Juraat:
2025-11-03@06:40:03 GMT

ابراہیمی معاہدے کی بازگشت

اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT

ابراہیمی معاہدے کی بازگشت

آواز
۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

کئی دہائیاں پہلے ابراہیمی معاہدے کی بازگشت سنائی دی تھی۔ آج بھی اس کا تذکرہ سننے میں آرہاہے۔ موجودہ عالمی منظر نامے کے تناظرمیں امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش اور خواہش ہے کہ ابراہم معاہدے کو وسعت دی جائے۔ دنیا کے تین بڑے مذاہب اسلام ، یہودیت اور عیسائی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ برسر ِ پیکار رہے ہیں۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان تینوں مذاہب کے لئے بڑے محترم وبرگذیدہ سمجھے جاتے ہیں ۔اسی بنیادپر دنیا میں امن کے قیام کیلئے ابراہیم معاہدے کی ضرورت پیش آئی۔ اس کا محرک امریکہ ہے جو پوری دنیا کو کسی نہ کسی انداز میں اپنا دست ِ نگر بنانا چاہتاہے وہ اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہا ہے۔ شنید ہے کہ ابراہم معاہدے دراصل معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے جس نے اسرائیل اور کئی عرب ممالک، بنیادی طور پر متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان ابراہم معاہدوں میں امریکہ ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے ۔ ان معاہدوں کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کو فروغ دینا ہے۔
یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت میں 2020ء میں اسرائیل اور کئی خلیجی ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے طے پایا تھا، اب دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بن رہا ہے، خاص طور پر ایران کے حوالے سے مشترکہ خدشات کو دور کرنے کے لئے ا مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے انکشاف کیا ہے کہ جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کہ ابراہم معاہدے درحقیقت مصر اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی جدید شکل ہے جس کے جواب میں مصرنے عرب دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرلیا تھا جس کا خمیازہ انہوں نے اپنی جان دے کر ادا کیا ۔اب سوال یہ جنم لیتاہے کہ ابراہیمی معاہدے کا مقصد کیا ہے؟ تاریخ میں اس کا جواب پوشیدہ ہے لیکن اس کے پس ِ پردہ کیا محرکات ہیں یا کیا ہو سکتے ہیں ،فی الحال اس بارے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہاجاسکتا ۔کہایہ جاتاہے کہ ا براہام ایکارڈز معاہدوں کا ایک مجموعہ ہے جس نے اسرائیل اور متعدد عرب ریاستوں کے درمیان سفارتی معمول پر لا نے میں اہم کردار اداکیا جس کی شروعات متحدہ عرب امارات اور بحرین سے ہوئی ۔اس کا باضابطہ ا ظہار اگست اور ستمبر 2020 میں کیا گیا اور 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن ڈی سی میں دستخط کردیے گئے، ان معاہدوں کی ثالثی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی گئی تھی۔
اسی پس منظر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین 1994 میں اردن کے بعد اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والے پہلے عرب ممالک بن گئے۔ اس کے بعد کے مہینوں میں، سوڈان اور مراکش نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کرلیا۔ حالانکہ سوڈان کا معاہدہ 2024 تک غیر توثیق شدہ ہے۔ کہاجاتاہے یہ معاہدے 2010 کی دہائی کے دوران اسرائیل اور سنی عرب ریاستوں کے درمیان بڑھتے ہوئے غیر سرکاری تعاون کے پس منظر میں سامنے آئے، جو کہ ایران کے بارے میں مشترکہ خدشات کی وجہ سے ہے۔ اسرائیلی حکام کے خلیجی ریاستوں کے دوروں اور محدود فوجی اور انٹیلی جنس تعاون کے آغاز کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششیں 2018 تک تیزی سے عام ہو گئی تھیں۔ 2020 کے وسط میں، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک معمول پر لانے کا معاہدہ ہوا جس کے بدلے میں مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو الحاق کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو معطل کیا گیا، جیسا کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں تجویز کیا گیا تھا۔ معاہدوں نے اقتصادی، سفارتی اور سیکورٹی تعاون کو باقاعدہ بنایا۔ مراکش کے معاملے میں، مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو امریکی تسلیم کرنے کے ساتھ معمول پر آیا۔ سوڈان کے لئے، اس میں دہشت گردی کے ریاستی سرپرستوں کی امریکی فہرست سے ہٹانا اور بین الاقوامی مالی امداد تک رسائی شامل تھی۔ ان معاہدوں کو وسیع تقاریب میں پیش کیا گیا اور ٹرمپ انتظامیہ نے ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر اسے بڑے پیمانے پر فروغ دیا۔
ابراہم معاہدوں کا عرب دنیا میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ لیکن یہ رد ِ عمل شدید قسم کا نہیں تھا ۔مشرق ِ وسطیٰ میں کئی حکومتوں نے اس کی حمایت کا اظہار کیا جبکہ بہت سے ممالک میں رائے عامہ کی مخالفت رہی، خاص طور پر اسرائیل فلسطینی تنازع کو حل کرنے میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ التواء میں چلاگیا ۔ اس کے باوجود، معاہدوں سے تجارت، دفاع، توانائی، ٹیکنالوجی اور ثقافتی تبادلے میں نئے اقدامات شروع ہوئے۔ "ابراہیم ایکارڈز” نام کا انتخاب ابراہیمی مذاہب۔یہودیت اور اسلام کے مشترکہ ورثے کی عکاسی کے لئے کیا گیا تھا ۔ اس طرح پس منظر جانے بغیر ان معاہدوں پر عرب دنیا کی اکثریت خاموش رہی لیکن 1993 اور 1995 میں اوسلو معاہدے کے ساتھ اسرائیل،فلسطینی امن عمل کو آگے بڑھایا گیا تھا لیکن بعد میں دوسری انتفادہ کے آغاز اور بل کلنٹن کی امریکی صدر کی مدت کے اختتام کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اس دوران ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل نے مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر میں اضافہ کرلیا اور ایک منصوبے کے تحت 2005 میں غزہ سے دستبرداری اختیار کر لی۔ 2006 کے انتخابات میں غزہ میں حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل نے 2008 کے بعد مصر کی مدد سے غزہ کی ناکہ بندی کو سخت کر کے آمدو رفت پر پابندی لگادی ۔ اسرائیل اور سنی عرب ریاستوں کے درمیان 2010 کی دہائی میں شیعہ ایران اور اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں مشترکہ خوف کی وجہ سے معاہدہ ہوا ۔ کہاجاتاہے کہ 2017 تک، سعودی عرب کے ساتھ غیر سرکاری تعاون کم از کم 5 سال سے جاری تھا، جس میں دونوں ممالک کی انٹیلی جنس سروسز ایک دوسرے کی مدد کرتی تھیں اور حکام باقاعدگی سے انٹیلی جنس شیئر کرتے تھے۔ 2016 تک، اعلیٰ سطحی اسرائیلی،فلسطینی اور اسرائیلی۔ عرب سیاست دانوں کے درمیان سربراہی اجلاس اور کانفرنسیں اور ان کی سیکورٹی اور انٹیلی جنس سروسز کے درمیان براہ راست رابطے نہ صرف معمول بن چکے تھے بلکہ بڑے عرب میڈیا میں کھل کر بحث کی جاتی تھی۔ 2018 میں، عمانی وزیر خارجہ نے یروشلم کا دورہ کیا،اور نیتن یاہو نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر اور موساد کے سربراہ کے ہمراہ اکتوبر میں عمان کا دورہ کیا تاکہ” مشرق وسطیٰ میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے حصول کے حوالے سے مشترکہ دلچسپی کے متعدد امور” کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اکتوبر 2018 میں بھی، اسرائیلی وزیر کھیل نے 2018 جوڈو گرینڈ سلیم ابوظہبی میں شرکت کی۔ دو اسرائیلی جوڈوکا نے سونے کے تمغے جیتے، اور ایوارڈ کی تقریبات کے دوران اسرائیل کا قومی ترانہ بجایا گیا، یہ پہلا خلیجی ریاست کے کھیلوں کے مقابلوں میں تھا۔ اگست 2019 میں، اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان امارات کے ساتھ فوجی تعاون کا اعلان کیا فروری 2019 وارسا کانفرنس کی تجویز امریکہ نے ایران کے خلاف اتحاد بنانے کے ارادے سے کی تھی۔ مغربی یورپی ریاستوں کی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری اور ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں دوبارہ شروع کرنے کی مخالفت کی وجہ سے، میزبان پولینڈ نے دو روزہ کانفرنس کے ایران مخالف پہلوؤں کو ٹھکرا دیا، اور پولینڈ امریکہ کے اختتامی بیان میں ایران کا ذکر نہیں کیا گیا۔ حاضری میں موجود 70 ممالک کے نمائندوں میں کئی عرب حکام بھی شامل تھے، جس نے 1991 میں میڈرڈ امن کانفرنس کے بعد پہلی صورت حال پیدا کی جہاں مشرق وسطیٰ پر مرکوز ایک ہی بین الاقوامی کانفرنس میں ایک اسرائیلی رہنما اور اعلیٰ عرب حکام شریک تھے۔ اس وقت میڈرڈ کانفرنس نے اوسلو معاہدے کے لیے اسٹیج تیار کیا۔ جن لوگوں سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ملاقات کی ان میں عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی بن عبداللہ بھی شامل تھے ۔ جس ملک کا انہوں نے اکتوبر 2018 میں دورہ کیا تھا۔ اس وقت نیتن یاہو کے دورے کے دو دن بعد، بن علوی نے بحرین میں ایک کانفرنس کے دوران مشورہ دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مشرق کی دیگر ریاستوں جیسا سلوک کیا جائے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ باہمی افہام و تفہیم اور بقائے باہمی کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں امن کو برقرار رکھنے اور اسے مضبوط بنانے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، ساتھ ہی مذہبی آزادی سمیت انسانی وقار اور آزادی کے احترام کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اب ایک بارپھر ابراہم معاہدوںکی بازگشت سنائی دے رہی ہے ، ٹرمپ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔وٹکوف نے یہ بھی کہا ہے کہ اْمید ہے جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے جن کے بارے میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا، یہ عمل مشرق وسطیٰ میں توازن لائے گا کیونکہ امریکا کی جانب سے سفارتی اقدامات کے ذریعے 2020ء میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تعلقات معمول پر لانے کے لیے ‘ابراہم معاہدہ’ ہوا تھا۔ اب امریکی صدر ٹرمپ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ابراہم معاہدے میں مزید ممالک شامل ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس سعودی عرب کو ایک ممکنہ امیدوار کے طور پر سامنے لایا ہے۔ لیکن سعودی عرب کے حکمران کو غزہ کی جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: کہ ابراہم معاہدے متحدہ عرب امارات معمول پر لانے اسرائیل اور کو تسلیم کر ان معاہدوں معاہدوں کا ریاستوں کے اسرائیل کے ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو انٹیلی جنس امریکی صدر معاہدے کی کے درمیان کی وجہ سے ایران کے کیا گیا کے ساتھ ہے کہ ا کے لئے کے بعد اور اس کیا ہے

پڑھیں:

جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے

جن لوگوں کو فلسطینیوں سے اسرائیل کے بے رحمانہ سلوک پر حیرت ہے۔انھیں یہ سن کے شاید مزید حیرت ہو کہ اسرائیل گزشتہ اٹھاون برس میں چونتیس فوجیوں سمیت چالیس امریکی شہریوں کو ہلاک اور لگ بھگ دو سو کو زخمی اور درجنوں کو گرفتار کر کے ٹارچر کر چکا ہے۔مگر آج تک کسی امریکی انتظامیہ نے چوں تک نہیں کی اور ہر ہلاکت خیز واقعہ کے بارے میں اسرائیلی معذرت اور موقف کو من و عن تسلیم کر کے معاملات پر مٹی ڈال دی۔

گویا جہاں اسرائیل کی دل جوئی کا سوال ہو وہاں کسی بھی امریکی انتظامیہ کے لیے اپنے ہی شہریوں کی جانوں کی کوئی اوقات نہیں۔ہم مرحلہ وار ان وارداتوں کا جائزہ لیں گے تاکہ آپ کے ذہن میں اسرائیل امریکا ریاستی گٹھ جوڑ کے بارے میں اگر کوئی ابہام اب تک ہے تو وہ بھی صاف ہو جائے۔

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ امریکا کا چھٹا بحری بیڑہ مستقل بحیرہ روم میں تعینات رہتا ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر اطالوی بندرگاہ نیپلز ہے۔ اس بیڑے کو یونان ، قبرص اور مالٹا سمیت علاقے کے ناٹو رکن ممالک کی بحری سہولتیں بھی حاصل ہیں۔

انیس سو تریسٹھ میں جاسوسی آلات سے لیس ایک بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی چھٹے بحری بیڑے میں شامل ہوا۔مئی انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیل اور مصر کے مابین انتہائی کشیدگی کے سبب یو ایس ایس لبرٹی کو برقیاتی سن گن لینے کے لیے مصری بحری حدود میں تعیناتی کا حکم ملا۔پانچ جون کو اسرائیلی فضائیہ نے مصری اور شامی ایرفورس کو ایک اچانک شب خون میں زمین پر ہی تباہ کر کے بے دست و پا کر دیا۔

یو ایس ایس لبرٹی مصر کے جزیرہ نما سینا کے ساحل سے بیس کلومیٹر اور اسرائیلی بحری حدود سے گیارہ کلومیٹر پرے گشت پر تھا۔آٹھ جون کی صبح دو اسرائیلی میراج طیاروں نے یو ایس ایس لبرٹی کے اوپر دو نچلی نگراں پروازیں کیں۔موسم صاف تھا اور فضا سے جہاز پر لہراتا امریکی پرچم اور جہاز کے ڈھانچے پر لکھا نمبر ( جی ٹی آر فائیو ) صاف پڑھا جا سکتا تھا۔

دوپہر بارہ بجے چھٹے امریکی بیڑے کے کمانڈر ولیم میکگناگلے نے لبرٹی کو پیغام بجھوایا کہ وہ موجودہ پوزیشن سے ایک سو ساٹھ کلومیٹر پیچھے ہٹ کے بین الاقوامی سمندری حدود میں آ جائے۔یہ پیغام بروقت جہاز تک نہ پہنچ سکا۔

تین بجے سہہ پہر دو اسرائیلی طیاروں نے جہاز کے کپتان سے مواصلاتی شناخت مانگے بغیر نیپام بم گرائے اور مشین گنوں سے فائرنگ کی۔جہاز میں آگ لگ گئی۔پچیس منٹ بعد تین اسرائیلی کشتیوں میں سے دو نے تارپیڈو فائر کیے۔ جہاز میں دو بڑے شگاف پڑ گئے اور وہ ڈوبنے لگا۔اس حملے کے آدھے گھنٹے بعد بقول اسرائیلی فوجی ہائی کمان احساس ہوگیا کہ ہم جسے مصری جہاز سمجھے تھے وہ دراصل امریکی تھا۔ چھٹے بیڑے کے کمانڈر نے چند سو ناٹیکل میل دور موجود دو طیارہ بردار جہازوں یو ایس ایس واشنگٹن اور ساراٹوگا سے چھ لڑاکا طیاروں اور بیڑے کے دو ڈیسٹرائرز ( تباہ کن جنگی جہاز ) کو یو ایس ایس لبرٹی کی مدد کے لیے روانہ کیا۔

مگر کچھ دیر بعد واشنگٹن سے وزیرِ دفاع رابرٹ میکنامارا کے کہنے پر امریکی طیاروں کو بیس پر واپسی کا حکم ملا کیونکہ تب تک میکنامارا کی ڈیسک پر اسرائیل کا ’’ معذرت نامہ ‘‘ پہنچ چکا تھا۔البتہ دو ڈیسٹرائرز نے موقع پر پہنچ کر تباہ حال یو ایس ایس لبرٹی کو کسی نہ کسی طور مالٹا کی بندرگاہ تک پہنچا دیا۔ قریب موجود سوویت بحریہ کے دو جہازوں نے بھی مدد کی۔

اس واردات میں یو ایس ایس لبرٹی پر موجود دو سو چورانوے کے عملے میں سے چونتیس جان سے گئے اور ایک سو اکہتر زخمی ہوئے۔امریکا بحریہ نے ایک بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا۔ اللہ جانے اس انکوائری کا کیا ہوا۔

اسرائیلی حکومت کی اپنی اندرونی انکوائری اس نتیجے پر پہنچی کہ نیول کمان کو حملے سے تین گھنٹے پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ یہ امریکی بحری جہاز ہے مگر یہ معلومات ’’ بروقت ‘‘ اس کمانڈر تک نہ پہنچائی جا سکیں جس نے غلط فہمی میں حملے کا حکم دیا۔

امریکی صدر جانسن لنڈن بی جانسن نے حملے کے چند دن بعد نیوزویک کو انٹرویو میں کہا کہ یہ جانا بوجھا حملہ تھا کیونکہ اسرائیل نہیں چاہتا تھا کہ ہم دورانِ جنگ حساس فوجی کمیونیکیشن سے مسلسل آگاہ رہیں۔البتہ چار برس بعد جانسن نے اپنی سوانح عمری میں یو ایس ایس لبرٹی کے بارے میں اسرائیلی تاویل کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ اس دلخراش واقعہ کا اسرائیل کو بھی شدید صدمہ ہے ‘‘۔

جب لبرٹی پر حملہ ہوا تو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل مارشل کارٹر تھے۔انھوں نے اکیس برس بعد ( انیس سو اٹھاسی ) ایک انٹرویو میں زبان کھولی کہ یہ کوئی بے ساختہ یا اتفاقی نہیں بلکہ سوچی سمجھی غلطی تھی۔انیس سو ستانوے میں اس واقعہ کی بیسویں برسی کے موقع پر یو ایس ایس لبرٹی کے ریٹائرڈ کپتان ولیم میکگناگلے نے کہا کہ یہ نہ تو اتفاقی تھا اور نہ ہی حادثہ۔اس واقعہ کی بھرپور غیر جانبدار تحقیق اب بھی ہو سکتی ہے مگر نہیں ہو گی۔

سن دو ہزار میں اسرائیلی سیاستداں اور مورخ مائیکل اورین نے کہا کہ لبرٹی کی فائل بند ہو چکی ہے۔ مگر دو ہزار سات میں متعدد امریکی انٹیلی جینس اور عسکری اہلکاروں نے اخبار شکاگو ٹریبون کو بتایا کہ وہ خفیہ فائلیں پڑھنے کے بعد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کو ابتدا سے علم تھا کہ لبرٹی امریکی جہاز ہے۔نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر اولیور کربی نے انٹرویو میں کہا کہ میں انجیل پر ہاتھ رکھ کے کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں روزِ اول سے یقین تھا کہ انھیں ( اسرائیلیوں کو ) سب معلوم ہے۔

اگر یو ایس ایس لبرٹی سے ایک چوتھائی کم واردات بھی کوئی اور ملک کرتا تو امریکا شاید پوری طاقت سے چڑھ دوڑتا۔اور ایسا ہی ہوا۔

یو ایس ایس لبرٹی پر حملے سے صرف تین برس پہلے دو اگست انیس سو چونسٹھ کو ویتنام کی خلیج ٹونکن میں گشت کرنے والے ایک جاسوس جنگی جہاز یو ایس ایس میڈوکس پر شمالی ویتنام کی تین تارپیڈو کشتیوں نے حملے کی کوشش کی۔دو روز بعد میڈوکس کے کپتان نے پھر پیغام بھیجا کہ اسے متعدد کشتیوں نے گھیر لیا ہے۔اس پیغام کا واشنگٹن میں یہ مطلب لیا گیا کہ میڈوکس پر دو روز میں ایک اور حملہ ہو گیا ہے۔

چنانچہ مزید چھان بین کے بغیر جانسن انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے بعجلت ایک قرار داد منظور کروا کے جنگ کا اختیار حاصل کر لیا۔ یوں اس گیارہ سالہ جنگ کا آغاز ہوا جس میں تیس لاکھ ویتنامی اور پچاس ہزار امریکی جانیں گئیں۔حالانکہ خلیج ٹونکن کے واقعہ کی چند روز بعد تفصیلی تحقیق کے سبب یہ بات امریکیوں پر کھل چکی تھی کہ دو اگست کو جو ویتنامی حملہ ہوا اس میں یو ایس ایس میڈوکس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔جب کہ چار اگست کو میڈوکس کا ریڈار فنی خرابی کے سبب ایسے سگنلز دینے لگا جیسے چاروں طرف سے حملہ ہو گیا ہو مگر درحقیقت چار اگست کو کوئی حملہ ہوا ہی نہیں۔

جب خلیج ٹونکن کے واقعہ کو جنگ کا بہانہ بنایا گیا تب بھی رابرٹ میکنامارا امریکی وزیرِ دفاع تھے۔جب یو ایس ایس لبرٹی تباہ ہوا تب بھی وہی وزیرِ دفاع تھے۔ایک واقعہ جو ہوا ہی نہیں اس پر اعلانِ جنگ ہو گیا۔اور ایک واقعہ جس میں لگ بھگ تین درجن امریکی فوجی مارے گئے اسے غلطی کہہ کر درگذر کر دیا گیا۔

اس واقعہ پر امریکا کے معذرت خواہانہ رویے کے بعد اسرائیل کی ہر حکومت کو یقین ہوتا چلا گیا کہ وہ کچھ بھی کر گذرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔اس دیدہ دلیری کے آیندہ نتائج ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 افراد شہید
  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 فلسطینی شہید
  • حماس نے غزہ امن معاہدے کے تحت مزید 3 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
  • غزہ جنگ بندی معاہدے پر عمل آمد کیلئے ترکیے میں اجلاس، اسحاق ڈار شرکت کریں گے
  • غزہ میں مسلسل اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، بلال عباس قادری
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے
  • اسرائیل کی جانب سے مزید 30 فلسطینیوں کی لاشیں غزہ انتظامیہ کے حوالے
  • امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کردیے