خیبرپختونخوا حکومت نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں ’احساس اپنا گھر اسکیم‘ پر باضابطہ عملدرآمد کا آغاز کردیا ہے، جس کے تحت کم آمدنی والے افراد کو بلاسود قرضے فراہم کیے جا رہے ہیں۔

اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک تقریب منعقد ہوئی، جس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ وزیر اعلیٰ نے اسکیم کے تحت منتخب درخواست دہندگان کو بلاسود قرضوں کے چیک تقسیم کیے۔

یہ بھی پڑھیں: بے گھر افراد کے لیے پنجاب میں ہر روز مزید 300 گھر بننے لگے، ‘اپنی زمین اپنا گھر’ اسکیم کا اجرا

اس اسکیم کے لیے حکومت نے 4 ارب روپے مختص کیے ہیں، اور قرضے کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی کے ذریعے شفاف انداز میں فراہم کیے جا رہے ہیں۔

اسکیم کے تحت وہ افراد جن کی عمر 18 سے 65 سال کے درمیان اور ماہانہ آمدنی ڈیڑھ لاکھ روپے سے کم ہے، قرض کے اہل ہیں۔ اہل درخواست دہندگان کو 15 لاکھ روپے تک کے بلاسود قرضے دیے جا رہے ہیں، جنہیں 7 سال کی مدت میں آسان اقساط میں واپس کرنا ہوگا۔

اس کے علاوہ ریوالونگ فنڈ سسٹم کے ذریعے آنے والے سالوں میں بھی قرضوں کی فراہمی جاری رکھی جائے گی۔

اسکیم کے پہلے مرحلے میں حکومت کو ایک لاکھ 23 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 18 ہزار 555 درخواست دہندگان اسکیم کے تمام معیار پر پورا اترے۔ قرضوں کی تقسیم تمام اضلاع میں آبادی کے تناسب سے کی جا رہی ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ’احساس اپنا گھر اسکیم‘ کو صوبائی حکومت کا فلیگ شپ اور غریب دوست منصوبہ قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ یہ منصوبہ کم آمدنی والے لوگوں کو چھت فراہم کرنے کے لیے عمران خان کے وژن کا حصہ ہے۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیم کی مسلسل محنت کے باعث صوبہ معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہو چکا ہے، اور اب ہم اپنے وسائل میں اضافہ کر کے انہیں عوام پر خرچ کریں گے۔ ہر شعبے میں عوام کو سہولیات فراہم کریں گے اور ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کیے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ جلد مستحق گھرانوں کو سولر سسٹمز کی فراہمی کا منصوبہ بھی شروع کیا جائے گا۔

علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’احساس اپنا گھر‘ اور ’سولر اسکیم‘ میں مکمل شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اپنا گھر لینے والوں کے لیے خوشخبری، حکومت نے نئی اسکیم لانے کا فیصلہ کرلیا

انہوں نے کہاکہ سفارشی کلچر عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد میں رکاوٹ ہے، اور ہم اس کلچر کا خاتمہ کرکے عوام کا اعتماد بحال کریں گے۔ حکومت صوبے کے عوام کو معیاری رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لیے متعدد منصوبوں پر کام کررہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews احساس اپنا گھر اسکیم بلاسود قرضے خیبرپختونخوا درخواست دہندگان صوبائی حکومت عمران خان ویژن وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: احساس اپنا گھر اسکیم بلاسود قرضے خیبرپختونخوا درخواست دہندگان صوبائی حکومت عمران خان ویژن وی نیوز احساس اپنا گھر اسکیم علی امین گنڈاپور درخواست دہندگان وزیر اعلی کی فراہمی اسکیم کے کے لیے

پڑھیں:

خوشحالی کے دعوے اور زمینی حقائق

بجٹ بنانااوراسے پاس کروا لینا شایدکسی حکومت کے لیے مشکل نہیں ہوتا،ہمارے یہاں ہر حکومت نے یہ کام مکمل کامیابی سے کرکے دکھایا ہے۔ موجودہ حکمراں جس سابقہ حکومت کو ایک ناکام حکومت قرار دیتے رہے ہیں اس حکومت نے بھی اپنے تین چار سالہ دور میں جتنے بھی بجٹ پیش کیے وہ سب کے سب نہ صرف پارلیمنٹ سے پاس اور منظور بھی ہوگئے بلکہ اُن پر عملدرآمد بھی ہوگیا۔

یہ سالانہ بجٹ دراصل حکومتی اخراجات کے لیے بنایاجاتاہے تاکہ وہ اگلے ایک برس کے لیے مطلوبہ وسائل حاصل کر سکے۔اس مقصد سے اسے عوام پر ٹیکسوں کابوجھ ڈالنے کے طریقے وضع کرنا پڑتے ہیں۔

کچھ ٹیکسوں میںکمی اورکچھ میں اضافہ اورساتھ ہی ساتھ نئے ٹیکس بھی متعارف کرواکرعوام پر لاگو بھی کیے جاتے ہیں۔گزشتہ برس زرعی ٹیکس سے متعلق یہ کہاگیا کہ یہ IMF کی ایک بڑی شرط ہے اوراسے لاگو کرناہماری مجبوری ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی جو اس ٹیکس کی ہمیشہ خلاف رہی ہے وہ بھی نجانے کیوں اس زرعی ٹیکس پر راضی اوررضامند ہوگئی۔بہرحال نئے بجٹ سے ایک دوماہ پہلے IMF کو خوش کرنے کے لیے یہ ٹیکس عائد کردیا گیا۔ مگر ابھی اس مد میں ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیاگیاتھا کہ وزیراعظم نے اس ٹیکس کو واپس لینے کا عندیا دے ڈالا۔

سمجھ نہیں آرہا کہ دو چار ماہ میں ایسا کونساکرشمہ ہوگیا کہ IMF ٰیہ ٹیکس نہ لگانے پرخوش دلی سے مان گیا،وہ IMF جو اپنی کڑی شرائط کے ساتھ عام عوام کو کوئی ریلیف دینے کو تیار نہیں ہوتا وہ اتنی آسانی سے زرعی ٹیکس واپس لینے پرکیونکر رضامند ہوگیا۔ہم اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ بجٹ سازی صرف اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے ۔یہ نہ صرف عوام کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کے لیے بنایا جاتا ہے بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کو بھی’’ ماموں‘‘ بنانے کے لیے بنایاجاتا ہے۔

حالیہ بجٹ کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ بجٹ IMFکا تیار کردہ ہے ۔ حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔مگر اس بجٹ میں پارلیمنٹیرین اوراُن کے سربراہوں کے ماہانہ مشاہروں میں بے تحاشہ اضافے پر کسی کے ماتھے پر بل نہیں پڑے جب کہ عوام کی تنخواہوں میں معمولی اضافہ پر بھی کہا جاتا ہے کہ IMF راضی نہیں ہے۔

اسی ہوشیاری اورشاطر بازی کا نام ہی ہے بجٹ سازی۔جسے اس طرح بنایا جاتا ہے کہ کسی کی سمجھ میں بھی نہ آئے اور اپنا کام بھی ہوجائے۔جب بجٹ پیش کیا گیا تو مخالف بنچوں سے بڑی آوازیں آئیں اور جس میں پاکستان پیپلزپارٹی جو بظاہر حکومت کا حصہ ہے اس نے بھی اس کی مخالفت میں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اپنا حصہ ضرور ڈالا۔مگر پھر اچانک کیا ہوا کہ چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے غیر ملکی دورے سے واپسی پروزیراعظم سے ایک ملاقات کی اور یہ بجٹ منظور ہوگیا۔

موجودہ حکومت اس عارضی حکومت کا تسلسل ہے جو سابقہ حکومت کے خلاف کامیاب عدم اعتماد تحریک کے بعد معرض وجود میں آئی تھی۔اس وقت بھی یہی دو بڑی پارٹیاں حکومت کا حصہ تھیں اورآج بھی ہیں۔ مگر اس سولہ ماہ کی عارضی حکومت کی کارکردگی اس قدر خراب تھی کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے پرمجبورہوگئے تھے اوراس کا نتیجہ ہم نے فروری 2024 کے انتخابات میں بھی دیکھ لیا ۔

عوام نے اپنی ناراضی کا اظہار ووٹ کی شکل میں دے دیا۔ ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ کی قیادت اُمیدوار بن گئی اور اسے اپنی سابقہ غلطیوں کو سدھارنے کا ایک بہترین موقعہ ہاتھ آگیا۔ جو بدنامی انھوں نے اپنے سابقہ سولہ ماہ کی حکومت میں اپنے نام کی تھی اسے دھونے اورمٹانے کا ایک نادر موقعہ حاصل ہوگیا۔ شروع شروع میں تو ایسا لگ رہا تھاکہ واقعی وہ ملک کے معاشی حالات سدھارنے کی انتھک کوششیں کررہے ہیں لیکن اب یہ تاثر اپنا اثرکھوتا دکھائی دینے لگاہے۔

مہنگائی کی کمی کے دعوے صرف زبانی جمع خر چ کے سوا کچھ نہیں ۔ سوائے گندم کے آٹے کے کوئی شہ کی قیمت بھی کم نہیں ہوئی ہے ۔ چینی کو ہی لے لیجیے جس کی قیمت 180اور دوسو روپے تک پہنچ گئی ہے مگر وزیراعظم خاموش ہیں۔ اسی طرح جب پٹرول عالمی مارکیٹ میں سستے داموں مل رہا ہے تو اپنے یہاں اس میںاضافہ کیوں کیا گیااس کا جواز بھی پیش نہیںکیاگیا۔ ڈالر رفتہ رفتہ پھر مہنگاہورہا ہے اور279 سے بڑھ کر 284 تک پہنچ گیامگر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

زرمبادلہ کے ذخائر اگر کچھ مستحکم ہوئے ہیںتو وہ بھی عارضی بنیادوں پر۔ جس دن چین ، سعودی عرب اورمتحدہ امارت نے اپنے دکھاوے کے لیے رکھے گئے ڈالرواپس مانگ لیے یہ ساری خوشحالی کابھانڈایکدم پھوٹ جائے گا۔کمزور بنیادوں پراستوار کی گئی معیشت کبھی بھی شکست وریخت سے دوچار ہوسکتی ہے۔

وزیراعظم نے اپنے اس ایک ڈیڑھ سال میں نجانے کتنے غیرملکی دورے کرڈالے ہیں اورہردورے کے بعد قوم کویہ باورکیاجاتا ہے کہ دوملین ڈالر یا تین ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے میمورینڈم سائن ہوگئے ہیں۔ لگتا ہے یہ میمورینڈم صرف کاغذوں پرہی رہیں گے ، ان پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیںدے رہے۔

یہاں فیکٹریاں لگانے یا قوم کو مستقل روزگار فراہم کرنے کا کوئی بھی منصوبہ اس وقت حکومت کے زیرغور نہیںہے۔بس قرضے لینے اورانھیں ری شیڈول کروانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ جو قرض لیے جارہے انھیں اپنے پارلیمنٹرین بھائیوںکو نوازنے پراستعمال کیاجارہا ہے۔

وہ پارلیمنٹرین جواشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ کوئی اتنے بھی غریب اورمفلوک الحال نہیںہیںکہ بجلی، گیس اورتمام مراعات کے بعد بھی اُن کی تنخواہیں بیس بیس لاکھ کردی جائیں۔جس دن پٹرول یہاں مہنگا کیاگیا اس کے دوسرے ہی دن ریلوے کے کرائے بھی بڑھادیے گئے ۔

جب خود حکومت ہی اس طرح کرے گی تو پھر عام تاجروں اوردکانداروں سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی چیزوں کے دام نہیں بڑھائیں گے۔لگتا ہے حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کوئی سنجیدہ نہیں ہے ۔اسی طرح وہ ملک کو خود مختار اورخوش حال بنانے کے بھی صرف زبانی دعوے کررہی ہے ۔ زمینی حقائق اس کے دعوؤں کی مکمل نفی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • خوشحالی کے دعوے اور زمینی حقائق
  • خیبر پختونخوا میں احساس اپنا گھر اسکیم پر عملدرآمد کا آغاز، بلاسود قرضوں کی فراہمی شروع
  • احساس اپنا گھر اسکیم حکومت کا غریب پرور منصوبہ ہے، علی امین گنڈاپور
  • پی ڈی ایم، نگران اور شہباز شریف حکومت نے ملکی قرضوں میں 34 ہزار ارب روپے سے زائد کا اضافہ کر دیا
  • خیبرپختونخوا میں احساس اپنا گھر اسکیم پر عملدرآمد کا آغاز، بلاسود قرضوں کی فراہمی شروع
  • کیا امارات میں ملازمت کے دوران اپنا کاروبار شروع کرسکتے ہیں؟
  • حکومت کا مفت اورمعیاری تعلیم کی فراہمی کیلیے اقدامات قابل تحسین ہے
  • وفاقی حکومت کے قرضے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے، اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں انکشاف
  • پورانظام تبدیل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا. شاہد خاقان عباسی