Daily Ausaf:
2025-11-19@04:08:22 GMT

مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
بھارتی سیاسی نظریہ اورحکمت عملی میں جہاں قدیم سیاسی مصلحتوں کارنگ غالب نظرآتاہے وہاں چانکیہ کے اصولوں کی جھلک نمایاں ہے،جہاں طاقتورکی فوری تعظیم اوراس کوفوراً خداما ن کرسجدہ کیاجاتاہے اورکمزورکی بے دریغ تنقیدشامل ہے،اوراس کو بلاتوقف توڑاجاتاہے۔اس اصول پرچلتے ہوئے بھارت اپنے خداں کی تعدادمیں بے شماردیوتارکھتا ہے ، جن میں چوہے اورسانپ بھی شامل ہیں،مگرجب یہ دیوتاکمزور پڑتے ہیں توان کے پجاری انہیں بے دردی سے توڑپھوڑنے میں دیرنہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کامذہبی و سیاسی منظرنامہ بظاہرمتضاداورالجھاہواہے جہاں خداؤں کی تعدادکروڑوں میں ہے،مگرہروقت اپنے ہی دیوتاؤں کے پجاری ان کے خلاف بھی نکلنے کوتیاررہتے ہیں۔
مودی کی طرف سے رافیل طیاروں کی ناکامی کے باوجودان کے دفاع میں مذہبی رسومات اورپوجا کا سہارالینا اس مصلحت کی عکاسی کرتاہے، جو طاقت کے خداؤں کے سامنے جھکاؤ اوراندرونی کمزوری کی داستان سناتاہے۔مودی کے زیراستعمال رافیل جنگی طیاروں کی پوجا،اوران کے جنگی ناکامیوں کے باوجوداس رسومات کوعالمی میڈیا پر دکھایا جانا، اس داخلی تضادکاعکاس ہے جوبھارتی معاشرے میں طاقت اورکمزوری،عقل اور جہالت کے بیچ جھول رہاہے۔
مودی کے متعصبانہ جارحانہ بیانات نہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کوزہرآلود کرتے ہیں بلکہ پورے خطے اورجنوبی ایشیامیں عدم استحکام کے اندیشے کوبڑھادیتے ہیں۔ پاکستان اورچین کی جانب سے دکھائی جانے والی صبرو تحمل اورحکمت عملی بھارت کی جارحیت کے مقابلے میں ایک پختہ حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہے،جومشرقی ایشیا میں طاقت کے توازن کوبدل رہی ہے۔ اوردوسری طرف وہ خطے میں طاقت کے توازن کوتبدیل کررہی ہے،اوربھارت کوسیاسی اور سفارتی محاذوں پرتنہاکررہی ہے۔ مودی کی دھمکیوں کے نتیجے میں بھارت عالمی سطح پربھی خودکوتنہا کر رہا ہے، جہاں امن وتعاون کے تقاضے بڑھتے جارہے ہیں۔مودی کی دھمکیوں نے عالمی برادری میں بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچایاہے، جہاں اب امن،تعاون اور معاشی ترقی کے لئے تعاون کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔
مودی کاپاکستان کے شہریوں کوگولیوں سے اڑانے کی دھمکی دینانہ صرف اخلاقی،قانونی اورسفارتی اصولوں اورآداب کی سنگین خلاف ورزی اورپامالی ہے بلکہ یہ عالمی انسانی حقوق کی تشویشناک صورت حال کی بھی نمائندگی کرتاہے۔ اس قسم کے بیانات دنیا کے امن پسندطبقات میں گہرے خدشات کاباعث ہیں،اوراس سے خطے میں انسانی المیہ کے امکانات مزیدبڑھ جاتے ہیں۔مودی کی تقریرنے بھارت کی حکمت عملی پرسوالیہ نشان لگادیاہے۔کیایہ جارحیت واقعی حکمت کی علامت ہے یاحماقت کی؟یاپھریہ محض ایک غصے اورکمزوری کا اظہارہے؟تاریخ بتاتی ہے کہ حکمت وہی ہوتی ہے جونہ صرف زبانی ہوبلکہ عملی طورپر مسائل کا حل نکالے اور دیرپاامن کی بنیاد رکھے۔ پاکستان اورچین نے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی ہے جوخاموشی میں طاقتورہے، جہاں صرف توپوں کی گڑگڑاہٹ نہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی اورنفسیاتی محاذوں پربھی کامیابی حاصل کی گئی ہے۔اسی حکمت کی وجہ سے پاک چین تعلقات آج خطے کے امن اور استحکام کے لئے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس ساری کشیدگی میں اسرائیل کاکردارایک نیااور نہایت نازک موڑہے۔معتبراطلاعات کے مطابق، بھارت میں موجوداسرائیلی عسکری ماہرین نے ہاروپ ڈرونزکوآپریٹ کیا،اور پاکستانی میزائل حملے میں وہ نشانہ بنے۔یہ پہلواس جنگ کوصرف پاک-بھارت تنازعہ نہیں رہنے دیتابلکہ اسے بین الاقوامی عسکری شطرنج کاحصہ بنادیتاہے ، جس میں امریکا، اسرائیل،اوربھارت ایک طرف ہیںاورپاکستان ،چین،اورخطے کے مقتدرامن پسند عوام دوسری طرف۔اسرائیلی آپریٹرزکی موجودگی اورحملے کی حقیقت آشکارہونے کے بعد کیااسرائیل بھی اس جنگ کافریق بن چکاہے؟یہ نکتہ اس پوری کشیدگی کاسب سے اہم اورحساس پہلوہے۔ معتبرذرائع کے مطابق،بھارت نے اسرائیل سے’’ہاروپ‘‘خودکش ڈرون حاصل کئے جنہیں کنٹرول کرنے کے لئے درجنوں اسرائیلی عسکری ماہرین بھارتی بیسزپرموجود تھے۔ پاکستان کی جوابی کارروائی میں ایک ایسا بیس نشانہ بناجس میں ان اسرائیلی آپریٹرزکی موجودگی رپورٹ ہوئی اوراسی حملے میں ان کی ہلاکت کی اطلاعات سامنے آئیں۔
غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق اسرائیلی آپریٹرزکی لاشیں خفیہ طورپرتابوتوں میں بھارت سے اسرائیل منتقل کی گئیں۔اسرائیل اور بھارت دونوں نے اس خبرکودبانے کی کوشش کی ۔جب پاکستان کی طرف سے اسرائیل کی براہ راست مداخلت کوحملے کاجوازبناکر جوابی کارروائی کافیصلہ کرلیاگیاجوکہ عالمی قوانین کے مطابق پاکستان کاجائزجوابی حق ہے۔یہی وہ نکتہ تھاجس پرامریکا، جوابتدا میں اس جنگ سے’’لاتعلق‘‘ نظرآرہا تھا، اچانک سیزفائرکے لئے متحرک ہوگیا۔اس ساری صورتحال نے اس جنگ کوصرف بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع نہیں رہنے دیا،بلکہ اسے عالمی جنگی طاقتوں کے درمیان(پراکسی)نیابتی جنگ کاآغاز قرار دیا جانے لگاجس کوروکناامریکاکی اپنی بقاکے لئے ضروری ہوگیا تھا ۔
ٹرمپ نے پہلے سیزفائرکی کوششوں کے تحت ایک’’بظاہرغیرجانبدار‘‘کرداراداکرنے کی کوشش کی۔ تاہم ان کی خاموشی بلکہ بے نیازی مودی کے حالیہ جارحانہ بیانات پرجہاں کئی اہم سوالات کوجنم دیتی ہے وہاں ٹرمپ کی ثالثی اوراس پرسوالیہ نشان مزید گہرے ہوگئے ہیں۔اگرامریکاواقعی امن کاخواہاں ہے توکیاوہ مودی کی اس دھمکی کی مذمت کرے گا؟ اگر وہ خاموش رہتاہے توکیایہ اس بات کاثبوت نہیں کہ امریکادرپردہ بھارت کوتحفظ دے رہاہے؟کیایہ سچ ہے کہ سیزفائرکی آڑمیں امریکانے بھارت اوراسرائیل کوعسکری شکست سے بچانے کی کوشش کی تھی؟سفارتی ذرائع اور کچھ عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق،سیزفائرسے قبل بھارتی فضائیہ اوراسرائیلی ٹیکنالوجی کوبدترین نقصان کا سامنا کرناپڑا اوریہ اندیشہ بڑھ گیاتھاکہ پاکستان،بھارت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جارحیت کابھی جواب دے گا۔ایسے میں امریکی مداخلت کامقصدنہ امن تھانہ مصالحت بلکہ بھارت اوراسرائیل کو مزید رسوائی سے بچاناتھا۔اب جبکہ مودی ایک بارپھردھمکیوں پراترآیا ہے، یہ سوال شدت سے ابھررہاہے کہ کیاخطے میں ایک نئی جنگ چھڑنے والی ہے؟کیا اسرائیل ایک بارپھر بھارت کے ذریعے جنوبی ایشیامیں دخل اندازی کرے گا؟اورکیا امریکادوبارہ کسی’’نام نہادثالثی‘‘کے پردے میں اسرائیل اوربھارت کوبچانے کی کوشش کرے گا؟مودی کی دھمکی کے بعداگرامریکانے اب بھی خاموشی اختیارکی تویہ شک نہیں، بلکہ یقین میں بدل جائے گاکہ امن کی ثالثی محض سفارتی چال تھی جس کامقصدبھارت کومزید رسوائی سے بچاناتھا۔(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حکمت عملی کے مطابق کی کوشش مودی کی مودی کے کے لئے

پڑھیں:

بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے، جنگ مسلط کرنے والوں کو اسی طرح جواب دیا جائے گا جیسا مئی میں دیا۔ وفاقی دارالحکومت میں اردن کے شاہ دوم کے ظہرانے کے موقع پر ایوان صدر میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے غزوہ احد سے متعلق بات کرتے ہوئے قرآنی آیات کا حوالہ دیا اورکہا کہ مسلمان جب اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ دشمن پر پھینکی مٹی کو بھی میزائل بنا دیتا ہے، بھارت کے خلاف جنگ میں اللہ نے پاکستان کو سر بلند کیا۔ پاکستان نے اپنے دشمن کو دھول چٹائی ہے۔

 پاکستان کے ایوانِ صدر میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو نشانِ امتیاز عطا کیے جانے کی تقریب بظاہر ایک سفارتی روایت تھی، لیکن اس موقع پرآرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکے خیالات نے اسے ایک نئی معنویت عطا کی۔ ان کے الفاظ نہ صرف پاکستان کی عسکری سوچ کا اظہار ہیں بلکہ خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا اور ہمارے قومی اعتماد کا اشاریہ بھی ہیں۔

جب وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، اگر جنگ ہم پر مسلط کی گئی تو جواب اسی انداز میں دیا جائے گا جیسا کہ مئی میں دیا گیا، تو یہ بیان دراصل دشمن کے لیے پیغام اور عوام کے لیے یقین دہانی دونوں رکھتا ہے۔ ہمارے خطے میں طاقت کے توازن کی نزاکت ایسی ہے کہ ہر لفظ کے اثرات سفارتی سرحدوں سے پار جاتے ہیں اور ہر بیان عالمی فضا میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔

آج جب ہم خطے کی تزویراتی صورتِ حال کو دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کبھی بھی سادہ نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان ایک مستقل رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ سرحدوں پرکشیدگی، سیاسی بیانات، جارحانہ پالیسیاں اور پراپیگنڈا جنگیں ہمیشہ سے تعلقات کو پیچیدہ بناتی رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں پاکستانی قیادت کا یہ کہنا کہ بھارت کی جارحیت کا جواب دیا گیا اور آیندہ بھی دیا جائے گا، یہ صرف عسکری پالیسی کا اعلان نہیں بلکہ سیاسی ترجیحات کی نشاندہی بھی ہے۔

وہ مئی جس کا آرمی چیف نے ذکرکیا، اس میں جوکچھ ہوا، وہ خطے کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اگرچہ عسکری کارروائیوں کی تفصیلات عمومی طور پر منظرِ عام پر نہیں لائی جاتیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دفاعی سطح پر اپنی صلاحیت دکھائی اور دشمن کو جواب دیا۔

 لیکن اس موقع پر ایک اہم پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے جنگ سے گریز کی اپنی دیرینہ پالیسی کو دوبارہ دہراتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں کوئی بھی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معیشتیں جنگ سے کمزور ہوتی ہیں، معاشرے بکھرتے ہیں اور قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں، اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان جنگوں کے نتائج پر مختلف آراء موجود ہیں، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کبھی کمزور ثابت نہیں ہوئی۔

دوسری جانب حالیہ دنوں میں جب افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے گئے، تو اس نے نہ صرف دو طرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ بنا دیا بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا۔ پاکستانی قیادت کے مطابق یہ حملے محض سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک گہری بھارتی سازش کا نتیجہ ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور افغان سرزمین کو بھارت کے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف پراکسی وارکا حامی رہا ہے۔ چاہے وہ بلوچستان میں تخریب کاری ہو، فاٹا اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی یا افغانستان میں پاکستان مخالف بیانیہ، بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے ہمیشہ ایسے عناصر کو سہارا دیا جو پاکستان کے اندر انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے رہے۔

اب جب کہ بھارت کو خطے میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا محاذ درکار تھا، تو اس نے افغان طالبان حکومت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ بھارت نے افغان حکام کو یہ باورکرایا کہ پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان عالمی تنہائی کا شکار ہے، لہٰذا پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے گزشتہ چار دہائیوں سے افغان عوام کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے۔

سوویت یونین کے حملے کے بعد سے لے کر طالبان کے اقتدار کے خاتمے تک، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، ان کے لیے تعلیمی، طبی اور معاشی سہولیات فراہم کیں۔ آج بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے ہر عالمی فورم پر افغانستان کے حق میں آواز بلند کی۔ چاہے طالبان حکومت کی بحالی کی بات ہو یا افغانستان کی تعمیرِ نو، پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ملک کی مدد کو اپنا اخلاقی اور انسانی فریضہ سمجھا، لیکن افسوس کہ آج وہی افغانستان پاکستان کے احسانات کو بھول کر دشمن کی زبان بول رہا ہے۔

پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیمیں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کے خلاف منظم منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اور افغان حکومت انھیں روکنے کے بجائے نظر انداز کر رہی ہے بلکہ بعض اوقات ان کی پشت پناہی بھی کرتی ہے۔ یہ طرزِ عمل اس احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے جو برادر ملک سے ہرگز متوقع نہ تھی۔ افغان طالبان حکومت ایک طرف دنیا سے تسلیم کیے جانے کے لیے پاکستان کی حمایت چاہتی ہے، لیکن دوسری طرف وہ پاکستان مخالف گروہوں کو خاموشی سے سہارا دے رہی ہے۔

طالبان قیادت جانتی ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر ان کا معاشی اور سفارتی وجود ممکن نہیں، مگر اس کے باوجود وہ داخلی دباؤ کم کرنے کے لیے پاکستان مخالف بیانیہ اختیار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اپنے عوام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بیرونی دباؤ میں نہیں ہیں، لہٰذا وہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنا کر اپنی داخلی مقبولیت بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پالیسی نہ صرف افغانستان کے مفاد کے خلاف ہے بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

 یہ صورتحال خطے کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے، مگر اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے جو ایک طرف افغانستان کو اشتعال دلا رہا ہے اور دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان حقیقت پسندانہ سوچ اپنائے، اگر افغان طالبان واقعی اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں، تو انھیں بھارت کی چالوں کا حصہ بننے کے بجائے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ آج کا افغانستان اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بھارت کا آلہ کار بننا چاہتا ہے یا ایک آزاد اسلامی ریاست کے طور پر اپنے برادر ہمسائے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔

افغانستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی چالوں سے ہوشیار رہے کیونکہ بھارت کبھی افغانستان کا خیر خواہ نہیں رہا، اس کا مقصد صرف پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے، اگر افغانستان نے پاکستان کے احسانات کو بھلا کر دشمن کے ایجنڈے پر چلنا جاری رکھا تو نقصان اسی کا ہوگا، کیونکہ پاکستان اپنی سرحدوں، اپنے عوام، اور اپنے وقار کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔افغان طالبان رجیم اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اس امرکو ظاہرکرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے پاکستان مخالف عزائم مضبوط ہو رہے ہیں۔

بھارتی میڈیا، خصوصاً ’’انڈیا ٹو ڈے‘‘ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان حکومت دریائے کنڑ پر بھارتی تعاون سے ڈیم تعمیرکرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، تاکہ پاکستان کو پانی کی فراہمی محدود یا بند کی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے طالبان حکومت کو ایک ارب امریکی ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کی ہے اور مختلف ڈیموں جیسے نغلو، درونتہ، شاہتوت، شاہ واروس، گمبیری اور باغدرہ کی تعمیر میں تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈیم پاکستان کی آبی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں، کیونکہ ان کا براہ راست اثر دریائے کابل کے بہاؤ پر پڑے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری برتری کا سوال ہمیشہ سے میڈیا اور عوامی مباحث میں چھایا رہتا ہے۔ بھارت دفاعی بجٹ میں خطے کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، جب کہ پاکستان محدود وسائل کے باوجود ایک مؤثر دفاع قائم کیے ہوئے ہے۔

اس کا سبب نہ صرف ہمارے فوجی جوانوں کی بہادری ہے بلکہ ہماری عسکری حکمتِ عملی، جدید تربیت اور انٹیلی جنس آپریشنز کی کامیابیاں بھی ہیں۔ پاکستان جانتا ہے کہ اس کے وسائل بھارت کے مقابلے میں کم ہیں، لیکن جنگ صرف وسائل سے نہیں جیتی جاتی۔ عزم، حکمت اور اتحاد بھی اسی طرح اہم ہوتے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کا اظہار آرمی چیف کے بیان میں نمایاں تھا۔ حرف آخر، یہ کہنا مناسب ہے کہ پاکستان کا دفاع عوام کے اتحاد میں پوشیدہ ہے، اگر ہم اندر سے مضبوط ہوں گے، تو کوئی بیرونی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ ہو یا آسیان مودی مُنہ چھپا رہا، سات، صفر کی شکست یاد دلائی جاتی رہے گی: بلاول
  • بھارتی آرمی چیف کے بیانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، سرحد پر ممکنہ حملے کا خدشہ ہے : خواجہ آصف
  • شیخ حسینہ واجد کی سزائے موت کے ساتھ ہی مودی کا علاقائی تسلط کا قیام زمین بوس
  • کینیڈا کی خالصتان کی حمایت سے مودی کے سفاکانہ اقدامات کو شدید دھچکا
  • اقبال کے شاہین کی زندہ تصویر
  • بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ
  • ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
  • مودی سرکار کی کینیڈا اور امریکا میں مبینہ مداخلت پر نئے انکشافات
  • ٹی ٹی پی نہیں، بلکہ ٹی ٹی اے یا ٹی ٹی بی
  • بھارت کی فوج میں بڑھتی بےچینی، بھارتی آرمی چیف کا ملکی دفاعی صنعت پر عدم اعتماد کا اظہار