سکھر:بے امنی کیخلاف سیاسی،سماجی و مذہبی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سکھر(نمائندہ جسارت)جمعیت علماء اسلام ضلع سکھر کی میزبانی میں سندھ میں بڑھتی بدامنی ,فسادات، بلدیاتی اداروں میں کرپشن کیخلاف جے یو آئی کے امیر ضلع مولانا محمد صالح اندھڑ کی زیر صدارت مختلف سیاسی، سماجی، مذہبی و سول سوسائٹی کی آل پارٹیز کانفرنس کاانعقاد ،قیام امن کیلئے مرحلہ وار مشترکہ احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان ،صوبائی دفتر شہید اسلام سیکرٹریٹ سکھر میں منعقدہ اے پی سی میں سیکریٹری جنرل جمعیت علماء اسلام ضلع سکھر حافظ عبدالحمید مھر،جماعت اسلامی سندھ کے رھنماء مولانا حزب اللہ جکھرو، ایڈوکیٹ سلطان احمد لاشاری ،پاکستان سنی تحریک کیحافظ محبوب علی سہتو،انور کمال بلوچ، پاکستان مسلم لیگ ف کے فقیر عنایت اللہ برڑو ،محمد بچل مہر ، جے یو پی سندھ کے مشرف محمود قادری، پی ٹی آئی لیڈیز ونگ کی میڈم صفیہ بلوچ،راحیلہ کمانگر،، امان اللہ میکو ، پی ایم ایل ن کے محمد اعظم خان ، عبدالفتاح ابڑو، جئے سندھ تحریک مرکز کے اعجاز علی چانڈیو، عبدالقیوم ابڑو، عوامی تحریک کے سچل بھٹی، ایاز کلوڑ، مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے قاری محمدعثمان، شہری اتحاد ضلع سکھر کے مولانا عبید اللہ بھٹو ابن آزاد، شیعہ علماء کونسل کے سید جواد حسین رضوی ، مولانا اختر علی کاظم، ایڈوکیٹ عبدالقیوم ،صحافی علی انس گھانگرو، لائرز ونگ جے یو آئی کے سکندر علی جونیجو، سمیت دیگرجمعیت علماء اسلام کی قیادت سمیت شہریوں،سول سوسائٹی کی ممتاز شخصیات نے شرکت کی ، آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء کیجانب سے جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے فیصلے کے تحت سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی, فسادات،طبی و بلدیاتی اداروں کے کرپشن کے خلاف جدوجہد شروع کرنے والے عمل کو سراہا اور اسے قابل قدر کوشش قرار دیتے سندھ کے عوام کیلئے خوش آئند اقدام قرار دیا، شرکاء کیجانب سے حکومت سندھ اور پولیس کارکردگی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ سندھ حکومت بلخصوص سندھ پولیس سندھ کی پر امن فضاء کی بحالی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اگر امن نہیں ہوگا تو کاروباری و عام زندگی شدید متاثر ہوگی،ہسپتالوں میں طبی سہولیات برائے نام کی رہ گئی ہیں بلدیاتی ادارے اور منتخب نمائندگان عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی بھی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے،سندھ میں بڑھتی ہوئی بدامنی کی وجہ سے ہرطبقہ پریشان حال زندگی بسر کرنے پر مجبور ھے ، آل پارٹیز کانفرنس میں موجود شرکاء کی جانب سے متفقہ طور پر مرحلہ وار احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے متفقہ اعلامیہ منظور کیا گیا جس کے مطابق تمام پارٹیز اپنے اپنے پلیٹ فارمز امن کانفرنس منعقد کرینگی، جے یو آئی ضلع سکھر کی طرف سے 9 جولائی پنوعاقل 10 جولائی روہڑی،11 جولائی سٹی سکھر،12 جولائی نیو سکھر، 13 جولائی صالح پٹ میں امن کانفرنسیں منعقد ہونگی.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا ل پارٹیز کانفرنس جمعیت علماء اسلام بلدیاتی اداروں ضلع سکھر سندھ کے
پڑھیں:
فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی،ڈی جی آئی ایس پی آر کی عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید
راولپنڈی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27جون 2025)فوج سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ احمد شریف چوہدری نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے مذاکرات یا پس پردہ رابطوں کی تردید کردی، بی بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو برائے مہربانی سیاست میں ملوث نہ کیا جائے۔ ہم ہمیشہ اس معاملے پر بالکل واضح رہے ہیں۔ یہ سیاستدانوں کا کام ہے کہ وہ آپس میں بات کریں۔ ہم پاکستان کی ریاست سے بات کرتے ہیں جو کہ آئین پاکستان کے تحت سیاسی جماعتوں سے مل کر بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی حکومت ہوتی ہے وہی اس وقت کی ریاست ہوتی ہے اورافواج پاکستان اس ریاست کے تحت کام کرتی ہیں۔(جاری ہے)
اس لئے ہم ہم سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
انٹرویوکے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس تاثر کورد کیا ہے اور اسے سیاسی ایجنڈوں کو تقویت دینے کیلئے پھیلائی گئی افواہ قرار دیا۔ اپنے سیاسی مقاصد کیلئے فوج کے خلاف بہت سی افواہیں اور مفروضے پھیلائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک افواہ یہ بھی تھی کہ فوج اپنا کام نہیں کرتی اور سیاست میں ملوث ہے۔ لیکن جب معرکہ حق آیا تو کیا فوج نے اپنا کام کیا یا نہیں؟ کیا قوم کو کسی پہلو میں فوج کی کمی محسوس ہوئی؟ نہیں، بالکل نہیں۔ ہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر مکمل توجہ دیتے ہیں اور ہماری وابستگی پاکستان کے عوام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے۔ یہی وہ کام ہے جو فوج کرتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس لئے بغیر کسی ثبوت کے سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مفروضوں پر توجہ دینے سے اجتناب کیا جانا چاہیے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی فوج جس کے بارے میں کہا جائے کہ وہ منقسم ہے اور اپنے عوام سے کٹی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم صرف اندرونی طور پر ہی چٹان کی طرح متحد نہیں بلکہ بحیثیت قوم بھی متحد ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی فوج متعدد مواقع پر سیاسی حکومت چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ملک میں جب کبھی سیاسی عدم استحکام پیدا ہو، فوجی قیادت کا ہی نام آتا ہے؟۔اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ یہ سوال ان سیاستدانوں یا سیاسی قوتوں سے پوچھنا چاہیے جو اس کو متنازع بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس معاملے کو ہی اصل مسئلہ بنا دیتے ہیں اور شاید یہ ان کی اپنی نااہلی یا اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہے جن کی طرف وہ توجہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔ میں ان کے سیاسی مقاصد پر تبصرہ نہیں کروں گا۔ ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ اپنی سیاست اپنے تک رکھیں اور پاکستان کی مسلح افواج کو اس سے دور رکھیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں ماضی میں زیادہ دور نہیں جانا چاہتا لیکن کورونا کے دوران پاکستان میں ردعمل کی قیادت کس نے کی؟ وزارت صحت نے؟ فوج کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن این سی او سی کون چلا رہا تھا؟ اس پورے ردعمل کی قیادت کس کے پاس تھی؟ فوج کے پاس۔ اس وقت کسی کو ہم سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس ملک میں جب پولیو ٹیمیں ویکسین کیلئے نکلتی ہیں تو فوج ہی ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب واپڈا بجلی کے میٹر چیک کرنا چاہتے ہیں تو فوج کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی جاتی ہے کیونکہ مقامی لوگ وہاں مسئلہ کھڑا کرتے ہیں۔ اس ملک میں اپنی سروس کے دوران میں نے نہریں بھی صاف کی ہیں۔ ہم عوام کی فوج ہیں اور جب بھی حکومت وقت، چاہے وفاقی ہو یا صوبائی، جب وہ ہمیں کہتی ہے تو آرمی حتی الامکان حد تک پاکستانی حکومت اور عوام کیلئے آتی ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ اس طرح کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں۔ ہم اس بات کو بالائے طاق رکھ کر کہ کس سیاسی جماعت یا سیاسی قوت کی حکومت ہے ہم عوام کے تحفظ اور بھلائی کیلئے آتے ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ یہ جو داخلی سلامتی کیلئے فوج خیبر پختونخوا ہ اور بلوچستان کے علاقوں میں موجود ہے وہ بھی صوبائی حکومت کے احکامات پر ہے۔ ہم یہ فیصلے خود نہیں کرتے۔ یہ سیاسی قوتیں طے کرتی ہیں کہ فوج کو کہاں تعینات کیا جائے۔