پی آئی اے کی نجکاری میں حکومت کو کامیابی کی امید کیوں؟ مشیر برائے نجکاری محمد علی نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
حکومت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز یعنی پی آئی اے کی نجکاری میں اس بار کامیابی کی بھرپور امید رکھتی ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی کے مطابق اس عمل میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف سے اہم چھوٹ، مالیاتی توازن میں بہتری، اور لین دین کے ڈھانچے میں وضاحت اہم عوامل ثابت ہو رہے ہیں۔
ماضی کی رکاوٹیں دور، اب آئی ایم ایف کی منظوری حاصلمحمد علی نے بتایا کہ پہلے نجکاری کی کوششیں اس لیے ناکام ہوئیں کیونکہ آئی ایم ایف سے درکار چھوٹ نہیں مل سکی تھی۔ تاہم، اب حکومت کو خاص طور پر ہوائی جہازوں اور آلات پر جی ایس ٹی سے استثنیٰ کی شکل میں یہ منظوری حاصل ہو چکی ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر نے بتایا کہ پی آئی اے کی ایکویٹی جو پہلے منفی 45 ارب روپے تھی، اب مثبت ہو چکی ہے اور کارکردگی میں بھی بہتری آئی ہے۔
نقصانات ہولڈنگ کمپنی کو منتقل، سرمایہ کاری پی آئی اے پر خرچ ہوگیپی آئی اے کے منفی 45 ارب روپے، جن میں ایف بی آر کے 17 ارب روپے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے واجبات شامل ہیں، اب ایک علیحدہ ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔
یہ اقدام سرمایہ کاروں کے اس مطالبے کے تحت کیا جا رہا ہے کہ نجکاری کے بعد حاصل ہونے والی زیادہ تر رقم خود پی آئی اے پر خرچ کی جائے، نہ کہ حکومت کو منتقل ہو۔
اس سرمایہ کاری کا مقصد واجبات کی ادائیگی نہیں بلکہ نئی طیاروں کی خریداری، آلات کی بہتری اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہے، تاکہ پی آئی اے کو ایک علاقائی اور بعد ازاں عالمی سطح کا مقابلہ کرنے والا ادارہ بنایا جا سکے۔
75 سے 80 فیصد شیئرز کی فروخت، ملازمین کو عارضی تحفظ
حکومت کا ارادہ ہے کہ پی آئی اے کے 75 سے 80 فیصد شیئرز فروخت کیے جائیں، جبکہ پہلے 60 فیصد کی پیشکش تھی۔ بعض سرمایہ کار 100 فیصد شیئرز کی خریداری کے خواہشمند ہیں، جس پر غور جاری ہے۔
مشیر برائے نجکاری محمدعلی کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ وہ 20 سے 25 فیصد حصص اپنے پاس رکھے تاکہ مستقبل کی کارکردگی سے فائدہ اٹھایا جا سکے، ملازمین کے لیے ایک مخصوص عرصے تک روزگار کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
’بولی جیتنے والے سرمایہ کار سے باقاعدہ معاہدہ کیا جائے گا۔ ان شرائط کے بغیر فروخت آگے نہیں بڑھے گی۔ پی آئی اے کی نجکاری اس کیلنڈر سال کے اختتام سے قبل مکمل کی جائے گی۔‘
روزویلٹ ہوٹل کی علیحدہ فروخت، قیمت کی خبروں کی تردیدنیویارک میں واقع روزویلٹ ہوٹل کے بارے میں محمد علی نے وضاحت کی کہ یہ پی آئی اے سے منسلک ہولڈنگ کمپنی کی ملکیت ہے، مگر نجکاری کا الگ منصوبہ ہے، انہوں نے کہا کہ میڈیا میں رپورٹ کیے گئے 100 ملین ڈالر کی بیس پرائس کی کوئی حقیقت نہیں، کیونکہ ہوٹل کی اصل قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
محمد علی نے بتایا کہ نجکاری کمیشن بورڈ نے اس لین دین کی منظوری دے دی ہے، اور اب یہ معاملہ کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے سامنے رکھا جائے گا، متوقع طریقہ کار میں جوائنٹ وینچر یا مکمل فروخت شامل ہیں، جس سے 100 سے 150 ملین ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔
معیشت میں بہتری، شرح سود کم، کرنسی مستحکممعاشی صورتحال پر بات کرتے ہوئے محمد علی نے کہا کہ میکرو اکنامک اشاریے بہتر ہو رہے ہیں، شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آ گئی ہے، کرنسی مستحکم ہے، اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ معیشت میں حقیقی توانائی کے لیے نجکاری کے ساتھ ساتھ ڈی ریگولیشن بھی ضروری ہے۔
نجکاری کے دیگر منصوبے اور 1.25 ٹریلین کا قرضہ منصوبہ
مشیر برائے نجکاری نے بتایا کہ پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل، اور ممکنہ طور پر کچھ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں مثلاً فیسکو، آئیسکو، گیپکو اور بینک مثلاً ایچ بی ایف سی، زی ٹی بی ایل، فرسٹ ویمن بینک کی نجکاری مالی سال 2025-26 میں مکمل ہو سکتی ہے، جس سے 86 ارب روپے کا بجٹ ہدف پورا ہونے کی امید ہے۔
محمد علی نے مزید بتایا کہ حکومت نے 18 بینکوں سے 1.25 ٹریلین روپے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ گردشی قرضہ ختم کیا جا سکے، جس سے معیشت کو فروغ ملے گا اور بینکوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
یہ منصوبہ کابینہ نے گزشتہ ہفتے منظور کیا اور اب حکومت کی طرف سے تمام تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔
سود کی شرح میں کمی سے حکومت کو بڑا فائدہوزیر اعظم کے مشیر نے بتایا کہ اس انتظام کے دو بڑے فائدے ہیں، ایک تو جن اداروں کو ادائیگیاں کی جا رہی ہیں، ان پر سود معاف کر دیا گیا ہے، جس سے حکومت کو بڑی بچت ہوگی۔ دوسرا یہ کہ عام طور پر آئی پی پیز کو ادائیگی کائیبور پلس 2.5 فیصد شرح پر کی جاتی ہے، لیکن اس معاہدے میں کائیبور مائنس 0.9 فیصد کی شرح طے کی گئی ہے، جس سے اوسطاً حکومت کو 4 فیصد فائدہ ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت اب توانائی یا پیٹرولیم کے شعبے میں گردشی قرضہ دوبارہ جمع نہیں ہونے دے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی پی پیز آئیسکو آئی ایم ایف ایچ بی ایف سی ایف بی آر بجلی پی آئی اے پیٹرولیم توانائی روزویلٹ ہوٹل سود کی شرح سول ایوی ایشن اتھارٹی کائیبور گردشی قرضہ محمد علی مشیر ہولڈنگ کمپنی وزیر اعظمذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آئی پی پیز آئیسکو ا ئی ایم ایف ایچ بی ایف سی ایف بی ا ر بجلی پی ا ئی اے پیٹرولیم توانائی روزویلٹ ہوٹل سود کی شرح سول ایوی ایشن اتھارٹی کائیبور محمد علی ہولڈنگ کمپنی مشیر برائے نجکاری روزویلٹ ہوٹل ہولڈنگ کمپنی کہ پی آئی اے پی آئی اے کی محمد علی نے آئی ایم ایف نے بتایا کہ سرمایہ کار کی نجکاری نجکاری کے حکومت کو ارب روپے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی، 35 آزاد ارکان فیصلہ کن شکل اختیار کرگئے
مذکورہ ارکان کے پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے رہنے کی صورت میں علی امین حکومت کو بدستور 145 رکنی ایوان میں 93 ارکان کی حمایت حاصل رہے گی تاہم ان کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے سے حکومتی ارکان کی تعداد کم ہوکر 58 پر آجائے گی جس سے حکومت ایوان میں اکثریت کھو بیٹھے گی۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا میں موجودہ حکومتی سیٹ اپ کی تبدیلی میں صوبائی اسمبلی میں موجود 35 آزاد ارکان فیصلہ کن شکل اختیار کرگئے۔ مذکورہ ارکان کے پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے رہنے کی صورت میں علی امین حکومت کو بدستور 145 رکنی ایوان میں 93 ارکان کی حمایت حاصل رہے گی تاہم ان کی جانب سے حکومت کا ساتھ چھوڑنے سے حکومتی ارکان کی تعداد کم ہوکر 58 پر آجائے گی جس سے حکومت ایوان میں اکثریت کھو بیٹھے گی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اس وقت علی امین گنڈاپور کی حکومت کو 93 ارکان کی حمایت حاصل ہے جن میں سے 58 ارکان کا تعلق پی ٹی آئی جبکہ پی ٹی آئی پی کے 35 ارکان آزاد ارکان کی حیثیت سے ایوان میں موجود ہیں۔
ان میں آصف خان جنوبی وزیرستان اپر، محمد عثمان ٹانک، علی ہادی کرم، اورنگزیب خان اورکزئی، شاہ ابوتراب ہنگو، شفیع اللہ جان کوہاٹ، داؤد دشاہ کوہاٹ، آفتاب عالم کوہاٹ، خلیق الرحمٰن نوشہرہ، میناخان پشاور، شیر علی آفریدی پشاور، محمد سہیل آفریدی خیبر، محمد عدنان قادری خیبر، محمد اسرار مہمند، رنگیز خان صوابی، ملک عدیل اقبال ہری پور، مشتاق غنی ایبٹ آباد، افتخار جدون ایبٹ آباد، رجب علی عباسی ایبٹ آباد، لائق محمد خان تورغر، زاہد چن زیب مانسہرہ، منیر حسین مانسہرہ، تاج محمد بٹگرام، زبیرخان بٹگرام، محمد ریاض کولائی پالس کوہستان، فضل حق کوہستان اپر، عبدالمنعم شانگلہ، عبدالکبیر خان بونیر، مصور خان ملاکنڈ، اجمل خان باجوڑ، لیاقت علی خان لوئر دیر، شفیع اللہ لوئر دیر، امجد علی سوات، فضل حکیم سوات اور ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی ثریا بی بی چترال بالا شامل ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن کی پانچ جماعتوں کے 27 ارکان ایوان میں موجود ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علما اسلام کے 9،9 ارکان، پیپلز پارٹی کے 5 ارکان جبکہ اے این پی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین کے دو دو ارکان ایوان کا حصہ ہیں۔ ایوان کی اس وقت 25 نشستیں خالی ہیں جن میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی نشستیں شامل ہیں، مذکورہ نشستیں اپوزیشن کو ملنے پر اب ان کے ارکان کی تعداد بڑھ کر 52 ہوجائے گی تاہم ایوان میں سادہ اکثریت کے لیے 73 ارکان کی ضرورت ہے جس کے باعث ایوان میں موجود آزاد ارکان فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔ اگر ان ارکان نے علی امین گنڈاپور کی حمایت جاری رکھی تو ان کی حکومت بدستور موجود رہے گی تاہم اگر مذکورہ ارکان اپوزیشن سے آن ملے تو اس صورت میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 87 ہوجائے گی اور وہ سہولت کے ساتھ حکومت بنالیں گے۔ مذکورہ آزاد ارکان پر فلور کراسنگ کی صورت میں 63 (اے) کا اطلاق بھی نہیں ہوگا کیونکہ وہ کسی پارٹی کا حصہ نہیں۔