اسرائیلی میڈیا نے جنگ بندی معاہدے کی مزید تفصیلات جاری کر دیں
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیلی میڈیا کے مطابق غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امن کوششیں تیز ہو گئی ہیں، اور حماس کی جانب سے لچک دار رویہ اختیار کیے جانے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق قطر اور امریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی نئی جنگ بندی تجاویز کا حماس جمعہ تک حتمی جواب دے سکتی ہے، جبکہ اسرائیل ان تجاویز کو پہلے ہی منظور کر چکا ہے۔ اگر حماس راضی ہو جاتی ہے تو اسرائیلی وفد فوری طور پر دوحہ روانہ ہو جائے گا۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ تل ابیب اس بات پر بھی آمادہ ہے کہ اگر جنگ بندی کا معاہدہ فوری طور پر نہ بھی ہو، تب بھی بات چیت جاری رکھنے کی تحریری ضمانت دینے کو تیار ہے۔ امریکا کی خواہش ہے کہ آئندہ ہفتے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن کے دوران جنگ بندی کا باضابطہ اعلان ہو، اور ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف اس کی ذاتی ضمانت دیں گے بلکہ اعلان بھی خود کریں گے۔
رپورٹس کے مطابق جنگ بندی مرحلہ وار ہوگی، جس میں پہلے مرحلے میں 10 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے، جبکہ 18 اسرائیلیوں کی لاشوں کی واپسی تین مراحل میں کی جائے گی۔ فلسطینی قیدیوں کی رہائی پچھلے معاہدے کے طرز پر ہوگی، جس میں حماس اسیران کے نام فراہم کرے گی، جن میں سے بعض ایسے ہیں جن کی رہائی سے اسرائیل اب تک انکاری رہا ہے، اور یہی پہلو ممکنہ رکاوٹ بھی بن سکتا ہے۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل امداد کی تقسیم کا موجودہ طریقہ، جو ایک امریکی کمپنی کے ذریعے ہو رہا ہے، برقرار رکھنا چاہتا ہے، جبکہ حماس چاہتی ہے کہ امداد اقوام متحدہ کے ذریعے تقسیم کی جائے۔ مزید یہ کہ حماس روزانہ 400 سے 600 امدادی ٹرکوں کے غزہ میں داخلے کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔
ادھر ایک اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس یرغمالیوں کی رہائی کی تقریب منعقد کرنے سے گریز کرے گی تاکہ اسے فتح کے طور پر پیش نہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ اسرائیل نے 60 روزہ جنگ بندی کی شرائط تسلیم کر لی ہیں، اور اس دوران تمام فریقین جنگ کے خاتمے کی جامع حکمت عملی پر مل کر کام کریں گے۔ اس حوالے سے قطر اور مصر اہم تجاویز پیش کریں گے۔
اسرائیلی میڈیا کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر سب کچھ طے پا گیا تو آئندہ دو ہفتوں میں غزہ جنگ ختم ہو سکتی ہے، اور بعد ازاں حماس کی جگہ غزہ کا انتظام چار عرب ممالک کو سونپا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیلی میڈیا کی رہائی
پڑھیں:
سیکورٹی کونسل ووٹنگ سے قبل اسرائیل کا ایک بار پھر فلسطین کو قبول نہ کرنے کا اعلان
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور دیگر حکومتی ارکان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی حمایت یافتہ غزہ امن منصوبے کی توثیق کرنے والی قرارداد پر ووٹنگ سے قبل فلسطینی ریاست کو ایک بار پھر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قرارداد کا مسودہ اسرائیل اور حماس کے درمیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کی پیروی ہے جس میں کونسل کو غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ اور ایک عارضی بین الاقوامی سیکورٹی فورس کی تعیناتی پر آمادہ کرے گا۔
پچھلے مسودوں کے برعکس اس قرارداد کے تازہ ترین ورژن میں مستقبل کی ممکنہ فلسطینی ریاست کا ذکر ہے جس کی اسرائیلی حکومت سخت خلاف ہے۔
گزشتہ روز اسرائیلی کابینہ کے اجلاس میں نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے لیے ہماری مخالفت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
انہوں نے طویل عرصے سے فلسطین کی آزادی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل حماس کو نوازے گی اور اسرائیل کی سرحدوں پر حماس کے زیر انتظام ایک اور بھی بڑی ریاست کا باعث بنے گی۔