خوشحالی کے دعوے اور زمینی حقائق
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
بجٹ بنانااوراسے پاس کروا لینا شایدکسی حکومت کے لیے مشکل نہیں ہوتا،ہمارے یہاں ہر حکومت نے یہ کام مکمل کامیابی سے کرکے دکھایا ہے۔ موجودہ حکمراں جس سابقہ حکومت کو ایک ناکام حکومت قرار دیتے رہے ہیں اس حکومت نے بھی اپنے تین چار سالہ دور میں جتنے بھی بجٹ پیش کیے وہ سب کے سب نہ صرف پارلیمنٹ سے پاس اور منظور بھی ہوگئے بلکہ اُن پر عملدرآمد بھی ہوگیا۔
یہ سالانہ بجٹ دراصل حکومتی اخراجات کے لیے بنایاجاتاہے تاکہ وہ اگلے ایک برس کے لیے مطلوبہ وسائل حاصل کر سکے۔اس مقصد سے اسے عوام پر ٹیکسوں کابوجھ ڈالنے کے طریقے وضع کرنا پڑتے ہیں۔
کچھ ٹیکسوں میںکمی اورکچھ میں اضافہ اورساتھ ہی ساتھ نئے ٹیکس بھی متعارف کرواکرعوام پر لاگو بھی کیے جاتے ہیں۔گزشتہ برس زرعی ٹیکس سے متعلق یہ کہاگیا کہ یہ IMF کی ایک بڑی شرط ہے اوراسے لاگو کرناہماری مجبوری ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی جو اس ٹیکس کی ہمیشہ خلاف رہی ہے وہ بھی نجانے کیوں اس زرعی ٹیکس پر راضی اوررضامند ہوگئی۔بہرحال نئے بجٹ سے ایک دوماہ پہلے IMF کو خوش کرنے کے لیے یہ ٹیکس عائد کردیا گیا۔ مگر ابھی اس مد میں ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیاگیاتھا کہ وزیراعظم نے اس ٹیکس کو واپس لینے کا عندیا دے ڈالا۔
سمجھ نہیں آرہا کہ دو چار ماہ میں ایسا کونساکرشمہ ہوگیا کہ IMF ٰیہ ٹیکس نہ لگانے پرخوش دلی سے مان گیا،وہ IMF جو اپنی کڑی شرائط کے ساتھ عام عوام کو کوئی ریلیف دینے کو تیار نہیں ہوتا وہ اتنی آسانی سے زرعی ٹیکس واپس لینے پرکیونکر رضامند ہوگیا۔ہم اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ بجٹ سازی صرف اعدادوشمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے ۔یہ نہ صرف عوام کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کے لیے بنایا جاتا ہے بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کو بھی’’ ماموں‘‘ بنانے کے لیے بنایاجاتا ہے۔
حالیہ بجٹ کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ بجٹ IMFکا تیار کردہ ہے ۔ حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔مگر اس بجٹ میں پارلیمنٹیرین اوراُن کے سربراہوں کے ماہانہ مشاہروں میں بے تحاشہ اضافے پر کسی کے ماتھے پر بل نہیں پڑے جب کہ عوام کی تنخواہوں میں معمولی اضافہ پر بھی کہا جاتا ہے کہ IMF راضی نہیں ہے۔
اسی ہوشیاری اورشاطر بازی کا نام ہی ہے بجٹ سازی۔جسے اس طرح بنایا جاتا ہے کہ کسی کی سمجھ میں بھی نہ آئے اور اپنا کام بھی ہوجائے۔جب بجٹ پیش کیا گیا تو مخالف بنچوں سے بڑی آوازیں آئیں اور جس میں پاکستان پیپلزپارٹی جو بظاہر حکومت کا حصہ ہے اس نے بھی اس کی مخالفت میں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اپنا حصہ ضرور ڈالا۔مگر پھر اچانک کیا ہوا کہ چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے غیر ملکی دورے سے واپسی پروزیراعظم سے ایک ملاقات کی اور یہ بجٹ منظور ہوگیا۔
موجودہ حکومت اس عارضی حکومت کا تسلسل ہے جو سابقہ حکومت کے خلاف کامیاب عدم اعتماد تحریک کے بعد معرض وجود میں آئی تھی۔اس وقت بھی یہی دو بڑی پارٹیاں حکومت کا حصہ تھیں اورآج بھی ہیں۔ مگر اس سولہ ماہ کی عارضی حکومت کی کارکردگی اس قدر خراب تھی کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں خودکشیاں کرنے پرمجبورہوگئے تھے اوراس کا نتیجہ ہم نے فروری 2024 کے انتخابات میں بھی دیکھ لیا ۔
عوام نے اپنی ناراضی کا اظہار ووٹ کی شکل میں دے دیا۔ ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ کی قیادت اُمیدوار بن گئی اور اسے اپنی سابقہ غلطیوں کو سدھارنے کا ایک بہترین موقعہ ہاتھ آگیا۔ جو بدنامی انھوں نے اپنے سابقہ سولہ ماہ کی حکومت میں اپنے نام کی تھی اسے دھونے اورمٹانے کا ایک نادر موقعہ حاصل ہوگیا۔ شروع شروع میں تو ایسا لگ رہا تھاکہ واقعی وہ ملک کے معاشی حالات سدھارنے کی انتھک کوششیں کررہے ہیں لیکن اب یہ تاثر اپنا اثرکھوتا دکھائی دینے لگاہے۔
مہنگائی کی کمی کے دعوے صرف زبانی جمع خر چ کے سوا کچھ نہیں ۔ سوائے گندم کے آٹے کے کوئی شہ کی قیمت بھی کم نہیں ہوئی ہے ۔ چینی کو ہی لے لیجیے جس کی قیمت 180اور دوسو روپے تک پہنچ گئی ہے مگر وزیراعظم خاموش ہیں۔ اسی طرح جب پٹرول عالمی مارکیٹ میں سستے داموں مل رہا ہے تو اپنے یہاں اس میںاضافہ کیوں کیا گیااس کا جواز بھی پیش نہیںکیاگیا۔ ڈالر رفتہ رفتہ پھر مہنگاہورہا ہے اور279 سے بڑھ کر 284 تک پہنچ گیامگر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر اگر کچھ مستحکم ہوئے ہیںتو وہ بھی عارضی بنیادوں پر۔ جس دن چین ، سعودی عرب اورمتحدہ امارت نے اپنے دکھاوے کے لیے رکھے گئے ڈالرواپس مانگ لیے یہ ساری خوشحالی کابھانڈایکدم پھوٹ جائے گا۔کمزور بنیادوں پراستوار کی گئی معیشت کبھی بھی شکست وریخت سے دوچار ہوسکتی ہے۔
وزیراعظم نے اپنے اس ایک ڈیڑھ سال میں نجانے کتنے غیرملکی دورے کرڈالے ہیں اورہردورے کے بعد قوم کویہ باورکیاجاتا ہے کہ دوملین ڈالر یا تین ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے میمورینڈم سائن ہوگئے ہیں۔ لگتا ہے یہ میمورینڈم صرف کاغذوں پرہی رہیں گے ، ان پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیںدے رہے۔
یہاں فیکٹریاں لگانے یا قوم کو مستقل روزگار فراہم کرنے کا کوئی بھی منصوبہ اس وقت حکومت کے زیرغور نہیںہے۔بس قرضے لینے اورانھیں ری شیڈول کروانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ جو قرض لیے جارہے انھیں اپنے پارلیمنٹرین بھائیوںکو نوازنے پراستعمال کیاجارہا ہے۔
وہ پارلیمنٹرین جواشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ کوئی اتنے بھی غریب اورمفلوک الحال نہیںہیںکہ بجلی، گیس اورتمام مراعات کے بعد بھی اُن کی تنخواہیں بیس بیس لاکھ کردی جائیں۔جس دن پٹرول یہاں مہنگا کیاگیا اس کے دوسرے ہی دن ریلوے کے کرائے بھی بڑھادیے گئے ۔
جب خود حکومت ہی اس طرح کرے گی تو پھر عام تاجروں اوردکانداروں سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی چیزوں کے دام نہیں بڑھائیں گے۔لگتا ہے حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کوئی سنجیدہ نہیں ہے ۔اسی طرح وہ ملک کو خود مختار اورخوش حال بنانے کے بھی صرف زبانی دعوے کررہی ہے ۔ زمینی حقائق اس کے دعوؤں کی مکمل نفی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکومت کا نے اپنے کے لیے نے بھی یہ بجٹ
پڑھیں:
حکومت نے بجلی کے بے زبان صارفین سے ود ہولڈنگ اور جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 490 ارب روپے جمع کرلئے
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت نے مالی سال 2024-25کے دوران بجلی کے بلوں کے ذریعے بے زبان صارفین سے وِد ہولڈنگ ٹیکس اور جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 490 ارب روپے جمع کیے، جبکہ گزشتہ مالی سال میں یہ وصولی 600 ارب روپے تھی، یعنی 110 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔ اس کمی کی ممکنہ وجوہات میں گھریلو صارفین کا سولر سسٹمز کی طرف جھکاؤ اور صنعتی شعبے کی کمزور کارکردگی شامل ہے۔ایف بی آر کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے مالی سال 2024-25 میں 552 ارب روپے ٹیکس ادا کیا، جو پچھلے سال کی 367 ارب روپے کی ادائیگی سے 185 ارب روپے زیادہ ہے۔اقتصادی جائزہ کے مطابق جولائی تا مارچ 2025 کے دوران ملک میں بجلی کی مجموعی کھپت 3.6 فیصد کم ہو کر 80,111 گیگا واٹ آور رہی، جبکہ پچھلے سال اسی عرصے میں یہ 83,109 گیگا واٹ آور تھی۔ بجلی کی کم کھپت کی وجوہات میں توانائی بچت اقدامات، مہنگی بجلی، آف گرِڈ سولر حل، اور صنعتی سرگرمیوں میں کمی شامل ہے۔گھریلو شعبے کا بجلی میں حصہ بڑھ کر 49.6 فیصد (39,728 GWh) ہو گیا، جو پچھلے سال 47.3 فیصد (39,286 GWh) تھا، جبکہ صنعتی شعبے کی کھپت 28,830 GWh سے کم ہو کر 21,082 GWh ہو گئی۔ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے ایف بی آر نے پراپرٹی کی خرید و فروخت پر 235 ارب روپے ٹیکس حاصل کیا، جن میں 236C سے 118 ارب اور 236K سے 117 ارب روپے شامل ہیں۔
Post Views: 2