Daily Ausaf:
2025-07-04@14:39:37 GMT

براہیمی معاہدہ یا مذہبی فریب؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

گزشتہ چند برسوں سے ایک نیا مذہبی تصور عالمی سطح پر ابھرتا نظر آ رہا ہے، جسے ’’ابراہیمی مذہب‘‘ (Abrahamic Religion) کا نام دیا گیا ہے۔ اس نظریے کو ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ اور ’’عالمی امن‘‘ کے پرکشش عنوانات کے ساتھ متعارف کروایا گیا، مگر اس کے پس پردہ عزائم کہیں زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہیں۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 2020 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے مابین ایک اہم معاہدہ طے پایا جسے ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ (Abraham Accords) کا نام دیا گیا۔ جب یہ معاہدہ منظر عام پر آیا تو اس نے مسلم دنیا میں فکری و دینی اضطراب کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔ یہ معاہدہ محض ایک سفارتی پیش رفت نہیں بلکہ اس کے ذریعے ایک ’’من گھڑت نظریاتی ڈھانچہ‘‘ تشکیل دینے کی کوشش کی گئی، جس کا مقصد اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو ایک مشترکہ فکری دھارے میں ضم کرنا ہے۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں ’’ابراہیمی فیملی ہاؤس‘‘ کے نام سے ایک ’’مذہبی کمپلیکس‘‘ قائم ہو چکاہے، جس میں ایک ہی چھت تلے مسجد، چرچ اور یہودی عبادت گاہ کو اکٹھا کیا گیا ہے، یہ کمپلیکس اس نئی ’’عالمی مذہبی شناخت‘‘ کا علامتی مرکز بن چکا ہے۔ مشرق وسطی کے حالیہ دورے کے دوران 17 مئی 2025 کو ڈونلڈ ٹرمپ نے وہاں جا کر اسے ’’بین المذاہب ہم آہنگی کی شاندار مثال‘‘ قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے مسجد اور چرچ کو تو اکٹھا کر دیا، لیکن ایک اللہ اور تین خداؤں کو کیسے جمع کرو گے؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ واقعی ہم آہنگی ہے یا اسلامی شناخت کے خلاف ایک منظم مگر خطرناک یلغار؟ ’’ابراہیمی مذہب‘‘ کے نام سے نیا فکری تصور دراصل دین اسلام کو مسخ کرنے کی ایک خطرناک شکل ہے، جو صرف ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ کے خوشنما پردے میں لپٹی ہوئی ہے۔ ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کو بظاہر مشرقِ وسطیٰ میں امن کا سنگ میل قرار دیا گیا، لیکن اس کا اصل مقصد اسرائیل کو عالمِ عرب میں تسلیم کرانا، فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنا اور اسلامی تشخص کو کمزور کر کے مسلم دنیا میں اعتقادی و تہذیبی رخنہ ڈالنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد (Jared Kushner) جیرڈ کشنر کی نگرانی میں “Abrahamic Faiths Initiative کے نام سے ایک بین الاقوامی مہم شروع کی گئی، جس میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ مسلمان، یہودی اور عیسائی ایک مشترکہ عقیدے پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس نظریہ کے تحت اسلامی عقائد کو ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ کی صورت میں پیش کر کے ان کی اصل روح کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اس معاہدے پر شدید علمی و دینی اعتراضات اور تحفظات ہیں (1) قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ’’حنیف مسلم‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ’’مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا‘‘ (آل عمران: 67) ترجمہ: ’ ’حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے‘‘ یہ آیت مبارکہ واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا تعلق کسی بھی بعد میں آنے والے مذہب سے نہیں تھا، بلکہ وہ صرف اللہ کے فرمانبردار، توحید پرست اور مسلم تھے۔ لھذا قرآنی فکر اس معاہدے کی نفی کرتی ہے۔ (2) عقیدہ ختم نبوت کی نفی: ابراہیمی مذہب” کے نظریے میں نبی کریم ﷺ کو آخری نبی تسلیم کرنا شامل نہیں ہے۔ اس میں یہودیت اور عیسائیت کو اسلام کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اس اتحاد کو تسلیم کرنے کا مطلب عقیدۂ ختمِ نبوت کے خلاف ایک گہری سازش ہے جو کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ (3) فلسطینی کاز سے انحراف: یہ معاہدہ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور ان کی جائز جدوجہد سے غداری ہے۔ مسجد اقصیٰ، القدس شریف، اور فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیلی ناجائز قبضے کے ہوتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اسلامی اصولوں اور اخلاقیات کے منافی ہے (4) اسلام کو محض روحانیت تک محدود کرنا: اسلام صرف ایک مذہب نہیں، بلکہ یہ ایک دین کامل کی صورت میں مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جبکہ’’”ابراہیمی مذہب‘‘ کے ذریعے اسلام کو صرف اخلاقیات اور چند تصورات تک محدود کرنے کی بھیانک کوشش کی جا رہی ہے۔ (5) مذہب کا سیاسی استحصال: یہ معاہدہ مذہب کو سفارت کاری کا آلہ بنانے کی ایک کوشش ہے، جس میں عرب ممالک کو معاشی ترغیبات دے کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کیا گیا۔ (6) اکبر کے دینِ الٰہی کی یاد دہانی: اس تصور کو مغل بادشاہ اکبر کے “دینِ الٰہی” سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، جو مختلف مذاہب کو ملا کر ایک نیا مذہب بنانے کی ناکام کوشش تھی۔ لھذا آج بھی اس فتنہ کے خلاف جد و جہد کیلئے ابولفضل اور فیضی جیسے وظیفہ خور مولویوں کی نہیں بلکہ حضرت شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی رح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شعوری مزاحمت اور بر وقت جد و جہد کی اشد ضرورت ہے (7) اسلام اس وقت دنیا میں ابھرتا ہوا دین برحق ہے۔ دنیا بھر کے لوگ جوق در جوق اسے قبول کرکے سکون پا رہے ہیں۔ حقیقتاً اسی قبولیت اسلام سے خائف ہو کر یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اس’’مذہبی گلوبلائزیشن‘‘ کے فریب کو سمجھے اور اسلامی عقائد، شریعت اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کے لیے ہر سطح پر متحد ہو کیونکہ اسلام ہر حوالے سے کامل و اکمل سچا دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ الازہر کے شیخ احمد الطیب اور دیگر عالمی اسلامی اداروں نے اس معاہدے کو دور حاضر کا ’’فکری فتنہَ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے، اور واضح کیا ہے کہ مذہبی رواداری کا مطلب عقائد حقہ سے دستبرداری ہرگز نہیں۔ آج کا سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا ہم دین کے تحفظ پر پہرہ دیں گے یا عالمی دباؤ میں آ کر اسے محض “ابراہیمی روایت” کا ایک جزو تسلیم کر کے اپنی شناخت کھو دیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ ’’ابراہیمی مذہب‘‘ اور اس کے اردگرد بننے والا بیانیہ ایک منظم مذہبی و سیاسی پروجیکٹ ہے، جو اسلام کی نظریاتی اساس کو متزلزل کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اسلام کی حقانیت سے خوفزدہ طبقات کا بنایا گیا ایک مذہبی فریب ہے، جسے صرف علم، شعور اور دینی وفاداری سے ہی بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ “بین المذاہب مکالمہ’’ اور‘‘ عقائد اسلامیہ پر سمجھوتے” میں فرق کو خوب سمجھیں۔ کسی بھی فورم پر، کسی سطح کا بھی بین المذاہب مکالمہ ہو سکتا ہے، لیکن عقائدِ اسلامیہ پر سودے بازی ہرگز قابل قبول نہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بین المذاہب ہم ا ہنگی ابراہیمی مذہب اس معاہدے یہ معاہدہ تسلیم کر کیا گیا دیا گیا گیا ہے

پڑھیں:

آئندہ 24 گھنٹے میں جنگ بندی کی تجویز پر حماس کا فیصلہ معلوم ہوجائے گا، امریکی صدر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہےکہ امکان ہے کہ آئندہ 24 گھنٹوں میں معلوم ہو جائے گا آیا فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس غزہ میں اسرائیل کے خلاف جنگ بندی کے لیے اُس تجویز کو قبول کیا ہے جسے وہ ’آخری پیشکش‘ قرار دے چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جمعہ کو امریکی میڈیا سے گفتگو میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اُنہوں نے سعودی عرب سے بھی بات چیت کی ہے تاکہ معاہدہ ابراہیمی کو وسعت دی جا سکے، یہ وہ سفارتی معاہدہ ہے جس کے تحت اُن کی پہلی مدت صدارت میں اسرائیل اور خلیجی ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر لانے پر بات ہوئی تھی۔

منگل کو صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسرائیل اُن شرائط کو تسلیم کر چکا ہے جو حماس کے ساتھ 60 دن کی جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کے لیے درکار ہیں، اور اس مدت کے دوران فریقین جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت کریں گے۔

جمعے کو جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا حماس نے تازہ ترین جنگ بندی معاہدے کے فریم ورک پر رضامندی ظاہر کی ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ ’دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، ہمیں اگلے 24 گھنٹوں میں پتہ چل جائے گا‘۔

حماس کے قریبی ذرائع کے مطابق، اسلامی تنظیم نے اس امریکی حمایت یافتہ تجویز کے حوالے سے یہ ضمانتیں مانگی ہیں کہ یہ جنگ بندی بالآخر اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گی۔

اسرائیل کے دو عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی تفصیلات پر ابھی کام جاری ہے۔

غزہ کے حکام کے مطابق جمعرات کو اسرائیلی فضائی حملوں میں درجنوں فلسطینی شہید ہوئے۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل کے فوجی حملوں میں اب تک 56 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، اس جنگ نے غزہ میں شدید غذائی بحران پیدا کر دیا ہے، پوری آبادی کو اندرونِ ملک بے گھر کر دیا ہے اور اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں نسل کشی کے الزامات اور بین الاقوامی فوجداری عدالت میں جنگی جرائم کے مقدمات کو جنم دیا ہے، اسرائیل ان تمام الزامات کی تردید کرتا ہے۔

اس سے قبل رواں سال 18 مارچ کو دو ماہ کی جنگ بندی اس وقت ختم ہو گئی تھی جب اسرائیلی فضائی حملوں میں 400 سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے تھے۔

ٹرمپ نے رواں سال کے آغاز میں غزہ کا امریکی کنٹرول سنبھالنے کی تجویز دی تھی، جسے انسانی حقوق کے ماہرین، اقوامِ متحدہ اور فلسطینیوں نے ”نسلی تطہیر“ کی تجویز قرار دے کر شدید مذمت کی۔

صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے حوالے سے خطوط ارسال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جمعہ کو 10 سے 12 ممالک کو خطوط مل جائیں گے۔

معاہدہ ابراہیمی
صدر ٹرمپ نے معاہدہ ابراہیمی پر اس وقت تبصرہ کیا جب ان سے امریکی میڈیا کی اس رپورٹ سے متعلق سوال کیا گیا جس میں جمعرات کی شب وائٹ ہاؤس میں سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے ملاقات کا حوالہ دیا گیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’زیر بحث امور میں معاہدہ ابراہیمی بھی شامل تھا، میرے خیال میں بہت سے ممالک معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہونے جا رہے ہیں‘، اور اس کی وجہ ایران کو حالیہ امریکی اور اسرائیلی حملوں سے پہنچنے والے نقصان کو قرار دیا۔

امریکی ویب سائٹ ’ایکسی اوس‘ کے مطابق ٹرمپ سے ملاقات کے بعد سعودی وزیر نے ایران کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف، عبدالرحیم موسوی سے فون پر بات چیت بھی کی۔

ٹرمپ اور سعودی وزیر دفاع کی یہ ملاقات اگلے ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن سے قبل ہوئی ہے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں ابراہیمی معاہدے کی گونج
  • آئندہ 24 گھنٹے میں جنگ بندی کی تجویز پر حماس کا فیصلہ معلوم ہوجائے گا، امریکی صدر
  • آئندہ 24 گھنٹے میں جنگ بندی کی تجویز پر حماس کا فیصلہ معلوم ہوجائے گا، امریکی صدر
  • الخدمت و ٹی ایم سی ناظم آباد کا2 واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کا معاہدہ
  • پاکستان کو ابراہیمی معاہدے پر عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے، رانا ثنا
  • ابراہیمی معاہدے کی بازگشت
  • پاکستان کو ابراہیمی معاہدے پر عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیے. رانا ثنا اللہ
  • کراچی میں نئی اسٹیل مل کے قیام کا پاک روس معاہدہ جلد ہونے کی توقع ہے: روسی قونصل جنرل
  • اسرائیل 60 روزہ جنگ بندی پر آمادہ، حماس معاہدہ قبول کرے: ٹرمپ