Daily Ausaf:
2025-09-17@23:40:28 GMT

قرضوں کے شکنجے میں جکڑی قوم

اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT

کسی بھی قوم کی معیشت کی بنیاد استحکام، خود انحصاری اور مالی نظم و ضبط پر رکھی جاتی ہے ،لیکن جب کو ئی ریاست اپنے اصل فرائض کو بھول کر اللوں تللوں میں لگ جاتی ہے تو ریاست کاخزانہ قرضوں میں جکڑ جاتا ہے ۔بجٹ قرضوں کے سود کی ادائیگیوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے ،یوں ہر آنے والی حکومت قرضوں کا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈال دیتی ہے اور اس کاحل مزید قرضے لینے کی صورت میں نکالا جاتا ہے اسی حشر سامانی کے پیش نظر ہماری معیشت فقط عددی کھیل کا روپ دھار چکی ہے ،اشرافیہ کو اپنے سوا کسی کی فکر نہیں ،قومی معیشت کی کشتی بھنور میں ہے ،ملک نازک ترین موڑ پر کھڑا ہے ۔ایک نظریاتی مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرے والے اسلامی ملک کا رواں رواں 77 برس میں سود کے بد مست ہاتھی کے پائوں تلے روندا جا رہا ہے ۔ہر اٹھایا جانے والا قرضہ ترقی کا زینہ بننے کی بجائے قوم کے بچے بچے کے گلے کا طوق بنتا جارہا ہے ۔کسی کو کچھ خبر نہیں کہ حاصل کئے جانے والے قرضے کن مدوں پر خرچ کئے جاتے ہیں ،ان کے مصارف کیا ہیں ۔
اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2025ء سال رواں کے مئی تک کے جاری کردہ اعداد و شمار نہ صرف تشویش ناک ہیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے مالی غلامی کی طرف دھکیلنے کا شاخسانہ بن رہے ہیں ۔وفاقی حکومت کے مجموعی قرضے 76،045 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں ۔جبکہ مقامی قرضوں کا بوجھ 53 اعشاریہ 460 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ۔جو حکومت نے اندرون ملک بنکوں اور تجارتی مالیاتی اداروں اور اسٹیٹ بنک سے حاصل کئے ۔ عالمی مالیاتی اداروں ،بانڈز اور دو طرفہ قرضوں کا بوجھ 22 اعشاریہ 585 ارب روپے ہے۔اس میں سالانہ اضافہ 8 اعشاریہ 312 ارب روپے ہوتا ہے ۔ مالی سال 2024 اور 2025کے ابتدائی گیارہ ماہ میں 7131 ارب روپے قرضہ لیاگیا ،انتہا کا غضب یہ ہے کہ صرف مئی 2025 ء کے ایک مہینے میں 1109 روپے قرضہ لیا گیا یعنی تقریبا ً36 ارب روپے روزانہ کی اوسط سے ۔ان قرضوں کے لئے جانے کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں وہ یہ ہیں کہ بجٹ خسارے کی بابت ہر سال آمدن اور خرچ میں ہوش ربا تفاوت ہے جو ان قرضوں ہی سے پورا کیا جاتا ہے۔اس پر ظلم یہ کہ وفاقی بجٹ کا تقریبا ً50 فیصد قرضوں کے سود کی ادائیگی کی مد میں ادا کیا جاتا ہے ۔
اس پر مستزاد یہ کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بیرونی قرضوں کو نا گزیر بناتا ہے ۔اس پر دردناک المیہ یہ کہ ٹیکس جی ڈی پی کی شرح 10 سے 11 فیصد کے درمیان چکراتا رہتا ہے جو دنیا کی کم ترین سطح پر شمار ہوتاہے۔غرض ان ناں سٹاپ قرضوں کے نتائج یہ رونما ہوتے ہیں کہ سودکا بوجھ فزوں تر ہوجاتا ہے ۔جس کی وجہ سے پبلک سیکٹرڈیویلپمنٹ پروگرام مسلسل تہہ و بالا ہوتا رہتا ہے اس سے سب سے زیادہ اثر صحت ،تعلیم اور انفراسٹرکچر پر پڑتا ہے اور معاشی خود مختاری کے سارے خواب بکھر جاتے ہیں ۔کرنسی کی ویلیو گر جاتی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی آسمان کو چھونے لگتی ہے عام آدمی کا جینا حرام ہونے کے ساتھ متوسط طبقہ غربت و افلاس کی زد میں آتا چلا جاتا ہے ۔مختصر یہ کہ جب تک اخراجات میں کفایت شعاری نہیں برتی جاتی،وزیروں ،مشیروں اور اسٹیبلشمنٹ کی عیاشیوں اور فضول خرچیوں پر پابندی عائد نہیں کی جاتی ۔ملکی ترقی اور معیشت کے سنبھلنے کا سوچنا بھی کار ادق ہے اور قوم کے قرضوں کے شکنجے میں جکڑیوجود کو کسی طور نجات نہیں مل سکتی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ارب روپے قرضوں کے جاتا ہے

پڑھیں:

سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز  کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
  • حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ
  • تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے قرض قبل ازوقت واپس کیا گیا، ترجمان وزارت خزانہ
  • پی ٹی آئی کے سینئر رہنما قاضی انور کی پارٹی قیادت پر تنقید
  • حکومت کا 2600 ارب کے قرضے قبل از وقت واپس اور سود میں 850 ارب کی بچت کا دعویٰ
  • مالی سال 2025 میں وفاقی خسارہ کم ہو کر 7.1 ٹریلین روپے رہا، وزارت خزانہ کا دعویٰ
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • شہباز شریف حکومت نے صرف 16 ماہ میں 13 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ کر کے قرضوں میں اضافے کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے
  • پاکستان کے قرضوں میں نمایاں اضافہ، ہر پاکستانی کتنا مقروض؟