data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250926-08-10

 

سوات (صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخوا شمالی عنایت اللہ خان نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت سرکاری تعلیمی اداروں اوراسپتالوں کو پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت چلانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمے داریوں سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے، اس اقدام سے عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داریوں سے بھاگنے کے بجائے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرے، امن، صحت کی سہولیات اور مفت تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے لہٰذا حکومت اس ذمے داری سے فرار اختیار کرنے کے بجائے اسے پورا کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سوات پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عنایت اللہ خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے 1500 سے زایدا سکولوں 58زاید کالجوں کے ساتھ ساتھ 78 کے قریب چھوٹے بڑے سرکاری اسپتالوں کو آؤٹ سورس کرکے پرائیویٹ سیکٹر کے تحت چلانے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں کو پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت دینے کی پالیسی کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے علاج معالجہ مزید مہنگا ہو جائے گا اور غریب عوام صحت جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جماعت اسلامی تعلیم اور صحت کی نجکاری کے خلاف ہر فورم پر آواز بلند کرے گی کیونکہ عوام کو مفت تعلیم، سستی صحت اور پرامن ماحول فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہے، عنایت اللہ خان نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر بھی تشویش کااظہار کرتے ہوئے حکومت سے خیبر پختونخوا میں قیام امن کے لیے اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ سوات میں ہونے والے امن پاسون میں پیش کردہ مطالبات کی جماعت اسلامی پوری طرح حمایت کرتی ہے اور آئندہ کے لیے بھی ا س حوالے سے سوات کے عوام کے اس جائز مطالبے کی ہر فورم پر بھرپور حمایت کی جائے گی ۔

خبر ایجنسی گوہر ایوب.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عنایت اللہ خان کرتے ہوئے

پڑھیں:

مہنگی طبی سہولیات

ملک میں مہنگی طبی سہولیات کے باعث عوام کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ مختلف حکومتوں نے صحت کارڈ کے نام سے عوام کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کے منصوبے متعارف کرائے۔

پی ٹی آئی کی حکومت نے ماضی کی پنجاب حکومت کے اس منصوبے پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کا نام انصاف صحت کارڈ رکھ کر عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ جیسے پی ٹی آئی کا یہ عوام کو طبی سہولیات کا پہلا پروگرام ہے جب کہ اس کا آغاز (ن) لیگ کی حکومت نے کیا تھا جو بعد میں پنجاب صحت کارڈ کے نام سے بحال ہوا اور ضرورت مند اس پنجاب صحت کارڈ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کے تحت مخصوص بیماریوں کے علاج میں سہولت دی جا رہی ہے جس میں توسیع کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام فائدہ اٹھا سکیں۔

مریم نواز کی حکومت نے لاہور کے سرکاری اسپتالوں پر ذاتی توجہ دے کر بہتری لانے کی کوشش کی ہے اور ڈاکٹروںکو نظم و ضبط کا پابند بنایا ہے، ان سے وہاں مریضوں کی تعداد بڑھی ہے۔

سرکاری شفاخانوں میں ڈاکٹروں کی آمد 9 بجے کے بعد ہی شروع ہوتی ہے جہاں ڈاکٹروں کی تعداد محدود اور مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور دوپہر تک بعض مریضوں کا نمبر ہی نہیں آتا اور مایوس ہو کر لوٹ جاتے ہیں اور گزشتہ روز اور جلد آتے ہیں کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں علاج تقریباً سستا ہے جب کہ سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرز مغرب کے بعد اپنے نجی کلینکس میں مریضوں سے ہزار روپے یا زائد فیس لے کر ان کا علاج کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی اور رش کا بعض بے حس لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

 سرکاری اسپتالوں میں رش اس لیے بڑھا ہے کہ یہ ڈاکٹر اسپتال کی سرکاری فیس پر مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں مگر مریض زیادہ اور سرکاری اوقات محدود ہیں اور سرکاری ڈاکٹر کی 8گھنٹے ڈیوٹی مقرر ہے اور وہ جلدی چلے جاتے ہیں کیونکہ انھوں نے ذاتی کلینک کھولے ہوتے ہیں یا انھوں نے دیگر نجی اسپتالوں کو بھی وقت دیا ہوتا ہے جہاں ان کی فیس اسپتال مقرر کرتے ہیں جس میں نجی اسپتال کا بھی حصہ ہوتا ہے جو بہت زیادہ ہوتی ہے۔

بعض شہروں میں فلاحی اور نجی اداروں نے ٹرسٹ بنا کر اسپتال بنا رکھے ہیں اور ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جہاں مختلف ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں اور ان کی فیسیں نجی اسپتالوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں جہاں آپریشن بھی ہوتے ہیں کم فیسوں کے باعث مریضوں کا رش بھی زیادہ ہوتا ہے۔ بعض ٹرسٹ کے زیر اہتمام اسپتالوں میں انتظامیہ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے مریض کم ہوگئے ہیں۔ملک بھر میں دوا ساز کمپنیاں دواؤں کے نرخ بڑھا بڑھا کر بھی مطمئن نہیں، متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہیں، اس طرح مریضوں کو مہنگی دوائیں فروخت کی جا رہی ہیں۔

سرکاری کنٹرول میں شعبہ ہیلتھ کی کارکردگی کسی دور میں بھی اچھی نہیں رہی ہے ۔ ادویات کی مہنگائی کے بارے میں ارباب اختیار کو بھی یقیناً پتہ ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبائی حکومتوں کی ذمے داری بن چکا ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے زیر اہتمام چلنے والے سرکاری شفاء خانوں میں مریضوں کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک نہیں ہوتا‘ ادویات تقریباً ملتی ہی نہیں ہیں ۔ سرکاری اسپتالوں میں موجود ٹیسٹ لیبارٹریز اکثر اوقات خراب رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مریضوں کو نجی شعبے میں قائم لیبارٹریز سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔اب تو چیریٹی اداروں نے بھی اپنے اسپتالوں سے باہر کولیکشن سینٹر بنا رکھے ہیں ۔ یہ لیبارٹریز انتہائی مہنگی ہیں۔

صوبائی حکومتوں کو چاہیے تھا کہ وہ صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دیتیںلیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ پہلے جو اسپتال وفاق کے زیر نگرانی چلتے تھے ان کی کارکردگی پھر بھی بہتر تھی لیکن اب سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی خاصی زوال پذیر ہے۔ مہنگی طبی سہولتوں کی وجہ سے عام آدمی کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس جانب توجہ دیں۔

متعلقہ مضامین

  •   پشاور ، حقوقِ طلبہ تحریک کا آغاز،حکومت کو 10اکتوبر کی ڈیڈلائن
  • صیہونی رجیم کے حساس مراکز اور اداروں تک رسائی مقام شکر ہے، ایرانی انٹیلیجنس
  • اللہ تو ضرور پوچھے گا !
  • ٹنڈوآدم،سندھ ایمپلائز الائنس کی اپیل پر سرکاری اداروں میں تالا بندی
  • مہنگی طبی سہولیات
  • سانحہ تیراہ: جماعت اسلامی کا شدید ردعمل، سیکیورٹی اداروں کی سنگین غفلت قرار
  • غزہ کے عوام تاریخی المیے کا سامنا کر رہے، جنگ فوری بند کی جائے، اسحاق ڈار
  • نیشنل کانفرنس نے کشمیری عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے، اشوک کول
  • سعودی مفتیِ اعظم کا انتقال، وزیراعظم شہباز شریف کا اظہار تعزیت