کہنے کو یہ ایک مالی سال کے بجٹ کا آغاز ہے، مگر سننے والے کانوں میں یہ بجٹ نہیں، کفن کی سلائی کی آواز ہے۔ سرکاری کاغذوں میں اسے ’’ترقی کا منشور‘‘ کہا گیا ہے، مگر گلیوں میں یہ فاقہ زدہ چہروں کی آخری دعا بن چکا ہے۔
وزیر خزانہ ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ سجائے فرماتے ہیں ’’ہم نے عوام کو ریلیف دیا ہے‘‘ مگر وہ شاید کسی اور عوام کی بات کر رہے تھے ۔ کلف لگی شیروانیوں، پرتعیش عشرت کدوں ، اور خفیہ بینک اکائونٹس والے عوام کی!
ادھر، وہ عوام جن کے بچے فیس نہ دے سکیں، جن کی تنخواہیں صرف مہینے کے پہلے عشرے کی مہمان ہوتی ہیں، جن کے چولہے گیس سے نہیں، دعا کی آنچ سے جلتے ہیں ان کے لیے یہ بجٹ کفایت شعاری کا اعلان نہیں، بلکہ معاشی قتل کا پروانہ ہے۔ایک طرف ’’خود کفالت‘‘ کے نعرے، دوسری طرف آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن‘ ایک طرف ترقیاتی دعوے، دوسری طرف خالی پیٹوں پر پتھر باندھنے کی تنبیہ۔۔!
یہی وہ تضاد ہے جو اس بجٹ کو مالیاتی دستاویز نہیں، بلکہ متوسط طبقہ کا نوحہ بنا دیتا ہے یہ کیسا بجٹ ہے جومفلسوں سے لہو کا تقاضہ لئے ہے،تنخواہ دار کی جیب پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔
وزیر خزانہ2025-26 ء کا بجٹ پیش کر رہے تھے اور حکومتی بنچوں پر بیٹھے ارکان ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔جبکہ عوام کے چہروں پر ابھرتی ،پھیلتی شکنیں پسینے سے لبریز ہو رہی تھیں ۔ہندسوںکا وہی پرانہ کھیل شروع ہوا ،خوشنما لفظوں کا کھیل ،ادھورے حقائق کا کھیل ،متوسط طبقے کی قربانی کی طلب کا کھیل۔
2025-26 ء کا بجٹ جس میں دفاع کے لئے 2122 ارب روپے،ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے1500 ارب روپے،تعلیم کے لئے 110 ارب روپے ،صحت کیلئے35 ارب روپے رکھے گئے۔جبکہ تنخواہ دار طبقے کی پیٹھ پر 220 ارب روپے کا اضافی انکم ٹیکس لادا گیا ۔
وہ متوسط طبقہ جو ہر صبح چنگ چی یا موٹر سائیکل پر جانوروں کی طرح لادے اپنے بچے اسکول چھوڑتا اور اپنی اہلیہ کی خوشنودی کا سودا سلف خرید کر اس کی بارگاہ میں پیش کرتے ہوئے دفترپہنچتا ہے۔یہی وہ انسان نما جانور ہیں جو ہر مہینے روتے ،پیٹتے بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔
سرکارکی جانب سے انہیں یہ بھاشن دیا جاتا ہے کہ’’قربانی تم نے دینی ہے خوشحال ہم نے ہونا ہے‘‘ اور اب تو ترقی کے فربہ ہاتھی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں ہر سو بھوکے لوگ ہی دکھائی دیتے ہیں۔
ٹیکس نیٹ پر نظر ڈالیں تو 10پرسینٹ امیروں پر لاگو ہوتا ہے ،متوسط طبقہ اور تنخواہ دار 65 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ جبکہ 700 ارب روپے سالانہ ٹیکس چوری ہونے کی شرح ہے ، کاپوریٹ سیکٹر میں ہر بار تنخواہ دار طبقے کو کٹوتیوں کی بھینٹ چڑھا یا جاتا ہے ۔
مہنگائی کی موجودہ شرح 22.
کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ ’’ یہ بجٹ نہیں شام غریباں ہے ‘‘ ہاں البتہ سیاسی وعدوں کی چوسنیاں اور بجلی سستی کرنے کاخواب روز دکھا یا جاتا ہے ۔
ملک ہمارا، ملیں ہماری ،ادارے ہمارے محنت ہماری ،،حکومت ہمارے ووٹوں سے بنتی ہے اور بجٹ آئی ایم ایف تیار کرتا ہے ۔ پڑھتا ہمارا وزیر بے تدبیر ہے جو لفظوں کا خوبصورت جال ہوتا ہے۔ متوسط طبقے کا جنازہ جو ہر سال بڑی دھوم سے اٹھتا ہے آور لاشہ بیچ قبرستان کے بے کفن پھینک دیا جاتا ہے کہ’’ اگلے سال سہی‘‘ اور اگلا سال کس نے دیکھا ’’کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘‘ اب ایک نگاہ اپنے اور اپنے ارد گرد ممالک کی تعلیم اور تعلیمی بجٹ پر پاکستان آبادی تقریباً 24 کروڑ شرح تعلیم 58 فیصدبنگلہ دیش آبادی لگ بھگ 17 کروڑ شرح تعلیم 78 فیصدسری لنکا آبادی2.18 کروڑ شرح خواندگی 94 فیصدجنوبی کوریا آبادی 5.17 کروڑشرح خواندگی 99.5 فیصد۔
اب ذرا ان ممالک کا تعلیمی بجٹ ملاحظہ فرمائیں۔پاکستان۔وفاقی بجٹ میں صرف 97 ارب روپے رکھے گئے یعنی کل بجٹ 0.5 پرسینٹ بنگلہ دیش کل بجٹ کا7.97 فیصدسری لنکا کل بجٹ 6 ہزار ارب تعلیم کے لئے 232 ارب روپے جنوبی کوریا کل بجٹ 656بلین تعلیم کے لئے 13.3 فیصد ۔کیا ایسے ہوتی ہے غریب عوام کی خدمت؟یہی ہوتا ہے متوط طبقے کا خیال ؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تنخواہ دار ارب روپے جاتا ہے کے لئے کل بجٹ
پڑھیں:
سیلاب ،بارش اور سیاست
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔۔
ّ آج کل
کسی بھی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری ، غربت ،جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی میںاضافہ ہورہا ہو تو اس کی اہم ترین وجہ ناقص حکمرانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معیشت حفیظ پاشا نے پاکستان کے اسی قسم کے مسائل کی نشاندہی کی ہے موجودہ وقت میں کوئی بھی ذی شعور شخص حکومت کے ترقی اور استحکام کے دعوؤں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سیلاب نے مسائل کی شدّت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ حکومت کے قریبی تصور کیے جانے والے مبصر نجم سیٹھی کا بھی یہ کہنا ہے کہ ” موجودہ حکمرانوں کے خلاف عوام میں غصّہ اور نفرت کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ”۔ ملک میں قدرتی آفت ہو یابیرونی جارحیت ہو اس صورت حال کا مقابلہ حکومت اور عوام مل کر کرتے ہیں۔ عوام کا اعتماد حکومت کو حاصل نہ ہو تو متاثرہ لوگوں کی بحالی میں رکاوٹ ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں موجودہ سیلاب کی تباہ کاری میں عوام کو متحرک کرکے امدادی کام کرنے والی تنظیموں کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات سامنے آرہے ہیں۔ یہاں تک کہ امدادی کاموں میں بھی مبینہ بدعنوانی کا تذکرہ تک کیا جارہاہے۔
معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو بدعنوانی نچلی سطح تک جا پہنچتی ہے۔ مختلف فلاحی اور سیاسی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں انتظامیہ دبائو ڈال رہی ہے کہ ہر امدادی سامان کی تھیلی پر پنجاب کی وزیر اعلیٰ کی تصویر لگائی جائے جس کی وجہ سے بعض مقامات پر مختلف تنظیمیں اور افراد امدادی کاموں میں حصّہ لیے بغیر واپس چلے گئے۔ اس قسم کی اطلاعات سے امدادی کاموں کے لیے رضا کارانہ کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ عوام بھی بد دل ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی محرومیوں اور پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب میں سینکڑوں قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ لوگوں کے گھر ختم ہوگئے ۔فصلیں اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ مویشی سیلاب میں بہہ گئے ۔دوسری تباہی اس سیاست کی وجہ سے ہے جس میں سیاسی اور فلاحی تنظیموں کو امداد سے روکا جا رہا ہے۔ ایک مقبول اور عوام کے اعتماد کی حامل حکومت آسانی سے قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو متحرک کر سکتی ہے لیکن ایسی حکومت جسے عوام کا اعتما د حاصل نہ ہو ،وہ عوام کو متحرک نہیں کرسکتی اور اگر ایسی کوئی حکومت فلاحی اور مدادی کاموں میں رکاوٹ بنے اور محض نمائشی اقدامات اور نام و نمود کی جانب توجہ دے تو ایک جانب سیلاب سے آنے والی تباہی کا نقصان ہوگا اور دوسرا اس قسم کی منفی سیاست کا نقصان ہوگا۔
موجودہ دور میں پاکستان کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بد نظمی اور ناقص حکمرانی ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اپنی خراب کارکردگی کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ملک میں جاری موجودہ نظام کی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ مقتدر اشرافیہ اپنے وقتی اور فوری مفادات کے حصول کو ترجیح دیتی ہے۔ دولت اور عہدے کے حصول اوراس کو برقرار رکھنا اس میں اضافہ کرنا ہی اس کی کوششوں کا مرکز ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ تما م قوانین اور ضوابط کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔اگر کوئی رکاوٹ ہو تو قوانین بھی بدل دیتے ہیں۔ اس سے ملک میں مزید افراتفری اور عدم استحکام پیداہوتا ہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اورماحولیات سے پیدا ہونے کے لیے بیس سال پہلے سے سنجیدگی سے کام کر نا شروع کر دیا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی آج کے دور کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ جس سے نمٹنے کے لیے مستحکم ،منظم اور موثر کارکردگی کے حامل اداروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے کسی بھی ملک کا کوئی ادارہ ،تنظیم اور کاروبار قواعد اور ضوابط کے بغیر کام نہیں کرسکتا ۔فرض کریں کے پولیس کی بھرتی کے قواعدکی خلاف ورزی کی جائے معذور اور متعدی امراض کے شکار مریضوں کوبھرتی کیا جائے ۔ہر امتحان میں ناکام ہونے کے باوجود سفارشی شخص کو افسر بھرتی کر لیا جائے یاعمر کی کوئی قید نہ رہے تو ایسی صورت میں پولیس کا ادارہ بدترین تباہی کا شکار ہوگا،جس ادارے میں جتنا زیادہ نظم و ضبط ہوگا قواعدو ضوابط کی پابند ی ہوگی، وہ ادارہ اتنا ہی زیادہ موثر ہوگا۔ معاشرے اور ملک میں نظم و ضبط قائم رکھنے کی بنیاد آئین اور دیگر قوانین ہیں جس کی وجہ سے ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ امریکا ،برطانیہ،کنیڈا،فرانس ،جرمنی اور دیگر جمہوری ملکوںکی ترقی اور خوشحالی میں آزادی اظہار، انسانی حقوق پر اور آئین اور قانون کی بالادستی کا بنیادی کردار ہے، دس لاکھ افراد بھی جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ حکومت اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک حکومت کو عوام کامینڈیٹ حاصل رہتا ہے۔ اگر ان جمہوری ممالک میں دھاندلی کے ذریعے غیر نمائندہ حکومت قائم ہوجائے ،آزادی اظہار پر پابندی لگ جائے اور انسانی حقوق ختم کردیے جائیں تو یہ ترقّی یا فتہ ممالک زوال کا شکار ہوجائیں ۔معیشت منجمد ہوجائے گی۔ افراتفری کے نتیجے میں تباہی کا شکار ہوجائیں گے۔ پاکستان کے موجودہ مسائل کی وجہ یہی اخلاقی زوال ہے۔
پاکستان کے تقریباًتما م مبصرین اس بات کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ ووٹوں کی چوری کے ذریعے کھڑا گیا ہے۔ امریکی جریدے نے دولت مشترقہ کے ان مبصرین کی رپورٹ بھی شائع کردی ہے جو پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے آئے تھے لیکن ان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ جریدے نے تحریر کیا ہے کہ اس رپورٹ میں فروری کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔اس رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو ایک اور بڑانقصان پہنچایا ہے۔ حکومت نے تحریک انصاف کو مسئلہ تصور کر رکھا ہے جبکہ اصل مسائل مہنگائی،بدعنوانی،بے روزگاری ،غربت،جرائم اور ناانصافی کے علاوہ ایک ایسی حکومت کوگھسیٹنے کی کوشش ہے جس پر عوام کا اعتماد نہیں بلکہ حکمراں جماعتوںکی ساکھ کامسلسل خاتمہ ہے۔ ترقی کرنے والے ممالک چاہے جمہوری ہوں یا کسی اور نظام پر مشتمل ہو، اخلاقیات اور عوام کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ جاپان پر اگست1945 میں جو ایٹمی حملہ ہوا تھا ،ایسی تباہی دنیا نے کبھی نہیں دیکھی لیکن جاپان نے عوام کی مدد سے اپنے اداروں کی شفافیت اور معاشرے میں اخلاقی اقدار کو فروغ دے کر حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ چین کی ترقی کی وجہ بھی ا یک ا یسی عوامی تحریک تھی جس نے نچلی سطح تک ایک جماعت کو منظم کیا اور سیاسی استحکام کو فروغ دیا ۔بدعنوانی اور غربت کاخاتمہ کیاحیران کن حد تک چھوٹی بڑی صنعتوں کاوسیع جال بچھایا ۔زراعت کو فروغ دیا ۔دفاع پر بھی بھر پو ر توجہ دی۔ امریکا کی ترقی میں بھی وہاں کا مستحکم سیاسی نظام اور عوام کو دی جانے والی آزادی اور سیاسی عمل میں ان کی شراکت نے کردار اداکیاہے۔ پاکستان انصاف پر مبنی،بد عنوانی سے پاک سیاسی ڈھانچہ ضروری ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو۔ سیاسی استحکام کی بنیاد اسی طرح ممکن ہے ۔حکمراں جماعتیں عوامی حمایت کی محرومی کے باعث سیاسی استحکام قائم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہورہی ہیں یا ہوچکی ہیں۔غیر جانبدارانہ ، منصفانہ انتخابات ہو ں تو عوام کی امنگوں ،خواہشات اور جذبات کی صحیح اور سچائی پر مبنی عکاسی ہوگی ،ورنہ ہم اسی جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے مزید اخلاقی پستی اور عدم استحکام کے دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے ۔شاید ہم سچ کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
٭٭٭