براہیمی معاہدہ یا مذہبی فریب؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
گزشتہ چند برسوں سے ایک نیا مذہبی تصور عالمی سطح پر ابھرتا نظر آ رہا ہے، جسے ’’ابراہیمی مذہب‘‘ (Abrahamic Religion) کا نام دیا گیا ہے۔ اس نظریے کو ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ اور ’’عالمی امن‘‘ کے پرکشش عنوانات کے ساتھ متعارف کروایا گیا، مگر اس کے پس پردہ عزائم کہیں زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہیں۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 2020 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے مابین ایک اہم معاہدہ طے پایا جسے ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ (Abraham Accords) کا نام دیا گیا۔ جب یہ معاہدہ منظر عام پر آیا تو اس نے مسلم دنیا میں فکری و دینی اضطراب کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔ یہ معاہدہ محض ایک سفارتی پیش رفت نہیں بلکہ اس کے ذریعے ایک ’’من گھڑت نظریاتی ڈھانچہ‘‘ تشکیل دینے کی کوشش کی گئی، جس کا مقصد اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو ایک مشترکہ فکری دھارے میں ضم کرنا ہے۔ اب تو بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں ’’ابراہیمی فیملی ہاؤس‘‘ کے نام سے ایک ’’مذہبی کمپلیکس‘‘ قائم ہو چکاہے، جس میں ایک ہی چھت تلے مسجد، چرچ اور یہودی عبادت گاہ کو اکٹھا کیا گیا ہے، یہ کمپلیکس اس نئی ’’عالمی مذہبی شناخت‘‘ کا علامتی مرکز بن چکا ہے۔ مشرق وسطی کے حالیہ دورے کے دوران 17 مئی 2025 کو ڈونلڈ ٹرمپ نے وہاں جا کر اسے ’’بین المذاہب ہم آہنگی کی شاندار مثال‘‘ قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے مسجد اور چرچ کو تو اکٹھا کر دیا، لیکن ایک اللہ اور تین خداؤں کو کیسے جمع کرو گے؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ واقعی ہم آہنگی ہے یا اسلامی شناخت کے خلاف ایک منظم مگر خطرناک یلغار؟ ’’ابراہیمی مذہب‘‘ کے نام سے نیا فکری تصور دراصل دین اسلام کو مسخ کرنے کی ایک خطرناک شکل ہے، جو صرف ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ کے خوشنما پردے میں لپٹی ہوئی ہے۔ ’’ابراہیمی معاہدہ‘‘ کو بظاہر مشرقِ وسطیٰ میں امن کا سنگ میل قرار دیا گیا، لیکن اس کا اصل مقصد اسرائیل کو عالمِ عرب میں تسلیم کرانا، فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنا اور اسلامی تشخص کو کمزور کر کے مسلم دنیا میں اعتقادی و تہذیبی رخنہ ڈالنا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد (Jared Kushner) جیرڈ کشنر کی نگرانی میں “Abrahamic Faiths Initiative کے نام سے ایک بین الاقوامی مہم شروع کی گئی، جس میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ مسلمان، یہودی اور عیسائی ایک مشترکہ عقیدے پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اس نظریہ کے تحت اسلامی عقائد کو ’’بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ کی صورت میں پیش کر کے ان کی اصل روح کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اس معاہدے پر شدید علمی و دینی اعتراضات اور تحفظات ہیں (1) قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ’’حنیف مسلم‘‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ’’مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا‘‘ (آل عمران: 67) ترجمہ: ’ ’حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے‘‘ یہ آیت مبارکہ واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا تعلق کسی بھی بعد میں آنے والے مذہب سے نہیں تھا، بلکہ وہ صرف اللہ کے فرمانبردار، توحید پرست اور مسلم تھے۔ لھذا قرآنی فکر اس معاہدے کی نفی کرتی ہے۔ (2) عقیدہ ختم نبوت کی نفی: ابراہیمی مذہب” کے نظریے میں نبی کریم ﷺ کو آخری نبی تسلیم کرنا شامل نہیں ہے۔ اس میں یہودیت اور عیسائیت کو اسلام کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اس اتحاد کو تسلیم کرنے کا مطلب عقیدۂ ختمِ نبوت کے خلاف ایک گہری سازش ہے جو کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ (3) فلسطینی کاز سے انحراف: یہ معاہدہ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور ان کی جائز جدوجہد سے غداری ہے۔ مسجد اقصیٰ، القدس شریف، اور فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیلی ناجائز قبضے کے ہوتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اسلامی اصولوں اور اخلاقیات کے منافی ہے (4) اسلام کو محض روحانیت تک محدود کرنا: اسلام صرف ایک مذہب نہیں، بلکہ یہ ایک دین کامل کی صورت میں مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جبکہ’’”ابراہیمی مذہب‘‘ کے ذریعے اسلام کو صرف اخلاقیات اور چند تصورات تک محدود کرنے کی بھیانک کوشش کی جا رہی ہے۔ (5) مذہب کا سیاسی استحصال: یہ معاہدہ مذہب کو سفارت کاری کا آلہ بنانے کی ایک کوشش ہے، جس میں عرب ممالک کو معاشی ترغیبات دے کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کیا گیا۔ (6) اکبر کے دینِ الٰہی کی یاد دہانی: اس تصور کو مغل بادشاہ اکبر کے “دینِ الٰہی” سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، جو مختلف مذاہب کو ملا کر ایک نیا مذہب بنانے کی ناکام کوشش تھی۔ لھذا آج بھی اس فتنہ کے خلاف جد و جہد کیلئے ابولفضل اور فیضی جیسے وظیفہ خور مولویوں کی نہیں بلکہ حضرت شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی رح کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شعوری مزاحمت اور بر وقت جد و جہد کی اشد ضرورت ہے (7) اسلام اس وقت دنیا میں ابھرتا ہوا دین برحق ہے۔ دنیا بھر کے لوگ جوق در جوق اسے قبول کرکے سکون پا رہے ہیں۔ حقیقتاً اسی قبولیت اسلام سے خائف ہو کر یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔
امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اس’’مذہبی گلوبلائزیشن‘‘ کے فریب کو سمجھے اور اسلامی عقائد، شریعت اور تہذیب و تمدن کی حفاظت کے لیے ہر سطح پر متحد ہو کیونکہ اسلام ہر حوالے سے کامل و اکمل سچا دین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ الازہر کے شیخ احمد الطیب اور دیگر عالمی اسلامی اداروں نے اس معاہدے کو دور حاضر کا ’’فکری فتنہَ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے، اور واضح کیا ہے کہ مذہبی رواداری کا مطلب عقائد حقہ سے دستبرداری ہرگز نہیں۔ آج کا سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا ہم دین کے تحفظ پر پہرہ دیں گے یا عالمی دباؤ میں آ کر اسے محض “ابراہیمی روایت” کا ایک جزو تسلیم کر کے اپنی شناخت کھو دیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ ’’ابراہیمی مذہب‘‘ اور اس کے اردگرد بننے والا بیانیہ ایک منظم مذہبی و سیاسی پروجیکٹ ہے، جو اسلام کی نظریاتی اساس کو متزلزل کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اسلام کی حقانیت سے خوفزدہ طبقات کا بنایا گیا ایک مذہبی فریب ہے، جسے صرف علم، شعور اور دینی وفاداری سے ہی بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ “بین المذاہب مکالمہ’’ اور‘‘ عقائد اسلامیہ پر سمجھوتے” میں فرق کو خوب سمجھیں۔ کسی بھی فورم پر، کسی سطح کا بھی بین المذاہب مکالمہ ہو سکتا ہے، لیکن عقائدِ اسلامیہ پر سودے بازی ہرگز قابل قبول نہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بین المذاہب ہم ا ہنگی ابراہیمی مذہب اس معاہدے یہ معاہدہ تسلیم کر کیا گیا دیا گیا گیا ہے
پڑھیں:
پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی کس کس طرح مدد کر سکیں گے؟ مثلاﹰ پاکستان کی بھارت کے ساتھ پرانی رقابت ہے، تو کیا بھارت کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب بھی اپنی افواج کو پاکستان بھیجے گا؟ اس کے علاوہ، کیا یہ معاہدہ خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کے تناطر میں کیا گیا ہے؟
پس منظر سے متعلق بڑھتی غیر یقینی صورتحالخلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔
ایک جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔(جاری ہے)
ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کیا ہے۔
لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں، ''امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی، قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔
‘‘ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔
ڈاکٹر قندیل عباس کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد سبھی ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔
ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔ معاہدے میں پاکستان کا کردار اور افادیتتجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں اس معاہدے کے تحت زیادہ نمایاں کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ سعودی عرب جنگ لڑنے کی ویسی صلاحیت نہیں رکھتا جیسی پاکستان کے پاس ہے۔
جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے اگر کوئی جنگ لڑنا پڑے، تو وہ پاکستان کو ہی لڑنا پڑے گی کیونکہ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خلیجی ممالک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔کاشف مرزا کے بقول، ''پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی خدمات لی ہیں۔
‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی بہرحال اس سے کافی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا معاہدہ مالی تعاون کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یقیناﹰ سعودی عرب پاکستان میں دفاع اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ''اب ان امکانات سے کیسے مستفید ہونا ہے، اس کا انحصار پاکستان پر ہو گا۔‘‘ ماضی میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کیا؟دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔
سعودی افواج کے سینکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کے مطابق ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہی ہیں۔ لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔
لیکن بالخصوص اس وقت تو کوئی بھی ''خود کو اسرائیل سے محفوظ‘‘ نہیں سمجھ رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔‘‘میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کہتے ہیں، ''یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘
پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلاتعالمی امور کے ماہر سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکہ اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔کاشف مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''معاہدے کی زبان امریکہ میں تفکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں کا حصہ بننے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ممکنہ اسرائیلی کارروائیوں کی روک تھام اس معاہدے کے تحت غیر واضح ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اسرائیل کی بات کرتے ہیں، تو اس میں امریکہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
ادارت: مقبول ملک