پاکستان میں آج ڈالر اور دیگر ممالک کی کرنسی ریٹ
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
اسلام آباد(اوصاف نیوز)پاکستان میں افراط زر کی کمی کے باعث پاکستانی کرنسی طویل عرصہ سے گراوٹ کا شکارہے جس کے بعد امریکی ڈالر میںاضافہ معمول بن چکا ہے .
ڈالر اور پاکستانی روپے کے تبادلہ کی شرح پاکستان کی معیشت کے لیے بہت اہم ہے۔ جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہوتی ہے، تو پاکستان کے لیے درآمدات مہنگی ہو جاتی ہیں، جس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔
پاکستان بہت سی چیزیں باہر سے منگواتا ہے، جیسے کہ تیل اور مشینری، اس لیے ڈالر کا ریٹ بڑھنے سے ان سب کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں بڑھتی ہے، تو درآمدات سستی ہو جاتی ہیں اور مہنگائی کم ہو سکتی ہے، لیکن اس سے
پاکستان کی برآمدات کی قیمت باہر کے ملکوں میں بڑھ جاتی ہے، جس سے برآمدات کم ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی عوام ڈالر، اماراتی درہم، یورو اور سعودی ریال کے ریٹوں میں اس لیے دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ ان کرنسیوں کے پاکستان کی معیشت اور ان کی اپنی زندگی پر بہت سے اثرات ہوتے ہیں۔ بہت سے پاکستانی بیرون ملک میں کام کرتے ہیں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ اور یورپ میں، اور وہ ان کرنسیوں میں ہی پیسہ کماتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ، 30 قیدی پاکستان منتقل
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
ڈیجیٹل کرنسی کیلیے پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا جائے گا‘ گورنر اسٹیٹ بینک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک ) اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گورنر جمیل احمد نے کہا ہے کہ ادارہ ڈیجیٹل کرنسی کے لیے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ورچوئل اثاثہ جات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی کو حتمی شکل دے رہا ہے۔وہ سری لنکا کے مرکزی بینک کے گورنر پی نندلال ویراسنگھے کے ساتھ ایک پینل پر بات کر رہے تھے، جہاں دونوں جنوبی ایشیا میں مالیاتی پالیسی کے چیلنجز پر گفتگو کر رہے تھے۔جمیل احمد نے کہا کہ ایک نیا قانون ’ ورچوئل اثاثہ جات کے شعبے کے لائسنسنگ اور ریگولیشن کی بنیاد رکھے گا اور مرکزی بینک کچھ ٹیکنالوجی پارٹنرز کے ساتھ رابطے میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ایس بی پی اپنی سخت پالیسی برقرار رکھے گا تاکہ درمیانی مدت میں افراط زر کو 5 تا 7 فیصد کے ہدف پر مستحکم کیا جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اب اس سخت مالیاتی پالیسی کے نتائج دیکھ رہے ہیں، خواہ وہ افراط زر پر ہوں یا بیرونی کھاتے پر۔جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان ڈالر کی کمزوری سے زیادہ متاثر نہیں ہو گا، کیونکہ اس کا زیادہ تر غیر ملکی قرضہ ڈالر میں ہے اور صرف 13 فیصد یورو بانڈز یا کمرشل قرضوں پر مشتمل ہے۔جمیل احمد نے کہا کہ پاکستان کا تین سالہ 7 ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پروگرام، جو ستمبر 2027ء تک جاری رہے گا، درست سمت میں جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں مالی پالیسی، توانائی کی قیمتوں اور زرمبادلہ کی مارکیٹ میں اصلاحات ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اس ( آئی ایم ایف پروگرام) کے بعد شاید ہمیں فوری طور پر کسی نئے پروگرام کی ضرورت نہ پڑے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا پاکستان نے چین سے خاص طور پر فوجی ساز و سامان کی درآمدات کے لیے کوئی مالی منصوبے ترتیب دیے ہیں تو گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ وہ ایسے کسی منصوبے سے آگاہ نہیں ہیں۔