غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کا وقت آگیا، اسرائیلی وزیر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
اسرائیلی وزیر انصاف یاریف لیوِن نے کہا ہے کہ غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کا وقت آ چکا ہے۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر انصاف یاریف لیوِن نے یہ بات اسرائیلی آبادکاروں کے رہنما یوسی ڈاگان سے ملاقات کے دوران کہی۔
یاریف لیوِن کے مطابق غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کا موقع تاریخی ہوگا جسے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا اشارہ ان علاقوں کی جانب بھی تھا جنہیں بین الاقوامی سطح پر متنازعہ قرار دیا جاتا ہے۔
اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بتایا کہ ملاقات کے دوران لیوِن نے ڈاگان کو مخاطب کرتے ہوئے جو کہا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم خود پر اپنی خودمختاری نافذ کریں۔ اور اس حوالے سے میرا مؤقف بالکل واضح ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔
مقبوضہ مغربی کنارہ 1967 سے اسرائیلی فوج کے قبضے میں ہے، لیکن اسے باضابطہ طور پر کبھی اسرائیل میں ضم نہیں کیا گیا۔ تاہم دائیں بازو کے سخت گیر وزرا طویل عرصے سے اس الحاق پر زور دیتے آئے ہیں۔
حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے اور اس کے بعد غزہ پر شروع ہونے والی جنگ کے بعد، اسرائیلی حکام نے فلسطینی علاقوں کا نقشہ ازسرِنو ترتیب دینا شروع کر دیا ہے۔
اس کے بعد سے اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے، خاص طور پر شمالی علاقوں میں، روزانہ کی بنیاد پر چھاپے اور اجتماعی گرفتاریاں تیز کر دی ہیں۔ ان علاقوں میں اسرائیلی بلڈوزروں نے رہائشی بستیاں مسمار کی ہیں، اور کم از کم 40 ہزار فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسرائیل میں ضم
پڑھیں:
حماس غزہ میں جنگ بندی کے لیے کس بات کی ضمانت مانگ رہی ہے؟
غزہ میں تازہ اسرائیلی حملوں میں کم از کم 59 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جبکہ حماس کی جانب سے امریکا کی نئی جنگ بندی تجویز پر اس شرط کے ساتھ آمادگی ظاہر کی گئی ہے کہ اس کے ذریعے جنگ کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جائے گا۔
عرب خبر رساں ادارے نے ایک ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ بتایا ہے کہ حماس اس بات کی ضمانت چاہتی ہے کہ مجوزہ 60 روزہ سیزفائر کا اختتام جنگ کے خاتمے پر ہوگا، نہ کہ محض ایک عارضی وقفہ۔ یہ شرط ماضی کی متعدد ناکام مذاکراتی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل غزہ سے نکل جائے، جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے معاہدے پر تیار ہیں، حماس
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اعلان کیا تھا کہ اسرائیل نے حماس کے ساتھ مجوزہ سیزفائر معاہدے کی شرائط تسلیم کرلی ہیں، اس معاہدے کے تحت دونوں فریق 60 روزہ سیزفائر کے دوران جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے بات چیت جاری رکھیں گے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق اگر حماس کی جانب سے جمعہ تک مثبت جواب آتا ہے تو اسرائیل بھی مذاکرات کے اگلے مرحلے میں شریک ہوگا۔ یہ بات چیت ممکنہ طور پر مصر یا قطر میں منعقد کی جائے گی، جہاں پہلے سے ہی ثالثی جاری ہے۔
معاہدے کی تفصیلات میں شامل ہے کہ حماس 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو بتدریج رہا کرے گی اور 18 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرے گی، جس کے بدلے میں فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق غزہ میں اب بھی 50 یرغمالیوں میں سے 20 زندہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق امریکی تجویز پر دستخط کر دیے
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے قریبی ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پیر کو امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے واشنگٹن جارہے ہیں، لیکن اس سے قبل اسرائیلی کابینہ سیزفائر کی منظوری دے سکتی ہے۔
اسرائیلی وزیر توانائی ایلی کوہن نے مقامی ویب سائٹ Ynet سے گفتگو میں کہا کہ ’معاہدے کو آگے بڑھانے کی مکمل تیاری ہے۔‘
ادھر غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بمباری کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق، اسرائیلی حملے میں غزہ سٹی کے ایک اسکول پر بمباری کے نتیجے میں 17 افراد شہید ہوگئے، جہاں بے گھر خاندان پناہ لیے ہوئے تھے۔ ایک عینی شاہد وفا العرقان نے بتایا۔ ’ہم سوئے ہوئے تھے کہ اچانک خیمہ ہم پر گر گیا اور آگ بھڑک اٹھی۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا، کیا یہ انصاف ہے کہ اتنے سارے بچے جل جائیں؟‘
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی کے امکانات روشن، نیتن یاہو امریکی تجویز مان گئے
جنوبی غزہ کے ناصر اسپتال کے عملے کے مطابق امدادی سامان کے ایک مرکز کی جانب جاتے ہوئے اسرائیلی فائرنگ میں کم از کم 20 افراد شہید ہوئے۔
یاد رہے کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی تھی جب حماس کے جنگجو اسرائیل میں داخل ہو کر 1,200 افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔ اس کے بعد سے اسرائیل کی فوجی کارروائی میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 57 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ 20 لاکھ کی آبادی میں سے بیشتر بے گھر اور بھوک کا شکار ہوچکے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں کرے گا جب تک حماس غزہ میں مسلح اور برسراقتدار ہے، جبکہ حماس، جو اب شدید کمزور ہوچکی ہے، جنگ کے خاتمے کی صورت میں تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیل جنگ بندی حماس غزہ فلسطین