کسی گزشتہ کالم میں تفصیل سے عرض کرچکے کہ جسے ریاستہائے متحدہ امریکا کہا جاتا ہے، اس کے مالکان وال اسٹریٹ کے سیٹھ ہیں۔ امریکی سیاستدان، جماعتیں، اراکین کانگریس، ججز، فوج، انٹیلی جنس ادارے، میڈیا، صحافی، تھنک ٹینکس، لابنگ فرمز، دانشور، اساتذہ اور یونیورسٹیز سب ان کی ملکیت ہیں۔
پھر امریکی سیٹھوں میں بھی سب سے تگڑے سیٹھ وہ ہیں جو ’یہودی لابی‘ کہلاتے ہیں۔ یہ انہی سیٹھوں کی دور اندیشی کا نتیجہ ہے کہ امریکا میں مستقل قسم کے ’قائدین‘ نظر نہیں آتے۔ برسراقتدار صدر ہی اپنی جماعت کا بھی سربراہ ہوتا ہے۔ اور یہ سربراہی اس کے پاس بس اتنے ہی عرصے کے لیے ہوتی ہے، جس عرصے میں وہ صدر امریکا ہوتا ہے۔ یعنی زیادہ سے زیادہ 8 سال۔ باور یہ کرایا جاتا ہے کہ صدر امریکا دنیا کا طاقتور ترین شخص ہوتا ہے۔ مگر اس طاقتور ترین شخص کی بیچارگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وال اسٹریٹ کے سیٹھ کھڑے کھلوتے جوبائیڈن کو انتخابی مہم سے لات مار کر باہر نکال دیتے ہیں اور وہ چوں تک نہیں کرپاتا۔
صدر امریکا ہی کیا جب امرکی یونیورسٹیز میں فلسطین کے حق میں مظاہروں نے زور پکڑا تو سیٹھوں نے یونیورسٹیز کے صدور بھی کک آؤٹ کرکے عبرت کی مثال بنادیے۔ اور اراکین کانگریس نے کام مزید پکا کرنے کے لئے سیٹھوں کی منشا کے مطابق ایسی قانون سازی بھی کردی جو امریکی آئین میں دیے گئے فری اسپیچ کے حق سے ہی متصادم تھی۔ ساتھ ہی طلبہ کو وارننگ دی گئی کہ اگر وہ اسرائیل کے خلاف بکواس کرنے سے باز نہ آئے تو امریکا کے تمام تعلیمی اداروں کے لیے انہیں بلیک لسٹ کردیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: دشمن ایک تو دفاع بھی ایک
ایک زمانہ تھا جب امریکا میں حقوق کے حصول کے لیے کام کرنے والے قائدین پائے جاتے تھے مگر مارٹن لوتھر کنگ اور مالکم ایکس ایسے قائدین میں سے آخری تھے، اور یہ دونوں بھی گولی مار کر راستے سےہٹا دیے گئے تھے۔اب وہاں کوئی قائد نہیں ہوتا۔ اب وہاں بس انتخابی امیدوار ہوتے ہیں اور ان میں بھی جیتنے والا بس تب تک نظروں کے سامنے ہوتا ہے جب تک عہدے کا دورانیہ باقی ہے۔ رہ گیا قاعدہ قانون اور آئین تو اس کی خلاف ورزی ٹاپ لیول پر صرف اسی صورت سنگین معاملہ ہے اگر سیٹھوں کے مفاد کے خلاف ہو۔ سیٹھوں کے مفاد میں ہو تو امریکی آئین کی خلاف ورزی بھی کوئی بڑا ایشو نہیں۔ مثلا امریکی آئین کے مطابق کسی بھی ملک پر حملے یا باقاعدہ جنگ کی منظوری صرف کانگریس دے سکتی ہے۔ صدر امریکا اپنی مرضی سے حملہ نہیں کرسکتا۔
لیکن ایران پر ٹرمپ نے کانگریس کی منظوری کے بغیر حملہ کیا کہ نہیں؟ اس پر صرف تین اراکین کانگریس نے رسمی سی بات کی یہ آئین کی خلاف ورزی تھی۔ خود کانگریس نے بطور ادارہ کوئی ایکشن نہ لیا۔ کیونکہ حملہ سیٹھوں کی منشا کی تکمیل تھا۔سیٹھوں نے یہ سسٹم اتنا سوچ سمجھ کر بنایا ہے کہ سیمینارز سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز تک اور خبروں سے لے کر سیاسی کالمز تک ہر جگہ حکام حکومت نہیں بلکہ ’انتظامیہ‘ کہلاتے ہیں۔ ٹرمپ حکومت نہیں، ٹرمپ انتظامیہ کی اصطلاح مستعمل ملے گی۔ انتظامیہ مطلب؟ سیدھی سی بات، ایک ہوتے ہیں کسی ادارے، فیکٹری اور کارخانے کے مالکان اور دوسری ہوتی ہے وہ تنخواہ دار انتظامیہ جو اسے چلاتی ہے۔ سو جسے ہم اور آپ حکومت سمجھتے ہیں اسے خود امریکی سسٹم سیٹھوں کی مقرر کردہ انتظامیہ مانتے ہیں۔
مزید پڑھیے: ایران اسرائیل جنگ، ہوا کیا؟
موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران تاثر یہی دیا تھا کہ جیت کی صورت وہ اس سسٹم کو الٹ دیں گے اور وال اسٹریٹ کے سیٹھوں کا کھیل ختم کردیں گے۔ جیت کے بعد انہوں نے کابینہ کے لیے نامزدگیاں شروع کیں تو اس میں بھی ایسے افراد شامل کیے جن میں سے بعض وال اسٹریٹ کے ایجنڈوں کے مخالف سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اقتدار کے پہلے چھ ماہ میں ہی واضح ہوچکا کہ صدر ٹرمپ سیٹھوں سے پنگے کے موڈ میں نہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال جنگوں کی صورت دیکھی جاسکتی ہے۔ وال اسٹریٹ کے سیٹھوں کا سب سے بڑا پروجیکٹ جنگ ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا ہمیشہ کہیں نہ کہیں جنگ میں ضرور مشغول نظر آتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ بات مسلسل دہراتے رہے کہ اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو یوکرین کی جنگ شروع ہی نہ ہوتی۔ لیکن اب شروع ہے تو میں آتے ہی 24 گھنٹوں کے اندر اندر اسے ختم کروا دوں گا۔
جب برسر اقتدار آئے تو پہلا یوٹرن یہ لیا کہ جو جنگ بقول ان کے انہوں نے 24 گھنٹے کے اندر اندر ختم کرنی تھی، اس کے خاتمے کی نئی مدت 100 دن مقرر کردی۔ اور جب وہ 100 دن بھی پورے ہوگئے تو فرمایا، مزید 100 دن درکار ہیں۔ اور جب وہ 100 دن بھی پورے ہوگئے تو کل ہی فرمایا
’یوکرین کو اسلحے کی فراہمی جاری رہے گی’یہی چیز ہم نے غزہ کے قتل عام کے معاملے میں بھی دیکھی۔ علامتی طور پر اپنے حلف والے دن سے اگلے 2،3 ہفتوں تک تو انہوں نے سیز فائر کروایا مگر اس کے بعد نہ صرف یہ کہ وہ قتل عام پھر سے جاری ہوا بلکہ بات ایران پر حملے تک جا پہنچی۔ یہ بات درست ہے کہ ایران کی 3 ایٹمی تنصیبات پر امریکی بمباری اس طرح کی گئی کہ یہودی لابی والے سیٹھ بھی خوش ہوجائیں اور ایران کا زیادہ نقصان بھی نہ ہو۔ مگر سیٹھ اس جھانسے میں آئے نہیں۔ سیٹھوں کو کسی مخبر کی ضرورت ہی نہ پڑی، خود ایرانیوں نے فخریہ اعلان کردیا کہ ہمارا تو کچھ بھی نہیں بگڑا۔ فردو کا پلانٹ بالکل محفوظ ہے۔ یوں اب سیٹھوں نے ٹرمپ پر نیا دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے
’جاؤ کام پورا کرکے آؤ‘خود ٹرمپ کی اوور ایکٹنگ بھی اس کے گلے پڑ گئی ہے۔ عام طور پر صدر امریکا جب قوم کو کسی بڑے ہدف کے حصول کی خبر دیتا ہے تو وہ تنہا ٹی وی پر نمودار ہوتا ہے اور 5، 10 منٹ کی گفتگو میں سادہ لفظوں میں اطلاع دے کر کسی سوال جواب کے بغیر لوٹ جاتا ہے۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ جب ایران کے ایٹمی پروگرام کے نیست و نابود ہونے کی خبر دینے آئے تو تنہا نہیں تھے۔ ان کے دائیں جانب نائب صدر، بائیں جانب وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی کھڑے تھے۔ الفاظ کا انتخاب بھی پاکستانی فرقہ پرست خطیبوں کی طرح بھاری بھرکم کیا۔ اور 45 منٹ تک یہ اوور ایکٹنگ جاری رکھی۔ یوں اگلے ہی دن سے ان کے سب بڑے مبالغے ’نیست و نابود کردیا‘ کا ہر طرف مذاق اڑنا شروع ہوگیا۔ امریکی میڈیا میں جب کوئی مہم منظم انداز سے شروع ہوجائے تو اس کا سیدھا مطلب ہوتا ہے کہ یہ سیٹھوں کا آڈر ہے۔ سو 2 ہفتے تک ٹرمپ کے “نیست ونابود” کا مذاق اڑایا گیا اور جب اس کے نتیجے میں مطلوبہ ماحول بن گیا تو اب باقاعدہ فرمائش ہو رہی ہے کہ تم نے کام ٹھیک سے نہیں کیا۔ جاؤ کام پورا کرکے آؤ۔ فی الحال صدر ٹرمپ من من کر رہے ہیں مگر ماہرین کی رائے یہی ہے کہ ایران پر ایک اور حملے کا امکان پوری طرح موجود ہے۔
مزید پڑھیں: دیوار گریہ پر درج نوشتہ دیوار
سوال یہ ہے کہ سیٹھ تو چلیے اپنے مالی مفاد کے لیے جنگیں بھڑکاتے ہیں۔ انہیں ٹارگٹ ملک کے وسائل پر قبضہ مطلوب ہوتا ہے۔ لیکن امریکی سیاستدان، فوج، انٹیلی جنس ادارے، میڈیا، اور تھنک ٹینکس کس خوشی میں ان جنگوں کے حق میں مہم چلاتے ہیں؟ اس کا جواب فی الحال اس اشارے کی صورت لے لیجیے جسے ہم انشاءاللہ اگلے کالم میں پوری طرح کھولیں گے۔ اشارہ یہ ہے کہ آپ نے نوم چومسکی اور جولین اسانج وغیرہ کی زبان سے امریکی دفاعی بجت اور جنگی اخراجات کی ضمن میں ’منی لانڈرنگ مشین‘ کا ذکر تو سنا ہی ہوگا۔ یہی وہ چیز ہے جس کے لیے پورا امریکی نظام جنگ کے حق میں رہتا ہے۔ یہ منی لاڈرنگ کس طرح ہوتی ہے، اور اس کے نتیجے میں امریکہ 36 کھرب ڈالرز کے قرضوں تلے کیسے ڈوب رہا ہے، اس پر بات کریں گے اگلے کالم میں، جس سے آپ پر واضح ہوجائے گا کہ عام امریکی شہری تو کیا خود امریکی صدر بھی آزاد نہیں ہے۔ اور یہ کہ غلامی آج بھی اپنی بدترین شکل میں موجود ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی صدر صدر ڈونلڈ ٹرمپ وال اسٹریٹ یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی صدر صدر ڈونلڈ ٹرمپ وال اسٹریٹ یوکرین ڈونلڈ ٹرمپ صدر امریکا میں بھی ہوتا ہے ہوتی ہے اور یہ کے لیے
پڑھیں:
نیتن یاہو کی غزہ پر کسی بڑے پیشرفت کے بغیر امریکا سے واپسی؛ اعلامیہ بھی جاری نہیں ہوا
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو غزہ مذاکرات پر کسی پیش رفت کے بغیر وائٹ ہاؤس کا دورہ مکمل کرکے واپسی کی تیاری شروع کردی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دو روز میں 2 بار ملاقات کی۔
نیتن یاہو نے ملاقات کے بعد کہا کہ ہم ایک لمحے کے لیے بھی کوششوں کو ترک نہیں کر رہے اور یہ ہماری فوجی دباؤ کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں اپنے تین بنیادی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی، حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیت کا خاتمہ اور غزہ کو اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بننے دینا شامل ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے مزید کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ کارروائی کے بعد امن کے امکانات میں وسعت آئی ہے اور ابراہیم معاہدوں کا دائرہ بڑھایا جا سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نے یہ ملاقاتیں وائٹ ہاؤٔس کے اوول آفس میں ہوئیں جس میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس بھی شریک تھے۔
تاہم ملاقات کے مرکزی وجہ یعنی غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے کسی بڑی پیش رفت کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔
دونوں رہنماؤں نے پیر کی رات عشائیے میں ایک دوسرے کی بھرپور تعریف کی۔ نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگی کا خط بھی پیش کیا اور کہا کہ ایران کے خلاف امریکی کارروائیوں سے خطے میں امن کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
ان ملاقاتوں کے فوری بعد امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف معاہدے کے حوالے سے پُرامید نظر آرہے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ کوئی بڑا اعلان سامنے آسکتا ہے۔
تاہم اسٹیو وٹکوف نے اپنا دوحہ کا دورہ ملتوی کر دیا جہاں وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری بالواسطہ مذاکرات میں شرکت کرنے والے تھے۔
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات ابھی تک کسی نتیجے تک نہیں پہنچے۔
اگرچہ چند اہم نکات پر اتفاق رائے ہو چکا ہے لیکن جنگ بندی کے دوران فوجی انخلا اور معاہدے کی شرائط پر حماس اور اسرائیل کے درمیان ابھی بھی گہرے اختلافات باقی ہیں۔
سعودی نشریاتی ادارے الشرق کے مطابق قطر میں مذاکرات کا پانچواں دور بھی بغیر کسی اہم پیش رفت کے ختم ہوگیا۔
ایک فلسطینی اہلکار نے بتایا کہ اسرائیلی وفد صرف سننے تک محدود ہے اور تمام امور میں نیتن یاہو اور وزیر برائے اسٹریٹجک امور رون ڈرمر سے مشورہ کر رہا ہے۔
اسرائیل کا مطالبہ رہا ہے کہ 60 دن کی ممکنہ جنگ بندی کے دوران جنوبی غزہ کے مورگ کاریڈور میں آئی ڈی ایف کی موجودگی برقرار رہے۔