Daily Ausaf:
2025-11-03@08:05:54 GMT

تخیل سے حقیقت تک،پاکستان کا خاموش سفر

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
خاموش قاتل،ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیاروں کی حقیقت آخرہے کیاکہ پاک وہندہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اس طیاروں میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ دراصل یہ طیارے’’خاموش قاتل‘‘کہلاتے ہیں،نہ دکھائی دیتے ہیں،نہ آسانی سے روکے جاسکتے ہیں،اورنہ ہی ان کی نقل و حرکت کوآسانی سے سمجھا جا سکتاہے۔جدیدترین خوبیوں نے اس طیارے کو پانچویں نسل کی فضائی بالادستی کا نشان بنادیاہے۔یادرہے کہ ففتھ جنریشن اورسٹیلتھ طیارہ اس وقت’’ففتھ جنریشن‘‘کہلاتاہے جب وہ سٹیلتھ ہو، سپرکروز کرے،نیٹ ورکڈ ہو،ملٹی رول ہو اورایویانکس میں ہم آہنگی ہواورسب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سٹیلتھ اس وقت معتبرہے جب دشمن کوطیارہ دیکھنے سے پہلے مارکھا جائے۔
اس کی پہلی خوبی اس کی سٹیلتھ صلاحیت ہے جواسے ریڈارسے اوجھل اوردشمن کے ہرقسم کے نظاموں سے چھپادیتی ہے۔دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ اس کی سپرکروزپروازہے یعنی آوازکی رفتارسے بھی کہیں زیادہ تیز،کم ایندھن کے ساتھ طویل فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت موجودہے۔تیسری خوبی ایویانکس اور سینسر فیوژن کی ہے،تمام سسٹمزکاہم آہنگ ہونا یعنی جیسے انسان کی پانچوں حواس ایک مرکب شعورمیں ڈھل جائیں،ویسے ہی یہ طیارے اپنے تمام نظاموں کوہم آہنگ کرکے دشمن پرکاری ضرب لگاتے ہیں۔چوتھی خوبی اس کی سپر کروزیعنی بغیرایندھن کے ضیاع کے تیزرفتاری سے ہدف کوتباہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اورپانچویں خوبی نیٹ ورکڈوارفیئرکی ہے تمام فضائی وزمینی نظام سے ربط باقی رہتا ہے جیسے ہرمشین، ہرڈرون، ہرریڈارکے ساتھ جڑے،گویافضامیں ایک جال بچھا دیا ہو ۔
فضائی توازن کی نئی بساط میں اس وقت دنیامیں محض پانچ اقوام کے پاس ایسے طیارے موجود ہیں۔امریکاکے ایف22ریپٹراورایف 35،روس کا ایس یو57،اورچین کے جے 20 اورجے35 ہیں۔ ان کے بعدکی قطارمیں برطانیہ،اٹلی، جاپان، ترکی، فرانس،جرمنی اوراسپین کے تیارکردہ طیارے ہیں جوابھی تیاری کے مراحل میں ہیںجیسے ’’ٹیمپسٹ‘‘ ،’’ایف سی اے ایس‘‘اور’’کے اے اے این‘‘لیکن پاک چین کے اشتراک سے بنے طیاروں نے حالیہ پاک وہندکی جنگ میں جونمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں،اس کے بعد پاکستان کی فضائی کارکردگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تکنیکی مہارت نے بھی اپنالوہامنوالیاہے۔
عالمی میڈیاکے مطابق پاکستان نے جہاں میدان جنگ میں فتوحات حاصل کی ہیں وہاں کامیاب سفارتی کوششوں سے میدان مارلیاہے جس کی واضح مثال جے35،ایچ کیو19، کے جے 500کے حصول اورقرضوں میں نرمی کی شرائط سے ملتی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت چین سے مؤخرادائیگی جیسے معاملات فقط فوری عسکری فائدے نہیں بلکہ ایک طویل المیعادحکمت عملی کی علامت ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں عسکری فیصلے، اقتصادی وسعت اور سفارتی بصیرت ایک مثلثی توازن میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ کامیابیاں اس امر کی بھی غمازہیں کہ پاکستان اب سفارت کاری کوفقط بیانات تک محدودنہیں بلکہ 3.

7ارب ڈالرقرض کی موخر ادائیگی بھی پاک چین دوستی تعاون کی ایک علامت ہے،یہ وہ کامیابیاں ہیں جوصرف مذاکراتی میزپرممکن ہوئیں،میدان جنگ میں نہیں۔ موجودہ حکومت کے یہ سفارتی اقدام اسے معاہدات، نظام اوراس سے کہیں بڑھ کردفاعی بندوبست تک لے گیا ہے۔ پاکستان نے اب یہ فیصلہ کرلیاہے کہ وقتی ضرورت کواہمیت دیتے ہوئے دیرپاپالیسیوں پر عملدرآمد ضروری ہے اوریہ نئی پالیسی کی پہلی قسط ہے جس میں تلوارکی دھاراورقلم کی نوک،دونوں شریک ہیں۔
جب پاکستان نے چینی دفاعی سامان خریدنے کاعندیہ دیا،توپاکستان کی چینی اسلحہ میں گہری دلچسپی نے چینی معیشت میں زبردست قسم کی جنبش پیداکردی بلکہ بیجنگ کی دفاعی صنعت ’’ایوک‘‘میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ اقتصادی جھٹکادراصل ایک سیاسی ارتعاش تھا۔ گویاپاکستان کی عسکری پسندیدگی نے چین کی اسٹاک مارکیٹ کے بازارِحصص کو جھنجھوڑڈالابلکہ جھومنے پر مجبور کردیااور حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعداقوام عالم کے کئی ممالک نے مغربی اسلحہ سے مشرق کے اسلحہ کوخریدنے کے لئے انتہائی سنجیدگی سے دلچسپی لیناشروع کردی ہے۔ جب ایوک شینیینگ ایئرکرافٹ کمپنی کی قیمتوں میں9.3اضافہ ہوا،تواس کے پیچھے فقط ایک معاشی حقیقت نہیں،بلکہ ایک عالمی اعتمادکی جھلک تھی،یہ سرمایہ دارانہ دنیاکاوہ لمحہ تھا جب جنگی تیاری نے معیشت کونئی روح بخشی اورچینی اسلحہ اورجہازوں کی سٹاک ویلیومیں اضافہ دیکھنے کوملا۔چینی اسلحہ سازکمپنی ایوک کے حصص میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ دفاع صرف میدان جنگ کامعاملہ نہیں،بلکہ بازارِمعیشت کی دھڑکن بھی ہے۔
اگرچہ چہ مگوئیاں برسوں سے جاری تھیں،مگر پاکستان کی باضابطہ لب کشائی،جوایک نئے دورکے آغازکاپتہ دیتی ہے،پاکستانی حکومت کی پہلی باضابطہ تصدیق نے ان افواہوں کو ایک رسمی شکل دیتے ہوئے اپنے قومی عزم کااعلان کرتے ہوئے فیصلہ سنادیاکہ ہم نے خاموشی کوترک کرکے اپنی ملکی دفاعی تیاری کوترجیح دی ہے اورہم وطنِ عزیزکے لئے ہرقسم کی جدید تیاری کو اولیت اور فوقیت دیتے ہوئے سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حصول کواپنی منزل قراردے دیاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخرسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے مزین ان طیاروں میں خاص کیابات ہے؟سٹیلتھ ٹیکنالوجی کیوں ضروری ہے؟دنیاکی جنگیں اب میدانِ کارزارمیں نہیں بلکہ اسکرینوں اورسینسرزپرلڑی جارہی ہیں۔سٹیلتھ ٹیکنالوجی دشمن کی آنکھ میں دھول جھونکنے کا فن ہے۔جس کے پاس یہ صلاحیت نہیں،وہ گویارات کے اندھیرے میں چراغ جلائے جنگ لڑنے نکلے،بے وقت،بے فائدہ،اورخطرناک۔یہ سوال فقط تکنیکی تجسس نہیں،بلکہ اس عہدکااستفسارہے جس میں جنگ زمینی نہیں رہی۔یہ طیارے دشمن کی آنکھ سے اوجھل، اس کے ریڈارسے پوشیدہ،اوراس کے دماغ سے پہلے حملہ آور ہوتے ہیںگویاہواسے باتیں کرتے ہیں،لیکن دشمن کوسننے بھی نہیں دیتے۔ جدیدجنگ میں کامیابی کا راز چھپنے اور دیکھنے کی طاقت میں ہے۔جودکھائی دے،وہ ماراجائے۔سٹیلتھ اسی فلسفے کاعملی اظہارہے۔
دنیامیں صرف تین ممالک امریکا، روس اور چین ایسے ہیں جنہوں نے اس نایاب ٹیکنالوجی کوعملی جامہ پہنایا۔یہ وہ اقوام ہیں جونہ صرف عسکری برتری رکھتی ہیں،بلکہ عالمی سیاست میں بھی اونچابولتی ہیں۔ مستقبل میں سٹیلتھ ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے لئے برطانیہ،یورپ،اورترکی کی کاوشیں بھی منظرعام پرآرہی ہیں۔اس کے علاوہ برطانیہ، جاپان، اٹلی مستقبل کے طیارے’’ٹیمپسٹ‘‘کی تیاری پرکام کررہے ہیں اورفرانس،جرمنی،اسپین مستقبل کے ایف سی اے ایس طیاروں کی تیاری کے لئے بڑی سرگرمی سے کام کر رہے ہیں اور مسلمان ملک ترکی بھی ’’کان‘‘ نامی طیارے کی تیاری میں آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔یادرہے کہ ترکی واحدمسلمان ملک ہے جس کے تیارکردہ ڈرونزکی بڑی تعدادکے خریدار روس اورچین ہیں۔گویااس طرح مستقبل کی جنگوں کی تیاری میں آنے والی صدی کی فضائی شہنشاہی کی بنیادیں ڈالنے کاعمل جاری ہے۔
آنے والے وقتوں میں جنگ کامطلب ہوگا فضا کی وہ خاموش آندھی جوکسی کی آنکھ کونظرنہ آئے مگربستی اجاڑجائے۔پاکستان جیسے ملک کے لئے ایسی ٹیکنالوجی کاحصول محض عسکری نہیں،بلکہ قومی سلامتی، تہذیبی وقار،اورخودانحصاری کی علامت ہے۔جب مکار دپڑوسی ہرقسم کی جارحیت کے لئے متکبرانہ اندازمیں دہمکیاں دیکرمرعوب کرنے کی احمقانہ کوششوں میں مبتلاہوتوان حالات میں ضروری ہوگیاہے کہ پاکستان بھی موجودہ ففتھ جنریشن طیاروں کے نہ صرف حصول بلکہ چین کے اشتراک سے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کارخ کرے۔اس وقت امریکاکے ایف35لائٹننگ، ریپٹر اورایف22،روس کاایس یو57ففتھ جنریشن طیاروں کی تمام خوبیوں کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن چین کا جے 35 اورجے20طیارے جونسبتاً نئے ہیں، مگرانتہائی خطرناک اورقیمت میں معتدل،یعنی موزوں ہیں اورپاکستاان جے35میں اپنی دلچسپی لے رہاہے تاکہ مستقبل میں چین کے اشتراک سے جے ایف17 تھنڈر کی طرح اسے بھی خودتیارکرکے خودکفالت کی طرف قدم بڑھا سکے۔
ففتھ جنریشن اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے مزین طیارے یہ فقط دفاع نہیں،بلکہ نکتہ آغازہے جوپیشگی حملہ کی صلاحیت رکھتے ہوئے دشمن کے جہازوں کواڑان بھرتے ہی دبوچ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ کم خرچ کے ساتھ زیادہ نفسیاتی دباؤکی تکنیک سے دشمن کی مکمل بصارت پرپردہ ڈال کران کوتباہ کرنے پرقدرت رکھتاہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستانی شاہینوں کی یہی پالیسی نے اس کے رافیل اورروسی طیاروں کواپنے ملکی حدودسے ہی بھارتی سرزمین پرتباہ کرکے دنیاکودنگ کردیاتھا۔اب سٹیلتھ کی ضرورت اس لئے ضروری ہوگئی ہے کہ جدید جنگ میں جودکھائی دیا،وہ ماراگیا۔ جو چھپارہا،وہ جیتا۔سٹیلتھ ٹیکنالوجی،گویا غارِحراکی خلوت کی مانند،خامشی سے اپنی تاثیردکھاتی ہے۔
مستقبل کی فضائی جنگ گویاایک ایسی ہولناک جنگ ہوگی جہاں پائلٹ ہویانہ ہو،مگرطیارہ خوداپنے ہدف کونہ صرف تلاش کرکے مار گرانے کی صلاحیت رکھتاہوگابلکہ دشمن کے راڈار کوبھی چکمہ دیکرآنکھوں سے اوجھل ہوکراپنے ٹارگٹ کوتباہ کرکے واپس اپنی منزلِ مقصودپرلوٹ آئے گا۔فضامیں خاموشی ہوگی،مگرزمین پرشوربرپاہوگا۔دشمن کوپتہ بھی نہ چلے گا، اوراس کادفاعی نظام ناکارہ ہو چکاہوگا۔مستقبل کی جنگ کی جھلک کااس بات سے اندازہ لگالیں کہ مصنوعی ذہانت،بغیرپائلٹ کے جہاز،اورنیٹ ورک پرمبنی لڑائی ہوگی گویامستقبل کی جنگ میں فضاخاموش ہوگی،مگرموت کی آہٹ تیز تر ہوجائے گی اورپتہ بھی نہ چل سکے گاکہ ساراعلاقہ پلک جھپکتے ہی راکھ کامنظرپیش کررہاہوگا۔
پاکستان کایہ فیصلہ کہ وہ جے35جیسے جدید طیارے حاصل کرے،ایک نئی دفاعی حکمت عملی کی بنیادہے،یہ فقط عسکری طاقت نہیں،بلکہ سفارتی حکمت، اقتصادی فائدے اورعالمی سیاسی نقشے پرمقام حاصل کرنے کی کاوش ہے۔آنے والاوقت بتائے گاکہ پاکستان اس فضائی دوڑمیں محض تماشائی رہے گایامعرکہ آرائی کاعلمبردار۔
یادرکھیں جب قوموں کی فکری سطح بلند ہو جائے توان کی توپیں بھی تدبرسے گولہ داغتی ہیں۔ پس،وقت آگیاہے کہ ہم فضاؤں کی جنگ کومحض جنگ نہ سمجھیں، بلکہ تہذیبوں کے مکالمے کاایک باب جانیں۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ففتھ جنریشن پاکستان کی کی صلاحیت نہیں بلکہ مستقبل کی ہیں بلکہ کی تیاری کی فضائی کے ساتھ ہیں اور کرنے کی کے لئے چین کے کی جنگ

پڑھیں:

پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

251102-09-4

 

محمد مطاہر خان

پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔

اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔

وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔

بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔

محمد مطاہر خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • پاک فوج کی کوششوں سے گوادر میں جدید ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ قائم
  • مسیحیوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے، ٹرمپ کی نائیجیریا کو فوجی کارروائی کی دھمکی
  • گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی : پاک فوج کی کاوشوں کا مظہر
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • میں گاندھی کو صرف سنتا یا پڑھتا نہیں بلکہ گاندھی میں جیتا ہوں، پروفیسر مظہر آصف
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم