مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
بھارتی سیاسی نظریہ اورحکمت عملی میں جہاں قدیم سیاسی مصلحتوں کارنگ غالب نظرآتاہے وہاں چانکیہ کے اصولوں کی جھلک نمایاں ہے،جہاں طاقتورکی فوری تعظیم اوراس کوفوراً خداما ن کرسجدہ کیاجاتاہے اورکمزورکی بے دریغ تنقیدشامل ہے،اوراس کو بلاتوقف توڑاجاتاہے۔اس اصول پرچلتے ہوئے بھارت اپنے خداں کی تعدادمیں بے شماردیوتارکھتا ہے ، جن میں چوہے اورسانپ بھی شامل ہیں،مگرجب یہ دیوتاکمزور پڑتے ہیں توان کے پجاری انہیں بے دردی سے توڑپھوڑنے میں دیرنہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کامذہبی و سیاسی منظرنامہ بظاہرمتضاداورالجھاہواہے جہاں خداؤں کی تعدادکروڑوں میں ہے،مگرہروقت اپنے ہی دیوتاؤں کے پجاری ان کے خلاف بھی نکلنے کوتیاررہتے ہیں۔
مودی کی طرف سے رافیل طیاروں کی ناکامی کے باوجودان کے دفاع میں مذہبی رسومات اورپوجا کا سہارالینا اس مصلحت کی عکاسی کرتاہے، جو طاقت کے خداؤں کے سامنے جھکاؤ اوراندرونی کمزوری کی داستان سناتاہے۔مودی کے زیراستعمال رافیل جنگی طیاروں کی پوجا،اوران کے جنگی ناکامیوں کے باوجوداس رسومات کوعالمی میڈیا پر دکھایا جانا، اس داخلی تضادکاعکاس ہے جوبھارتی معاشرے میں طاقت اورکمزوری،عقل اور جہالت کے بیچ جھول رہاہے۔
مودی کے متعصبانہ جارحانہ بیانات نہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کوزہرآلود کرتے ہیں بلکہ پورے خطے اورجنوبی ایشیامیں عدم استحکام کے اندیشے کوبڑھادیتے ہیں۔ پاکستان اورچین کی جانب سے دکھائی جانے والی صبرو تحمل اورحکمت عملی بھارت کی جارحیت کے مقابلے میں ایک پختہ حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہے،جومشرقی ایشیا میں طاقت کے توازن کوبدل رہی ہے۔ اوردوسری طرف وہ خطے میں طاقت کے توازن کوتبدیل کررہی ہے،اوربھارت کوسیاسی اور سفارتی محاذوں پرتنہاکررہی ہے۔ مودی کی دھمکیوں کے نتیجے میں بھارت عالمی سطح پربھی خودکوتنہا کر رہا ہے، جہاں امن وتعاون کے تقاضے بڑھتے جارہے ہیں۔مودی کی دھمکیوں نے عالمی برادری میں بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچایاہے، جہاں اب امن،تعاون اور معاشی ترقی کے لئے تعاون کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔
مودی کاپاکستان کے شہریوں کوگولیوں سے اڑانے کی دھمکی دینانہ صرف اخلاقی،قانونی اورسفارتی اصولوں اورآداب کی سنگین خلاف ورزی اورپامالی ہے بلکہ یہ عالمی انسانی حقوق کی تشویشناک صورت حال کی بھی نمائندگی کرتاہے۔ اس قسم کے بیانات دنیا کے امن پسندطبقات میں گہرے خدشات کاباعث ہیں،اوراس سے خطے میں انسانی المیہ کے امکانات مزیدبڑھ جاتے ہیں۔مودی کی تقریرنے بھارت کی حکمت عملی پرسوالیہ نشان لگادیاہے۔کیایہ جارحیت واقعی حکمت کی علامت ہے یاحماقت کی؟یاپھریہ محض ایک غصے اورکمزوری کا اظہارہے؟تاریخ بتاتی ہے کہ حکمت وہی ہوتی ہے جونہ صرف زبانی ہوبلکہ عملی طورپر مسائل کا حل نکالے اور دیرپاامن کی بنیاد رکھے۔ پاکستان اورچین نے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی ہے جوخاموشی میں طاقتورہے، جہاں صرف توپوں کی گڑگڑاہٹ نہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی اورنفسیاتی محاذوں پربھی کامیابی حاصل کی گئی ہے۔اسی حکمت کی وجہ سے پاک چین تعلقات آج خطے کے امن اور استحکام کے لئے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس ساری کشیدگی میں اسرائیل کاکردارایک نیااور نہایت نازک موڑہے۔معتبراطلاعات کے مطابق، بھارت میں موجوداسرائیلی عسکری ماہرین نے ہاروپ ڈرونزکوآپریٹ کیا،اور پاکستانی میزائل حملے میں وہ نشانہ بنے۔یہ پہلواس جنگ کوصرف پاک-بھارت تنازعہ نہیں رہنے دیتابلکہ اسے بین الاقوامی عسکری شطرنج کاحصہ بنادیتاہے ، جس میں امریکا، اسرائیل،اوربھارت ایک طرف ہیںاورپاکستان ،چین،اورخطے کے مقتدرامن پسند عوام دوسری طرف۔اسرائیلی آپریٹرزکی موجودگی اورحملے کی حقیقت آشکارہونے کے بعد کیااسرائیل بھی اس جنگ کافریق بن چکاہے؟یہ نکتہ اس پوری کشیدگی کاسب سے اہم اورحساس پہلوہے۔ معتبرذرائع کے مطابق،بھارت نے اسرائیل سے’’ہاروپ‘‘خودکش ڈرون حاصل کئے جنہیں کنٹرول کرنے کے لئے درجنوں اسرائیلی عسکری ماہرین بھارتی بیسزپرموجود تھے۔ پاکستان کی جوابی کارروائی میں ایک ایسا بیس نشانہ بناجس میں ان اسرائیلی آپریٹرزکی موجودگی رپورٹ ہوئی اوراسی حملے میں ان کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئیں۔
غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق اسرائیلی آپریٹرزکی لاشیں خفیہ طورپرتابوتوں میں بھارت سے اسرائیل منتقل کی گئیں۔اسرائیل اور بھارت دونوں نے اس خبرکودبانے کی کوشش کی ۔جب پاکستان کی طرف سے اسرائیل کی براہ راست مداخلت کوحملے کاجوازبناکر جوابی کارروائی کافیصلہ کرلیاگیاجوکہ عالمی قوانین کے مطابق پاکستان کاجائزجوابی حق ہے۔یہی وہ نکتہ تھاجس پرامریکا، جوابتدا میں اس جنگ سے’’لاتعلق‘‘ نظرآرہا تھا، اچانک سیزفائرکے لئے متحرک ہوگیا۔اس ساری صورتحال نے اس جنگ کوصرف بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع نہیں رہنے دیا،بلکہ اسے عالمی جنگی طاقتوں کے درمیان(پراکسی)نیابتی جنگ کاآغاز قرار دیا جانے لگاجس کوروکناامریکاکی اپنی بقاکے لئے ضروری ہوگیا تھا ۔
ٹرمپ نے پہلے سیزفائرکی کوششوں کے تحت ایک’’بظاہرغیرجانبدار‘‘کرداراداکرنے کی کوشش کی۔ تاہم ان کی خاموشی بلکہ بے نیازی مودی کے حالیہ جارحانہ بیانات پرجہاں کئی اہم سوالات کوجنم دیتی ہے وہاں ٹرمپ کی ثالثی اوراس پرسوالیہ نشان مزید گہرے ہوگئے ہیں۔اگرامریکاواقعی امن کاخواہاں ہے توکیاوہ مودی کی اس دھمکی کی مذمت کرے گا؟ اگر وہ خاموش رہتاہے توکیایہ اس بات کاثبوت نہیں کہ امریکادرپردہ بھارت کوتحفظ دے رہاہے؟کیایہ سچ ہے کہ سیزفائرکی آڑمیں امریکانے بھارت اوراسرائیل کوعسکری شکست سے بچانے کی کوشش کی تھی؟سفارتی ذرائع اور کچھ عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق،سیزفائرسے قبل بھارتی فضائیہ اوراسرائیلی ٹیکنالوجی کوبدترین نقصان کا سامنا کرناپڑا اوریہ اندیشہ بڑھ گیاتھاکہ پاکستان،بھارت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جارحیت کابھی جواب دے گا۔ایسے میں امریکی مداخلت کامقصدنہ امن تھانہ مصالحت بلکہ بھارت اوراسرائیل کو مزید رسوائی سے بچاناتھا۔اب جبکہ مودی ایک بارپھردھمکیوں پراترآیا ہے، یہ سوال شدت سے ابھررہاہے کہ کیاخطے میں ایک نئی جنگ چھڑنے والی ہے؟کیا اسرائیل ایک بارپھر بھارت کے ذریعے جنوبی ایشیامیں دخل اندازی کرے گا؟اورکیا امریکادوبارہ کسی’’نام نہادثالثی‘‘کے پردے میں اسرائیل اوربھارت کوبچانے کی کوشش کرے گا؟مودی کی دھمکی کے بعداگرامریکانے اب بھی خاموشی اختیارکی تویہ شک نہیں، بلکہ یقین میں بدل جائے گاکہ امن کی ثالثی محض سفارتی چال تھی جس کامقصدبھارت کومزید رسوائی سے بچاناتھا۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حکمت عملی کے مطابق کی کوشش مودی کی مودی کے کے لئے
پڑھیں:
مودی سرکار کی خارجہ پالیسی پر شدید تنقید
بھارت(نیوز ڈیسک) مودی سرکار کی خارجہ پالیسی دکھاوے اور نعرے بازی تک محدود، بھارت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوگئی۔
آپریشن سندور کے دوران کسی بھی ملک کی جانب سے بھارت کی کھل کر حمایت نہ کی گئی۔ اس کے برعکس پاکستان کے سفارتی تعلقات کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔
کانگریس رہنما پرمود تیواری نے مودی کی ناکام سفارتی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
پرمود تیواری کا کہنا تھا کہ ” آپریشن سندور کے دوران ایک بھی ملک ایسا نہیں تھا جس نے بھارت کی کھل کے حمایت کی ہو”۔ چین اور ترکی جیسے طاقتور ممالک نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ مودی کا “اب کی بار، ٹرمپ سرکار” کا نعرہ بھی ناکام رہا۔ جب ٹرمپ نے آپریشن سندور کے دوران بھارت سے دوری اختیار کی۔
پرمود تیواری نے مزید کہا کہ ٹرمپ حکومت نے ثالثی کا دعویٰ کر کے پاکستان کو برابر کا فریق تسلیم کیا۔ مودی صرف غیرملکی دوروں میں مصروف رہے، لیکن ان دوروں سے بھارت کو کوئی ٹھوس سفارتی فائدہ نہیں پہنچا۔
آپریشن سندور کے دوران عالمی طاقتوں کی خاموشی نے واضح کر دیا کہ مودی سرکار کی خارجہ پالیسی ناکام رہی۔
وفاق کے بعد پنجاب کا بھی تنخواہوں اور پینشن سے متعلق بڑا فیصلہ