خشکی میں گھرے ممالک کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے ہونے چاہیں، یو این
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 05 اگست 2025ء) اقوام متحدہ نے خشکی میں گھرے ممالک کی تیسری کانفرنس (ایل ایل ڈی سی 3) میں دنیا بھر سے شرکت کرنے والے ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ممالک کے 60 کروڑ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کریں۔
ترکمانستان کے شہر آوازا میں کل شروع ہونے والی کانفرنس کے پارلیمانی فورم سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی حکام کا کہنا تھا کہ ایک دہائی پر محیط ترقیاتی منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے سیاسی عزم کے ساتھ قومی سطح پر قانون سازی بھی ازحد ضروری ہے۔
Tweet URLدنیا میں 32 ممالک مکمل طور پر خشکی سے گھرے ہیں جن کی مجموعی آبادی 50 کروڑ سے زیادہ ہے۔
(جاری ہے)
ان میں متعدد کا شمار کم ترین ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے جنہیں نقل و حمل کے بھاری اخراجات، منڈیوں تک محدود رسائی اور موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے مضبوط بنیادی ڈھانچہ اور بہتر ربط کی خاص اہمیت ہے جس سے تجارت اور ان ممالک کو عالمی منڈیوں سے جڑنے میں سہولت ملے گی۔ 'ایل ایل ڈی سی 3' کا مقصد مشمولہ اور پائیدار ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے عالمگیر شراکتوں کو فروغ دینا ہے۔
خشکی میں گھرے ممالک کے مسائل'ایل ایل ڈی سی' کے لیے اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی نمائندہ رباب فاطمہ نے کہا ہے کہ ان ممالک کے مسائل نے محض بندرگاہوں سے دوری کے باعث جنم نہیں لیا بلکہ محدود بنیادی ڈھانچہ اور درآمدی بنیاد کے ساتھ مالی وسائل تک رسائی کا فقدان بھی اس کا بڑا سبب ہے۔
دنیا کی 7 فیصد آبادی کا تعلق انہی ممالک سے ہے لیکن عالمی جی ڈی پی میں ان کا حصہ صرف ایک فیصد ہوتا ہے۔
ساحلی ممالک کے مقابلے میں انہیں تجارت پر 30 فیصد زیادہ اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔ ان ممالک کی صرف 61 فیصد آبادی کو بجلی تک رسائی ہے جبکہ اس حوالے سے عالمگیر اوسط 92 فیصد ہے۔ اسی طرح، خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک کی صرف 40 فیصد آبادی کو ہی انٹرنیٹ میسر ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ محض اعدادوشمار ہی نہیں بلکہ ان سے حقیقی انسانی مسائل کی عکاسی ہوتی ہے۔
قانون ساز اداروں کا کرداررباب فاطمہ نے 'آوازا پروگرام آف ایکشن' کو ایک سنگ میل اور بنیادی محرومیوں کو مواقع میں تبدیل کرنے کا واضح لائحہ عمل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے قومی سطح پر اقدامات درکار ہیں۔
اس ضمن میں ان ممالک کے قانون ساز اداروں کا فیصلہ کن کردار ہو گا۔ ارکان پارلیمنٹ کو اپنی قومی حکمت عملی اس پروگرام سے ہم آہنگ کرنا ہو گی۔
انہیں مالی وسائل کا حصول ممکن بنانا اور تجارت و باہمی جڑت کو فروغ دینا ہو گا۔ علاوہ ازیں، اس مقصد کے لیے بہتر انتظام اور پروگرام پر عملدرآمد کے لیے پارلیمانی گروہ بھی تشکیل دینا ہوں گے۔انہوں نے 'ایل ایل ڈی سی' کے ارکان پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آوازا پروگرام سے 60 کروڑ لوگوں کی خاطر ٹھوس اور پائیدار نتائج حاصل کرنے کے لیے ان کا قائدانہ کردار بہت ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فائلیمن یانگ نے ان کے پیغام کو دہراتے ہوئے واضح کیا کہ عالمگیر وعدوں کو ملکی سطح پر قابل پیمائش ترقی میں تبدیل کرنے کے لیے قانون ساز اداروں کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ ادارے بنیادی ڈھانچے، اختراع اور تجارت جیسے شعبوں میں ترقی کے لیے قانونی طریقہ کار مہیا کرتے ہیں اور تعلیم، صحت اور موسمیاتی اقدامات جیسے اہم شعبوں میں اقدامات کے لیے مالی وسائل انہی کے ذریعے مہیا ہوتے ہیں۔
فائلیمن یانگ نے ماحولیاتی ذمہ داری کی ہنگامی اہمیت پر بات کرتے ہوئے گزشتہ مہینے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی مشاورتی رائے کا حوالہ دیا جس میں تصدیق کی گئی تھی کہ موسمیاتی اقدامات تمام ممالک کی قانونی ذمہ داری ہیں۔
فائلیمن یانگ نے کہا کہ قانون ساز ادارے حکومتوں کی کارکردگی پر نظر رکھتے اور سرکاری وسائل کا موثر استعمال یقینی بناتے ہیں۔
ان کا کام پالیسی اور بجٹ تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ ریاست اور شہریوں کے مابین پل کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔انہوں نے ایل ایل ڈی سی کو درپیش مخصوص اور مشترکہ مسائل سے نمٹنے کے لیے علاقائی اور عالمی سطح پر بین پارلیمان مضبوط تعاون پر زور دیا اور کہا کہ دنیا بھر کے لوگوں کی پارلیمنٹ کی حیثیت سے جنرل اسمبلی ایل ایل ڈی سی کے مسائل عالمی ترقیاتی ایجنڈے پر برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خشکی میں گھرے ایل ایل ڈی سی کرنے کے لیے ممالک کے ممالک کی ان ممالک
پڑھیں:
پاک سعودیہ معاہدے سے بھارت کو ہونے والی پریشانی فطری ہے، خواجہ آصف
وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پاک سعودیہ معاہدے سے بھارت کو ہونے والی پریشانی فطری ہے، بھارت کا چیخیں مارنا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہمارے کسی کے خلاف کوئی عزائم نہیں، ہم تو برصغیر میں بھی امن چاہتے ہیں، اگر ہمارے خلاف جارحیت ہوتی ہے تو دفاع کرنا ہمارا حق ہو گا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کوئی نئی بات نہیں، اس کے ساتھ 40 سے 50 سال سے دفاعی تعاون جاری ہے۔
وزیرِ دفاع کا کہنا ہے کہ کچھ عناصر پاک سعودی عرب معاہدے کا اپنے مقاصد کے لیے غلط مطلب نکال رہے ہیں، اس معاہدے پر بعض عناصر کی جانب سے قیاس آرائیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کی جا رہی ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کبھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے کبھی نارمل ہوتا ہے، ضرورت کے مطابق سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کو بڑھاتے ہیں اور معمول کے مطابق بھی لے آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے کوئی جارحانہ عزائم نہیں، یہ اوّل و آخر ایک دفاعی معاہدہ ہے، ہم تو خود جارحیت کا شکار رہے ہیں، پاکستان تو خود بھارتی جارحیت کا شکار رہا ہے، اس معاہدے کے ذریعے تکنیکی و تربیتی تعاون ہو گا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ دونوں ممالک میں کسی پر حملہ ہوا تو ایک دوسرے کی مدد کریں گے، اس معاہدے سے کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، ہماری افواج ایک عرصے سے سعودی عرب میں موجود ہیں، اس معاہدے کے تحت ہماری سعودی عرب میں افواج کی موجودگی بڑھ جائے گی تو کسی کو کیا مسئلہ ہو گا؟