Islam Times:
2025-11-03@19:16:09 GMT

پاکستان میں ابراہیمی معاہدے کی گونج

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

پاکستان میں ابراہیمی معاہدے کی گونج

اسلام ٹائمز: فلسطین کے مسئلہ پر کسی بھی قسم کا یو ٹرن اور امریکہ کے اشاروں پر ابراہیمی معاہدے میں شمولیت پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو کھوکھلا کر دیگی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا نظریہ دفن ہو جائیگا، علامہ اقبال کے افکار کو جلا کر راکھ دیا جائیگا، یہ سب کچھ ابراہیمی معاہدے میں شمولیت سے ہوگا اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت امریکہ کی اندھی محبت میں یہ سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہے۔ پاکستان کے عوام ہمیشہ قائد اعظم کے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور آج بھی حکومت کو بتا دیتے ہیں کہ قائد کے پاکستان میں اسرائیل کیساتھ تعلقات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

ابراہیمی معاہدہ ایک ایسی دستاویز ہے، جسے ٹرمپ نے اپنی گذشتہ حکومت کے دور میں متعارف کروایا تھا۔ اس معاہدے کا نام پہلے صدی کی ڈیل رکھا گیا تھا، بعد میں اس کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ابراہیمی معاہدے کا نام دیا گیا ہے۔ اس معاہدے کا اصل مقصد دنیائے اسلام کے ممالک کو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ بٹھانا اور تعلقات استوار کروانا ہے، تاکہ فلسطین کا سوال ہی ختم ہو جائے۔ اس معاہدے کا آغاز پہلے متحدہ عرب امارات اور بحرین سے ہوا۔ اس کا باضابطہ اظہار اگست اور ستمبر 2020ء میں کیا گیا اور 15 ستمبر 2020ء کو واشنگٹن ڈی سی میں دستخط کرکے اعلان کیا گیا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں۔ عرب امارات عرب دنیا میں اردن کے بعد پہلا ملک بن گیا، جس نے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو تسلیم کیا۔

اس کے بعد مراکش اور سوڈان نے بھی اسی ابراہیمی معاہدے کی رو سے امریکی حکومت کے ساتھ مل کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ ابراہیمی معاہدے کے لئے دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ تینوں بڑے ادیان کے ماننے والے یعنی مسلمان، مسیحی اور یہودی تینوں حضرت ابراہیم کا یکساں احترام کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں یہودیوں سے بار بار یہی سوال پوچھا گیا ہے کہ "تم یہودی کہاں سے اور کیسے بنے ہو۔؟" اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سوال پوچھا کہ "تم ابراہیم کو مانتے ہو، لیکن ابراہیم تو یہودی نہیں تھے؟" یہودیوں سے پوچھا گیا کہ "جنہیں تم اپنا باپ داد مانتے ہو، وہ تو یہودی نہیں تھے؟" لیکن آج یہودیوں سے بڑھ کر یہودیوں کے وفادار مسلم ممالک میں موجود ہیں اور ایسے ہی کچھ خیانت کار پاکستان میں بھی پاکستان کی نظریاتی سرحدو ں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔

حقیقت میں امریکہ نے یہ معاہدہ خطے میں فلسطین کے کاز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے بنایا ہے اور ساتھ ساتھ عرب دنیا کو اسرائیل کے ساتھ کھڑا کرکے وہ خطے میں اسرائیل کے سب سے بڑے مخالف ایران کو تنہاء کرنا چاہتا ہے، جبکہ اس معاہدے کا ظاہری مقصد جو دنیا کو دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مانتے ہیں اور اس عنوان سے آپس میں تعاون ہونا چاہیئے اور پھر اس تعاون کو سکیورٹی، معاشی اور نہ جانے کون کون سے تعاون کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالیہ دنوں ایران کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل کی 12 روزہ جنگ کے بعد تل ابیب میں ایک بڑا بینر آویزاں کیا گیا ہے، جس میں ٹرمپ اور نیتن یاہو کی تصویروں کے ساتھ سعودی عرب کے محمد بن سلمان، عرب امارات کے شیخ زاید، قطر کے شیخ تمیم، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس، مصری صدر جنرل سیسی، مراکش کے محمد ششم، اردن کے شاہ عبد اللہ، شام کے محمد الشرع جولانی، لبنان کے صدر جوزف عون اور مسقط کے سلطان ہاشم بن طارق کی تصویریں آویزاں تھیں۔

اس تصویر سے واضح ہوتا ہے کہ ان سب حکمرانوں نے فلسطین کو فراموش کر دیا ہے اور امریکہ کے سامنے خود کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی عزت و حمیت امریکی و اسرائیلی حکمرانوں کے قدموں میں ڈال دی ہے۔ اس تسلسل میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے انکشاف کیا ہے کہ جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے، جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیا یہ تصور نہ کیا جانے والا ملک پاکستان ہوسکتا ہے۔؟ حالات اور واقعات کچھ ایسے ہی اشارے دے رہے ہیں۔ کیونکہ حال ہی میں پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بغیر کسی تذبذب کے ایک انٹرویو کے دوران اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان اسرائیل کو تبھی تسلیم کرے گا، جب فلسطین کی آزاد ریاست جس کا دارالحکومت القدس ہوگا۔ حالانکہ اس معاملہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کی وضع کردہ خارجہ پالیسی اور نظریہ کے اصولی موقف میں کسی جگہ ایسی بات موجود نہیں ہے کہ پاکستان کسی شرط کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرے گا، بلکہ قائد اعظم کی پالیسی کے مطابق پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔

اسحاق ڈار کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے معروف خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کے اشارے دیئے اور کہا کہ پاکستان کو اس میں اپنا مفاد دیکھنا ہے، یعنی ایک شک اور شبہ ایجاد کر دیا۔ یہاں بھی قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریہ اور اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک اور حکومتی وزیر و مشیر رانا ثناء اللہ بھی اسرائیل کی محبت میں میدان میں نکل آئے ہیں اور موصوف کہتے ہیں کہ پاکستان کو ابراہیمی معاہدے میں شمولیت کے عنوان سے عرب ممالک کے ساتھ جانا چاہیئے۔ عجیب بات ہے کہ حکومت کی صفوں میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں، جو خود مملکت خداداد پاکستان کے دشمن ہیں۔ کیا پاکستان جیسے ملک کی پالیسی عرب ممالک کی پالیسیوں کے ساتھ نتھی ہونی چاہیئے۔؟

واضح رہے کہ امریکہ کی چاپلوسی کرتے ہوئے ابراہیمی معاہدے کا حصہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نظریہ پاکستان سے انحراف کرچکی ہے اور ساتھ ساتھ اس معاہدے میں شمولیت کا واضح مقصد ہے کہ فلسطین کے بارے میں اب کوئی سوال نہیں ہوگا۔ یعنی فلسطین کو فراموش کیا جائے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ ستر ہزار سے زائد معصوم بچوں اور خواتین کا غزہ میں بہنے والا خون ابھی تک غزہ کی گلیوں میں خشک نہیں ہوا ہے، لیکن پاکستان میں حکومتی وزراء امریکہ اور اسرائیل کی چاپلوسی میں اندھے ہوئے جا رہے ہیں۔ فلسطین کے مسئلہ پر کسی بھی قسم کا یو ٹرن اور امریکہ کے اشاروں پر ابراہیمی معاہدے میں شمولیت پاکستان کی نظریاتی سرحدو ں کو کھوکھلا کر دے گی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا نظریہ دفن ہو جائے گا، علامہ اقبال کے افکار کو جلا کر راکھ دیا جائے گا، یہ سب کچھ ابراہیمی معاہدے میں شمولیت سے ہوگا اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت امریکہ کی اندھی محبت میں یہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہے۔ پاکستان کے عوام ہمیشہ قائد اعظم کے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور آج بھی حکومت کو بتا دیتے ہیں کہ قائد کے پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: قائد اعظم محمد علی جناح اسرائیل کو تسلیم کر اس معاہدے کا پاکستان میں ہے کہ حکومت پاکستان کے اسرائیل کی اسرائیل کے عرب امارات کہ پاکستان کے پاکستان پاکستان کی فلسطین کے یہ سب کچھ ہیں اور ا کے ساتھ گیا ہے کے بعد کے لئے کیا جا

پڑھیں:

امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تہران: ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس وقت تک تعاون ممکن نہیں، جب تک واشنگٹن اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں مداخلت کرے گا اور خطے میں اس کے فوجی اڈے قائم رہیں گے۔

سرکاری میڈیا کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکی کبھی کبھار کہتے ہیں کہ وہ تہران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک امریکا صیہونی حکومت کی حمایت جاری رکھے، خطے میں اپنے فوجی اڈے برقرار رکھے اور مداخلت کرتا رہے،

خامنہ ای کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے، جب تہران اس کے لیے تیار ہوگا۔

دونوں ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں، جو جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ سے قبل ہوئے تھے، جس میں واشنگٹن نے بھی اہم ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے حصہ لیا تھا۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران
  • ستائیسویں آئینی ترمیم کی گونج: ڈی جی آئی ایس پی آر کا افغانستان کو واضح پیغام
  • نتن یاہو کے ساتھ اسرائیل میں اچھا برتاؤ نہیں ہو رہا وہاں مداخلت کرونگا، ٹرمپ
  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 افراد شہید
  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 فلسطینی شہید
  • حماس نے غزہ امن معاہدے کے تحت مزید 3 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
  • غزہ جنگ بندی معاہدے پر عمل آمد کیلئے ترکیے میں اجلاس، اسحاق ڈار شرکت کریں گے
  • غزہ میں مسلسل اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلال عباس قادری
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے