہاں کی مقامی اتھارٹی ڈیمانڈ کرے، مقامی اتھارٹی ڈیمانڈ کرے تو ہم کنیکشن دینے کے پابند ہیں ،ہم اس سے پہلے ایک اتھارٹی کا رول کیسے ادا کر سکتے ہیں،
،اویس لغاری نے کہا میرے لیے کنکشن دینا بہت آسان ہے اس سے بجلی زیادہ استعمال ہوگی،زیادہ بجلی استعمال ہوگی تو بجلی کے ریٹ کم ہو جائیں گے،بجلی کی قیمت اس لیے ہی زیادہ ہے کیونکہ بجلی کا استعمال کم ہے
رانا حیات نے کہا اس لیے سوسائیٹیوں میں کنکشن دیں تاکہ استعمال بڑھے، اویس لغاری نے جواب دیتے ہوئے کہایہ بجلی کے محکمے کا تو فائدہ ہے لیکن قومی نقصان ہے،اتھارٹیز سے ڈیمانڈ نوٹس بھجوا دیں ہم کنیکشن لگا دیں گے،500 ارب کی بجلی چوری نہیں ہے، بجلی چوری 250 ارب سالانہ ہے،
رکن کمیٹی رانا حیات نے کہا باقی بلوں میں ریکور نہ ہونے والی رقم ہے، ملک انور تاج نے کہا 200 یونٹ اور 201 یونٹ کا معاملہ آجکل لوگوں میں زیر بحث ہےملک انور تاج نے 200 اور 201 یونٹ پر بلوں میں فرق کا ایجنڈہ شامل کرنے کا مطالبہ کردیا ،ایجنڈہ شامل کیا جائے کہ ایک یونٹ کے فرق پر بل اتنا کیوں بڑھ جاتا ہے، رانا حیات نے کہا لائف لائن والے صارفین کو 200 یونٹ تک 5000 روپے بل آتا ہے،جیسے ہی 201 یونٹ ہوتے ہیں بل 15 ہزار ہو جاتا ہے، ایک یونٹ بڑھنے سے اگلے 6 ماہ تک وہ پروٹیکٹڈ صارف بھی نہیں رہتا، کم از کم اسی مہینے کیلئے نان پروٹیکٹڈ رکھ لیں چھ ماہ کیلئے کیوں، اویس لغاری نے جواب دیا کہ 200 یونٹ تک کے صارفین کو 80 فیصد ڈسکاونٹ دیا جا رہا ہے،ہم صارفین کو ریلیف کے حوالے سے مزید اقدامات بھی کریں گے،
ڈی جی ریسکیو خیبرپختونخوا شاہ فہد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا