نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد تھے‘ مڈل اسکول میں اردو پڑھاتے تھے‘ اﷲ تعالیٰ نے آواز‘ قد کاٹھ اور صحت تینوں دے رکھی تھیں‘ پڑھانے کا فن بھی جانتے تھے‘ طالب علم ان کے دیوانے تھے‘ یہ پاپولیرٹی انھیں ٹیچنگ ٹریننگ کی طرف لے گئی اور یہ استادوں کے استاد ہو گئے‘ یکم جولائی کو یہ لاہور میں کریسنٹ ماڈل اسکول میں لیکچر دے رہے تھے‘ کلاس بڑی شان دار چل رہی تھی‘ نیاز احمد فل انرجی کے ساتھ پڑھا رہے تھے‘ وہ پڑھاتے پڑھاتے وائیٹ بورڈ سے کلاس روم کی طرف مڑے‘ بولتے بولتے خاموش ہوئے‘ زمین پر بیٹھے‘ دونوں ہاتھ زمین پر رکھے‘ دو لمبے سانس لیے اور منہ کے بل زمین پر گرگئے اورساڑھے چار سیکنڈ میں ان کی جان نکل گئی۔
کولیگز ان کی طرف دوڑے لیکن یہ ان کے پہنچنے سے قبل جا چکے تھے‘ لیکچر کیوں کہ ریکارڈ ہو رہا تھا چناں چہ یہ سوشل میڈیا پر آگیا اور اس نے لاکھوں لوگوں کے دل کی دھڑکن پریشان کر دی‘ میں نے بھی یہ کلپ دیکھا اور میں سات دن گزرنے کے باوجود اس کے اثر سے نہیں نکل سکا‘ زندگی بے وفا ہوتی ہے لیکن یہ اتنی بے وفا ہو سکتی ہے میرا ذہن یہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔
آپ ذرا تصور کیجیے‘ نیاز احمد مرحوم کے بھی بے شمار خواب ہوں گے‘ وہ بھی امیر‘ طاقتور اور مشہور ہونا چاہتے ہوں گے‘ ان کی کوشش بھی ہوتی ہو گی‘ وہ تین چار کنال کا گھر بنائیں‘ اس کے باغیچے میں پھول اور پھل لگائیں اور ان کے نیچے بیٹھ کر چائے پئیں‘ وہ بھی قیمتی گاڑی خریدنا چاہتے ہوں گے‘ بینک بیلنس کے بارے میں بھی سوچتے ہوں گے‘ ان کے بھی اپنے بچوں کے بارے میں پلان ہوں گے‘ وہ بھی زندگی کی بارہ ریسیں جیتنا چاہتے ہوں گے اور انھوں نے بھی یقینا دنیا دیکھنے کا پلان بنایا ہو گا لیکن پھر ان کے ساتھ کیا ہوا‘ وہ صرف ساڑھے چار سیکنڈز میں خوابوں کی ساری پوٹلیاں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گئے۔
جو کچھ کمایا وہ بھی پیچھے رہ گیا اور جو کچھ کمانا تھا وہ بھی پیچھے رہ گیااور یہ ہے زندگی‘ اصل زندگی۔ہماری زندگی میں ہر چیز بے یقین اور ادھوری ہوتی ہے‘ اس ادھورے پن اور بے یقینی میں صرف ایک چیز قطعی اور مکمل ہے اور وہ ہے موت‘ ہم اسے ٹال سکتے ہیں اور نہ اس سے بچ سکتے ہیں‘ یہ کس وقت‘ کہاں اور کیسے آ جائے گی دنیا کا کوئی شخص نہیں جانتا۔
مجھے چند دن قبل ڈاکٹر مائیکل ایگنور (Michael Egnor) کا ایک لیکچر سننے کا اتفاق ہوا‘ یہ امریکی نیورو سرجن ہیں‘ دماغ کی سات ہزار سرجریز کر چکے ہیں‘ پروفیسر ہیں اور نیورو سرجری میں دنیا کا بڑا نام ہیں‘ پروفیسر زندگی کے دو تہائی حصے تک ملحد رہے لیکن پھر خدا پر یقین کیا اور کمال کر دیا‘ پروفیسر نے اپنے لیکچر میں دوایسے دعوے کیے جنھوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
ان کا پہلا دعویٰ ہے مائینڈ (ذہن) ہمارے برین (دماغ) میں نہیں ہوتا‘ ذہن دماغ کے باہر سے انسان کو کنٹرول کرتا ہے‘ یہ کہاں ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے سائنس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں‘ ان کا دعویٰ ہے میرے پاس ایسے ایسے مریض آئے جن کا دو تہائی دماغ ختم ہو چکا تھا یا مجھے اسے نکالنا پڑ گیا لیکن وہ اس کے باوجود سوچتے بھی رہے اور ریسپانس بھی کرتے رہے جب کہ سائنس کے مطابق اس کے دماغ سے سوچیں ختم ہو جانی چاہیے تھیں۔
ان کا دعویٰ ہے کوما میں پڑے انسانوں کے دماغ میں بھی حرکت ہوتی ہے‘ یہ گنتی بھی گنتے ہیں اور ان کے دماغ ان کے عزیز اور رشتے داروں کے نام پر الرٹ بھی ہوجاتے ہیں‘ یہ کیسے ہوتا ہے؟ میں نہیں سمجھ سکا کیوں کہ دماغ کی موت کے بعد انسان کا ذہن ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر یہ نہیں ہوتا‘ اس نے دعویٰ کیا ہمارے ایک نیوروسرجن نے مرگی کے ایک مریض کے دماغ کے دو حصوں کو کاٹ کر الگ الگ کر دیا لیکن اس کے باوجود دماغ کے دونوں حصے ایک دوسرے کے رابطے میں بھی تھے اورانھیں باہر سے پیغام بھی آ رہے تھے‘ کیوں اور کیسے؟ ہم نہیں جانتے۔
ڈاکٹر مائیکل ایگنور کا دوسرا دعویٰ روح سے متعلق تھا‘ اس کا کہنا تھا روح موجود ہے اور یہ غیر فانی بھی ہے‘ یہ مرتی نہیں‘ یہ بس جسم کو چھوڑ کر کہیں چلی جاتی ہے‘کیوں جاتی ہے اور کہاں جاتی ہے یہ معلوم نہیں‘ انھوں نے ایک مریضہ کا حوالہ دیا جس کی برین سرجری کے دوران اس کا دل منجمد کر دیا گیا تھا اور دماغ سے سارا خون نکال دیا گیا تھا‘ وہ پچاس منٹ زندگی کے بغیر رہی‘ اس کے پورے جسم میں کسی جگہ زندگی کی حرارت نہیں تھی‘ آپریشن کے بعد ہم نے اس کا دل چالو کیا‘ جسم میں خون شامل کیا اور اسے طبی لحاظ سے ایکٹو کر دیا‘ وہ خوش قسمتی سے دوبارہ زندہ بھی ہو گئی۔
اس نے ہوش میں آنے کے بعد بتایا میں نے اپنا سارا آپریشن اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا‘ میں جسم سے نکل کر ہوا میں معلق ہو گئی تھی اور میں آپ لوگوں کی ایک ایک حرکت دیکھ رہی تھی‘ اس نے ہم سب کی گفتگو بھی بتائی‘ آپریشن کے دوران استعمال ہونے والے آلات کے بارے میں بھی بتایا اور یہ بھی بتایا آپریشن تھیٹر میں میوزک چل رہا تھا اور وہ کون سا تھا‘ آپریشن تھیٹر پر لیٹا کوئی مریض یہ سب کچھ نوٹ نہیں کر سکتا اور وہ بھی اس عالم میں کہ اس کا دل مکمل طور پر بند ہو اور دماغ سے خون مکمل طور پر نکل چکا ہو لیکن مریضہ کو آپریشن تھیٹر کی ایک ایک چیز معلوم تھی۔
اس انکشاف نے مجھ جیسے دہریے کو بھی ہلا کر رکھ دیا‘ ڈاکٹر کا کہنا تھا میری زندگی میں بے شمار ایسے مریض آئے جن کی سرجری یا علاج معمولی تھا لیکن وہ چند لمحوں میں زندگی کی سرحد پار کر گئے‘ وہ کیسے مر گئے میں آج تک حیران ہوں جب کہ وہ خاتون پورا گھنٹہ زندگی کی حرارت سے محروم رہنے کے باوجود زندہ بھی ہوئی اور وہ ہماری تمام حرکتوں سے بھی واقف تھی اور اس نے یہ سب کچھ بند آنکھوں کے ساتھ دیکھا تھا‘ یہ کیسے ممکن ہے؟
اس نے دعویٰ کیا میں نے موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے والے درجنوں مریضوں کا علاج کیا‘ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا بتانا تھا ہم مرنے کے بعد کسی ٹنل سے گزرے تھے اور اس ٹنل میں ہماری ہمارے فوت شدہ عزیزوں‘ رشتے داروں اور دوستوں سے ملاقات بھی ہوئی تھی‘ ڈاکٹر کا دعویٰ ہے بے شمار لوگ حادثوں کے بعد ان لوگوں سے بھی مل کر واپس آئے جو گاڑی میں ان کے ساتھ سفر کر رہے تھے اور وہ حادثے میں فوت ہو گئے تھے جب کہ یہ لوگ موت کے بعد دوبارہ واپس آگئے اور یہ قطعاً نہیں جانتے تھے ان کے ساتھ سفر کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ ڈاکٹر کے بقول یہ کیوں اور کیسے ہوتا ہے میں نہیں سمجھ سکا۔
نیاز احمد مرحوم اور پروفیسر مائیکل ایگنور کی کہانیاں اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت طے شدہ ہے ہم سب نے مر جانا ہے‘ ہماری روح کس وقت ہمارے وجودکا ساتھ چھوڑ دے دنیا کا کوئی شخص نہیں جانتا‘ قدرت نے اگر یہ معاملہ صرف جسم تک محدود رکھا ہوتا تو شاید ہم ایکسر سائز‘ خوراک‘ جینزتھراپی اور ادویات سے زندگی کا دائرہ وسیع کر لیتے‘ ہم اپنے دماغ‘ دل‘ پھیپھڑوں‘ گردوں اور جگر کی عمر میں بھی اضافہ کرلیتے لیکن یہ کھیل صرف جسم تک محدود نہیں‘ اس میں روح بھی شامل ہے اور ذہن بھی اور یہ دونوں جسم کے کس حصے میں چھپے ہوتے ہیں یا یہ جسم سے باہر کس جگہ سے ہمیںڈرائیوکر رہے ہیں۔
ہم نہیں جانتے لہٰذا ہمارے دماغ کو کس وقت سوچ کے سگنل آنا بند ہو جائیں اور روح کس وقت اس سجے سجائے پالتو جسم کو چھوڑ کر چلی جائے ہم نہیں جانتے بلکہ رکیے ہم بھی کیا شاید دنیا کا کوئی بھی شخص یہ نہیں جانتا چناں چہ میرے دوستو آپ کے دماغ میں جتنے بھی اچھے خیالات آتے ہیں ان کا صدقہ اتارتے رہیں‘ ان پر عمل کرتے رہیں اور ہر منفی سوچ کو جھٹک کر اللہ سے معافی مانگتے رہیں اور جو سانس مل رہا ہے جو دن دیکھنا نصیب ہو رہا ہے اسے آخری انعام سمجھ کر اللہ کا شکر ادا کریں اور اسے مثبت طریقے سے استعمال کریں کیوں کہ روح اور بدن کے درمیان صرف ساڑھے چار سیکنڈ کا رشتہ ہے‘ یہ رشتہ کس وقت ٹوٹ جائے کوئی نہیں جانتا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو نیاز احمد کا کلپ دوبارہ دیکھ لیں اگر یہ موت سے نہیں بچ سکے تو پھر ہم اور آپ کیسے بچیں گے!۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نہیں جانتے نہیں جانتا کے باوجود نیاز احمد زندگی کی دنیا کا کا کوئی لیکن یہ کے ساتھ ہوتا ہے رہے تھے کے دماغ ہیں اور میں بھی بھی ہو اور وہ کر دیا ہے اور اور یہ کے بعد اور اس ہوں گے وہ بھی
پڑھیں:
تجدید وتجدّْد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
3
مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔
متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔
تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)
آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔
الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔
غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔
(جاری)