کانگریس لیڈر نے کہا کہ مودی حکومت کے دور میں جاری ٹیکس ٹیررزم، چند بڑے کارپوریٹ گروپوں کو دی جانے والی خصوصی مراعات اور باقی تاجروں میں خوف و عدم تحفظ کا ماحول سرمایہ کاری کی ذہنیت کو منفی طور پر متاثر کررہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری انچارج شعبہ مواصلات جے رام رمیش نے ملک کی اقتصادی صورتحال پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی معیشت ایک ضد پر اڑی ہوئی ہے اور آگے بڑھنے کا نام نہیں لے رہی۔ انہوں نے کہا کہ تیز اقتصادی ترقی نہ صرف ضروری ہے بلکہ مکمل طور پر ممکن بھی ہے لیکن حکومت کی پالیسیوں نے سرمایہ کاری کے ماحول کو شدید متاثر کیا ہے۔ جے رام رمیش نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ستمبر 2019ء میں مودی حکومت کی جانب سے کارپوریٹ ٹیکس میں بڑی کٹوتی کی گئی تھی اور پی ایل آئی (پروڈکشن لنکڈ انسینٹیو) کے تحت نقد مراعات دی گئی تھیں، اس کے باوجود نجی شعبے کی سرمایہ کاری مسلسل سست ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے اپنے ہی ایک سروے میں اشارہ دیا گیا ہے کہ مالی 2025ء 2026ء میں نجی شعبے کا سرمایہ جاتی خرچ گزشتہ سال کے مقابلے میں 25 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بینک قرض دینے کے لئے تیار ہیں لیکن کمپنیاں موجودہ کاروباری ماحول کو توسیع کے لئے سازگار نہیں سمجھتیں، اس لئے قرض لینے سے گریز کر رہی ہیں۔ انہون نے کہا کہ موجودہ جمود کی بنیادی وجہ سرمایہ کاری کے لیے مطلوبہ مانگ کا نہ ہونا ہے۔ جے رام رمیش نے ہندوستان میں طلب میں کمی کے تین بڑے اسباب بھی گنوائے، مزدوری میں جمود، پیچیدہ اور غیر منصفانہ جی ایس ٹی ڈھانچہ اور بڑھتی ہوئی اقتصادی عدم مساوات۔ ان کا کہنا تھا کہ جب عام لوگ کم خرچ کر رہے ہوں تو صنعتوں کے لئے پیداوار بڑھانے کی کوئی معقول وجہ نہیں رہتی۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کا فیصلہ صرف مالیاتی تجزیے پر منحصر نہیں ہوتا، بلکہ اس پر نفسیاتی عوامل بھی گہرے اثر انداز ہوتے ہیں۔

کانگریس لیڈر نے کہا کہ مودی حکومت کے دور میں جاری ٹیکس ٹیررزم، چند بڑے کارپوریٹ گروپوں کو دی جانے والی خصوصی مراعات اور باقی تاجروں میں خوف و عدم تحفظ کا ماحول سرمایہ کاری کی ذہنیت کو منفی طور پر متاثر کر رہا ہے۔ جے رام رمیش نے الزام عائد کیا کہ موجودہ حکومت کی دباؤ اور دباؤ پر مبنی پالیسیوں نے اقتصادی جمود کو جنم دیا ہے اور یہ سب کچھ ناگزیر طور پر سرمایہ کاری کے ماحول کو تباہ کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت واقعی اقتصادی ترقی چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر سرمایہ کار دوست، منصفانہ اور شفاف پالیسیاں اپنانی ہوں گی بصورت دیگر نہ صرف سرمایہ کاری متاثر ہوگی بلکہ مجموعی اقتصادی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سرمایہ کاری مودی حکومت نے کہا کہ حکومت کی

پڑھیں:

پی آئی اے کی نجکاری میں حکومت کو کامیابی کی امید کیوں؟ مشیر برائے نجکاری محمد علی نے بتادیا

حکومت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز یعنی پی آئی اے کی نجکاری میں اس بار کامیابی کی بھرپور امید رکھتی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی کے مطابق اس عمل میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف سے اہم چھوٹ، مالیاتی توازن میں بہتری، اور لین دین کے ڈھانچے میں وضاحت اہم عوامل ثابت ہو رہے ہیں۔

ماضی کی رکاوٹیں دور، اب آئی ایم ایف کی منظوری حاصل

محمد علی نے بتایا کہ پہلے نجکاری کی کوششیں اس لیے ناکام ہوئیں کیونکہ آئی ایم ایف سے درکار چھوٹ نہیں مل سکی تھی۔ تاہم، اب حکومت کو خاص طور پر ہوائی جہازوں اور آلات پر جی ایس ٹی سے استثنیٰ کی شکل میں یہ منظوری حاصل ہو چکی ہے۔

وزیر اعظم کے مشیر نے بتایا کہ پی آئی اے کی ایکویٹی جو پہلے منفی 45 ارب روپے تھی، اب مثبت ہو چکی ہے اور کارکردگی میں بھی بہتری آئی ہے۔

نقصانات ہولڈنگ کمپنی کو منتقل، سرمایہ کاری پی آئی اے پر خرچ ہوگی

پی آئی اے کے منفی 45 ارب روپے، جن میں ایف بی آر کے 17 ارب روپے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے واجبات شامل ہیں، اب ایک علیحدہ ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔

یہ اقدام سرمایہ کاروں کے اس مطالبے کے تحت کیا جا رہا ہے کہ نجکاری کے بعد حاصل ہونے والی زیادہ تر رقم خود پی آئی اے پر خرچ کی جائے، نہ کہ حکومت کو منتقل ہو۔

اس سرمایہ کاری کا مقصد واجبات کی ادائیگی نہیں بلکہ نئی طیاروں کی خریداری، آلات کی بہتری اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ پی آئی اے کو ایک علاقائی اور بعد ازاں عالمی سطح کا مقابلہ کرنے والا ادارہ بنایا جا سکے۔

75 سے 80 فیصد شیئرز کی فروخت، ملازمین کو عارضی تحفظ

حکومت کا ارادہ ہے کہ پی آئی اے کے 75 سے 80 فیصد شیئرز فروخت کیے جائیں، جبکہ پہلے 60 فیصد کی پیشکش تھی۔ بعض سرمایہ کار 100 فیصد شیئرز کی خریداری کے خواہشمند ہیں، جس پر غور جاری ہے۔

 مشیر برائے نجکاری محمدعلی کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ وہ 20 سے 25 فیصد حصص اپنے پاس رکھے تاکہ مستقبل کی کارکردگی سے فائدہ اٹھایا جا سکے، ملازمین کے لیے ایک مخصوص عرصے تک روزگار کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

’بولی جیتنے والے سرمایہ کار سے باقاعدہ معاہدہ کیا جائے گا۔ ان شرائط کے بغیر فروخت آگے نہیں بڑھے گی۔ پی آئی اے کی نجکاری اس کیلنڈر سال کے اختتام سے قبل مکمل کی جائے گی۔‘

روزویلٹ ہوٹل کی علیحدہ فروخت، قیمت کی خبروں کی تردید

نیویارک میں واقع روزویلٹ ہوٹل کے بارے میں محمد علی نے وضاحت کی کہ یہ پی آئی اے سے منسلک ہولڈنگ کمپنی کی ملکیت ہے، مگر نجکاری کا الگ منصوبہ ہے، انہوں نے کہا کہ میڈیا میں رپورٹ کیے گئے 100 ملین ڈالر کی بیس پرائس کی کوئی حقیقت نہیں، کیونکہ ہوٹل کی اصل قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔

محمد علی نے بتایا کہ نجکاری کمیشن بورڈ نے اس لین دین کی منظوری دے دی ہے، اور اب یہ معاملہ کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے سامنے رکھا جائے گا، متوقع طریقہ کار میں جوائنٹ وینچر یا مکمل فروخت شامل ہیں، جس سے 100 سے 150 ملین ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔

معیشت میں بہتری، شرح سود کم، کرنسی مستحکم

معاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے محمد علی نے کہا کہ میکرو اکنامک اشاریے بہتر ہو رہے ہیں، شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آ گئی ہے، کرنسی مستحکم ہے، اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ معیشت میں حقیقی توانائی کے لیے نجکاری کے ساتھ ساتھ ڈی ریگولیشن بھی ضروری ہے۔

نجکاری کے دیگر منصوبے اور 1.25 ٹریلین کا قرضہ منصوبہ

 مشیر برائے نجکاری نے بتایا کہ پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل، اور ممکنہ طور پر کچھ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں مثلاً فیسکو، آئیسکو، گیپکو اور بینک مثلاً ایچ بی ایف سی، زی ٹی بی ایل، فرسٹ ویمن بینک کی نجکاری مالی سال 2025-26 میں مکمل ہو سکتی ہے، جس سے 86 ارب روپے کا بجٹ ہدف پورا ہونے کی امید ہے۔

محمد علی نے مزید بتایا کہ حکومت نے 18 بینکوں سے 1.25 ٹریلین روپے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ گردشی قرضہ ختم کیا جا سکے، جس سے معیشت کو فروغ ملے گا اور بینکوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

یہ منصوبہ کابینہ نے گزشتہ ہفتے منظور کیا اور اب حکومت کی طرف سے تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔

سود کی شرح میں کمی سے حکومت کو بڑا فائدہ

وزیر اعظم کے مشیر نے بتایا کہ اس انتظام کے دو بڑے فائدے ہیں، ایک تو جن اداروں کو ادائیگیاں کی جا رہی ہیں، ان پر سود معاف کر دیا گیا ہے، جس سے حکومت کو بڑی بچت ہوگی۔ دوسرا یہ کہ عام طور پر آئی پی پیز کو ادائیگی کائیبور پلس 2.5 فیصد شرح پر کی جاتی ہے، لیکن اس معاہدے میں کائیبور مائنس 0.9  فیصد کی شرح طے کی گئی ہے، جس سے اوسطاً حکومت کو 4 فیصد فائدہ ہوگا۔

انہوں نے واضح کیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت اب توانائی یا پیٹرولیم کے شعبے میں گردشی قرضہ دوبارہ جمع نہیں ہونے دے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی پی پیز آئیسکو آئی ایم ایف ایچ بی ایف سی ایف بی آر بجلی پی آئی اے پیٹرولیم توانائی روزویلٹ ہوٹل سود کی شرح سول ایوی ایشن اتھارٹی کائیبور گردشی قرضہ محمد علی مشیر ہولڈنگ کمپنی وزیر اعظم

متعلقہ مضامین

  • پی آئی اے کی نجکاری میں حکومت کو کامیابی کی امید کیوں؟ مشیر برائے نجکاری محمد علی نے بتادیا
  • حکومت بوکھلاہٹ کا شکار اور ہمیں ڈرایا جا رہا ہے، احمد خان بھچر
  • مودی کی ناکام پالیسیاں؛ بھارت امریکا تجارتی مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار
  • مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں کو بڑا دھچکا، بھارت-امریکا تجارتی مذاکرات تعطل کا شکار
  • پی ٹی آئی اپنے ہی غلط فیصلوں کا شکار ہوگئی، راناثناءاللہ
  • آر ایس ایس نے کبھی بھی ہندوستان کے آئین کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا، جے رام رمیش
  • اسرائیل کی سائنسی و اقتصادی تنصیبات پر ایران کی کاری ضرب کی کچھ داستانیں
  • جانیے کہ ترقی پر سرمایہ کاری کا کیا مطلب ہے؟
  • پاکستان میں چاندی کی قیمت ایک بار پھر بڑھنے لگی