سرمایہ کاری کے مثبت امکانات: پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار بلند ترین سطح پر
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی:پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان جمعہ کے روز بھی برقرار رہا، جہاں سرمایہ کاروں کی جانب سے مسلسل پانچویں سیشن میں پرجوش سرمایہ کاری کے نتیجے میں انڈیکس نے 1 لاکھ 31 ہزار 949 پوائنٹس کی بلند ترین سطح پر بند ہو کر نئی تاریخ رقم کر دی۔
نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں بہتری، بجٹ میں درآمدی اشیا پر ٹیکس میں نرمی اور مستقبل قریب میں شرح سود میں کمی کی توقعات نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نئی توانائی بخشی ہے۔
اسٹاک مارکیٹ کے مثبت رجحان کی بنیادی وجوہات میں حکومت کا مختلف ذرائع سے کثیرالجہتی اور تجارتی قرضوں کے حصول کے ذریعے زرمبادلہ کے ذخائر کو 18 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچانا، ایس آئی ایف سی کے تحت ریکوڈک، معدنیات، تیل و گیس کے منصوبوں میں متوقع غیر ملکی سرمایہ کاری اور معاشی بہتری کے حوالے سے پیدا ہونے والا پرامید ماحول شامل ہیں۔
کاروبار کے دوران وقفے وقفے سے اتار چڑھاؤ کا رجحان جاری رہا، تاہم مجموعی طور پر رجحان مثبت رہا۔ دن کے دوران ایک موقع پر کے ایس ای 100 انڈیکس میں 1443 پوائنٹس کا بڑا اضافہ بھی دیکھنے میں آیا، جس کے نتیجے میں انڈیکس نے 1 لاکھ 32 ہزار پوائنٹس کی سطح کو عارضی طور پر عبور کر لیا،تاہم اختتامی لمحات میں دوبارہ پرافٹ ٹیکنگ کے باعث تیزی کی شدت میں معمولی کمی واقع ہوئی۔
کاروبار کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس مجموعی طور پر 1262.
اگرچہ مجموعی کاروباری حجم میں 18.53 فیصد کی کمی دیکھی گئی اور مجموعی طور پر 73 کروڑ 30 لاکھ حصص کے سودے ہوئے، مگر قیمتوں میں اضافے کے اعتبار سے یہ دن سرمایہ کاروں کے لیے منافع بخش ثابت ہوا۔ 473 کمپنیوں کے حصص کا کاروبار ہوا، جن میں سے 255 کمپنیوں کے شیئرز کی قیمتوں میں اضافہ، 177 میں کمی اور 41 میں استحکام ریکارڈ کیا گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق آئندہ دنوں میں اگر کرنسی مارکیٹ مستحکم رہی اور شرح سود میں کمی کی خبریں حقیقت میں بدل گئیں تو پاکستان اسٹاک مارکیٹ نئی بلندیاں عبور کر سکتی ہے، البتہ حکومت کو بجٹ اہداف پر عملدرآمد اور سیاسی استحکام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ یہ مثبت رجحان برقرار رہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پروکٹراینڈ گیمبل کی تنظیم نو کے بعد جیلٹ پاکستان کا اسٹاک مارکیٹ سے انخلا کا جائزہ لینے کا عندیہ
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 02 اکتوبر2025ء) جیلٹ شیور پاکستان نے کہا ہے کہ وہ اپنی پیرنٹ کمپنی پروکٹر اینڈ گیمبل (پی اینڈ جی)کی جانب سے اپنی عالمی تنظیم نو کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان میں کاروبار بند کرنے کے فیصلے کے بعد ممکنہ طور پر اسٹاک مارکیٹ سے اپنے انخلا (ڈی لسٹنگ)کا جائزہ لے گی۔کمپنی نے اسٹاک ایکسچینج میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا کہ جیلٹ پاکستان جلد ہی بورڈ اجلاس بلائے گی تاکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج سے ممکنہ انخلاس سمیت کاروبار کی بندش کے لیے درکار اقدامات کا جائزہ لے۔علاوہ ازیں، پی اینڈ جی نے کہا کہ وہ پاکستان میں اپنی پیداوار اور تجارتی سرگرمیاں ختم کر دے گی اور ملک میں صارفین کو خدمات فراہم کرنے کے لیے تیسرے فریق کے ڈسٹری بیوٹرز پر انحصار کرے گی۔(جاری ہے)
کمپنی کے بیان میں کہا گیا کہ ہم کاروبار کو معمول کے مطابق اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوجاتا، جس میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔مزید کہا گیا کہ اس فیصلے کی روشنی میں پی این جی پاکستان اور علاقائی معاون ٹیمیں فوری طور پر منتقلی کی منصوبہ بندی شروع کریں گی، جس میں سب سے پہلے توجہ پی اینڈ جی کے ملازمین پر دی جائے گی۔
بیان کے مطابق، وہ ملازمین جن کی ملازمتیں اس فیصلے سے متاثر ہوں گی، انہیں یا تو پی اینڈ جی کی بیرونِ ملک سرگرمیوں میں مواقع فراہم کیے جائیں گے یا پھر علیحدگی کے پیکجز دیے جائیں گے، جو مقامی قوانین، کمپنی کی پالیسیوں اور پی اینڈ جی کی اقدار و اصولوں کے مطابق ہوں گے۔اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹنٹس پاکستان (آئی سی اے پی)کے سابق صدر اسد علی شاہ نے پی اینڈ جی کے انخلا کو سرمایہ کاری کے ماحول کے لیے ایک اور خطرے کی گھنٹی قرار دیا۔انہوں نے ایکس پر لکھا کہ پروکٹر اینڈ گیمبل کا پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ ایک گہری حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ یہاں صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے سرمایہ کاروں کے لیے کاروبار کرنا بتدریج ناقابلِ عمل ہوتا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب بڑی عالمی کمپنیاں سامان سمیٹنے لگیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ ہماری پالیسی کی غیر یقینی صورتحال، کرنسی کے خطرات اور ریگولیٹری بدنظمی نے مارکیٹ کی کشش کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، یہ صرف ایک کمپنی کا معاملہ نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی اس تاثر کی عکاسی ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے بجائے اسے سزا دیتا ہے۔